سوال
ہمارے اسکول میں دو بجے چھٹی ہوتی ہے، جبکہ ظہر کی نماز چھٹی کے بعد پڑھنی پڑتی ہے۔ ہمارے ہاں زوال کا وقت 12 بج کر 2 منٹ پر ختم ہو جاتا ہے۔ کیا اس کے بعد ہم ظہر کی نماز پڑھ سکتے ہیں کیونکہ اس وقت وقفہ ہوتا ہے؟
بعض لوگ کہتے ہیں کہ گرمیوں میں ظہر کی نماز ٹھنڈی کر کے پڑھنی چاہیے۔ کیا یہ حدیث صرف سفر کے لیے خاص ہے یا عام؟
(ظفر اقبال)
الجواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب زوال ہونے کا یقین ہو جائے، تو اس کے فوراً بعد یا تھوڑی دیر بعد ظہر کی نماز پڑھنا جائز ہے، جیسا کہ عام احادیث سے ثابت ہے۔
گرمیوں میں ظہر کی نماز ٹھنڈی کر کے پڑھنے کی حدیث
صحیح بخاری میں حدیث ہے:
"قال: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر ….. فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إن شدة الحر من فيح جهنم، فإذا اشتد الحر فأبرِدوا بالصلاة”
ترجمہ:
"ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے ہے۔ لہٰذا جب گرمی بہت زیادہ ہو تو نماز کو ٹھنڈی کر کے (یعنی تاخیر سے) پڑھو۔”
(صحیح بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب الابراد بالظہر فی السفر، حدیث: 539)
فقہی اصول: مطلق کو مقید پر محمول کیا جائے گا
چونکہ یہ حدیث سفر کے موقع پر بیان کی گئی ہے، اس لیے فقہی قاعدے کے مطابق:
مطلق روایات (جن میں عام حکم ہو) کو مقید روایات (جن میں کسی خاص حالت کا ذکر ہو) پر محمول کیا جاتا ہے۔
اس لیے "ابردوا بالصلوٰۃ” (نماز ٹھنڈی کرو) والی حدیث سفر کے ساتھ خاص مانی جائے گی، نہ کہ ہر حالت میں۔
رسول اللہ ﷺ کا مدینہ میں عمل
مدینہ میں نبی کریم ﷺ زوال کے ساتھ ہی ظہر کی نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔
جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے:
"فقام علی المنبر”
(صحیح بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب وقت الظہر عند الزوال، حدیث: 540)
موجودہ صورت حال میں حکم
اگر اسکول میں زوال کا وقت 12 بج کر 2 منٹ پر ختم ہوتا ہے، تو اس کے فوراً بعد یا کچھ دیر بعد نماز پڑھنا درست ہے۔
اسکول کی چھٹی 2 بجے ہوتی ہے، تو نماز کی ادائیگی میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ:
◈ زوال کے بعد سے لے کر عصر کے وقت تک ظہر کا وقت ہوتا ہے۔
◈ بہتر یہی ہے کہ نماز اول وقت میں ادا کی جائے، تاہم مشقت یا مجبوری کی صورت میں کچھ تاخیر جائز ہے۔
خلاصہ:
◈ ظہر کی نماز زوال کے فوراً بعد پڑھنا سنت اور عام حالات میں بہتر ہے۔
◈ گرمیوں میں نماز کو تاخیر سے پڑھنے کی جو حدیث ہے، وہ سفر سے مخصوص ہے۔
◈ مدینہ منورہ میں رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ زوال کے ساتھ ہی نماز ادا کرتے تھے۔
◈ اسکول کی مصروفیت کے باعث 2 بجے نماز پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں، بشرطیکہ وقت ختم نہ ہو۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب