کیا ہر اختلاف رکھنے والا یہودی ایجنٹ یا داعش ہے
تحریر: آصف محمود

معروف دانشور آصف محمود کے خیالات

معروف دانشور آصف محمود نے اپنے کالم میں معاشرتی اور فکری تضادات پر روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے جناب خورشید ندیم اور اسرار عالم کی آراء کے ذریعے موجودہ سماجی و فکری رویوں پر سوال اٹھایا ہے۔ تحریر میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ کس طرح مختلف معیارات کے تحت ایک ہی شخص کو کبھی "یہودی ایجنٹ” اور کبھی "داعش” قرار دیا جا سکتا ہے۔

اسرار عالم کی یہودی سازشوں کی فہرست

اسرار عالم نے اپنی کتاب ’عالمِ اسلام کی اخلاقی اور سیاسی صورتحال‘ میں مسلمانوں کے معاشرتی مسائل کو یہودی سازش قرار دیا ہے۔ ان کے پیش کردہ نکات درج ذیل ہیں:

  • مسلمان نوجوانوں کا ننگے سر رہنا (صفحہ 321)
  • آبادی کا شہروں میں منتقل ہونا (صفحہ 321)
  • لڑکیوں کے نام ندا، حنا، سیما رکھنا (صفحہ 322)
  • عصمت چغتائی، سعادت حسن منٹو اور میرا جی کی تحریریں (صفحہ 324)
  • جامعہ ملیہ اسلامیہ میں غالب کا مجسمہ نصب کرنا (صفحہ 325)
  • شادی بیاہ پر ویڈیو بنانا (صفحہ 326)
  • مسلم خواتین کا ڈرائیونگ کی اجازت کا مطالبہ (صفحہ 326)
  • جمعہ کی چھٹی نہ کرنا (صفحہ 328)
  • اقوامِ متحدہ کا قیام (صفحہ 345)
  • انسانی حقوق کی بین الاقوامی تحریک (صفحہ 298)
  • تعلیمی اداروں میں غیر نصابی سرگرمیاں (صفحہ 319)
  • ڈرامہ کلچر کا فروغ (صفحہ 364)
  • بیوٹی پارلرز کا قیام (صفحہ 363)

ان نکات کے بعد آصف محمود لکھتے ہیں کہ اگر ان تمام چیزوں کو یہودی سازش سمجھا جائے تو شاید کوئی مسلمان یہودی ایجنٹ ہونے سے بچ نہیں سکتا۔

خورشید ندیم کے خیالات: "کیا میں داعش ہوں؟”

جناب خورشید ندیم نے اپنے کالم میں داعش کے نظریاتی پہلوؤں کو واضح کیا ہے اور ان لوگوں کو داعش سے جوڑا ہے جو درج ذیل خیالات رکھتے ہیں:

سودی معیشت پر اعتراض

خورشید ندیم کے مطابق جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ:

  • ملک میں سودی نظام رائج ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف جنگ ہے۔
  • حکمران طبقہ اس کے خاتمے کے لیے تیار نہیں اور یہ نفاق ہے۔

ایسے افراد کو وہ داعش سے جوڑتے ہیں۔ آصف محمود سوال کرتے ہیں کہ اگر سودی معیشت پر تنقید کرنا داعش ہونا ہے تو پھر وہ خود بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔

کرپٹ سیاسی نظام پر اعتراض

خورشید ندیم کے نزدیک جو افراد یہ سمجھتے ہیں کہ:

  • پاکستان میں کرپٹ سیاسی مافیا مسلط ہے۔
  • مروجہ جمہوری نظام کے ذریعے اس سے نجات ممکن نہیں۔

وہ بھی داعش سے تعلق رکھتے ہیں۔ آصف محمود سوال کرتے ہیں کہ کیا کرپٹ نظام پر تنقید کرنا داعش کا بیانیہ ہے؟

حکمرانوں کے خلاف نفرت

خورشید ندیم کہتے ہیں کہ جو افراد:

  • حکمران طبقے کے رویے پر تنقید کرتے ہیں اور انہیں عوام کا خیرخواہ نہیں سمجھتے۔
  • حکمرانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دیتے ہیں۔

ان کا تعلق بھی داعش سے ہے۔ آصف محمود اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ کیا کسی حکمران کے پروٹوکول یا عوامی مسائل پر تنقید بھی نفرت کو ہوا دینا کہلائے گی؟

بھارتی وزیرِ اعظم پر تنقید

خورشید ندیم کے مطابق جو لوگ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو مسلمانوں کا قاتل سمجھتے ہیں اور اس سے تعلقات قائم کرنے کو غداری کہتے ہیں، وہ بھی داعش کے دائرے میں آتے ہیں۔

آصف محمود سوال کرتے ہیں کہ کیا مودی کو قاتل کہنا علمی یا جمہوری رویوں کے خلاف ہے؟ اختلافِ رائے کو داعش کے فتوے سے دبانا مکالمے کا متبادل نہیں ہو سکتا۔

فکری تقسیم اور معاشرتی اثرات

آصف محمود نے اپنی تحریر میں اس بات پر زور دیا ہے کہ مختلف معیارات کے ذریعے لوگوں کو "یہودی ایجنٹ” یا "داعش” قرار دینا ایک غیر معتدل رویہ ہے۔ اس طرح کی تقسیم معاشرے میں خوف اور انتشار پیدا کرتی ہے۔ ان کے مطابق اختلافِ رائے فطری ہے، اور اس کا حل مکالمے میں ہے نہ کہ الزامات میں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1