297۔ کیا مریض کا علاج کرنا افضل ہے یا اسے چھوڑنا افضل ہے ؟
جواب :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«من استطاع منكم أن ينفع أخاه فليفعل»
”جو تم میں سے اپنے بھائی کو فائدہ دینے کی طاقت رکھتا ہے، وہ ایسا کرے۔“
[صحيح مسلم رقم الحديث 2199]
مریض کا علاج کرنا کبھی مستحب اور کبھی واجب ہو جاتا ہے، کیوں کہ وہ مظلوم ہوتا ہے اور مظلوم کا دفاع اور مدد لازم ہے، کیوں کہ مظلوم کی مدد کا حکم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے۔
مصیبت زدہ کے لیے مناسب ہے کہ وہ دعا و ذکر کا اہتمام کرے۔ لیکن جن کو حکم کرنا، ان کو قید کرنا اور ان کو ڈانٹا، ان کو گالی گلوچ اور لعن طعن کرنا وغیرہ کسی طرح جائز نہیں، ایسا کرنے والے اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں، اس لیے کہ جب دم کرنے والا معالج ان پر اس طرح سے زیادتی نہیں کرے گا، جیسے کچھ شدت پسند کرتے ہیں کہ جن کو وہ قتل کی دھمکی دیتے ہیں، حالاں کہ اس کا قتل جائز نہیں، اسے قید کرنے کا حکم دیتے ہیں جسے قید کرنے کی ضرورت نہیں، جب وہ یہ رویہ اپناتے ہیں تو جن ان کے مقابلے میں کھڑے ہو جاتے ہیں، پھر کسی کو قتل کر دیتے اور کسی کو بیمار اور کسی کے اہل و عیال میں ضرر کا باعث بنتے ہیں، لیکن جو ان کی عداوت ختم کرنے میں اس عدل پر چلے گا، جس کا اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے، وہ ان پر ظلم نہیں کرے گا، بلکہ وہ مظلوم کی مدد اور بےآسرا لوگوں کے ساتھ تعاون اور مصیبت زدہ سے مصیبت دور کرنے میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانبردار ہو گا اور وہ شرعی طریقہ اپنائے گا جس میں خالق کے ساتھ کوئی شرک نہ ہو اور مخلوق کے ساتھ ظلم نہ ہو۔ ایسے شخص کو جن کوئی تکلیف نہیں دے سکتے۔ یا تو اس وجہ سے کہ انھیں علم ہے کہ یہ شخص حق پر ہے یا پھر وہ اس کے مقابلے سے عاجز ہیں۔