کیا لاعلمی میں دی گئی دوا سے طلاق واقع ہوگی؟
ماخوذ:فتاویٰ علمائے حدیث کتاب الصلاۃ جلد 1

سوال

محترم مفتی صاحب، میرا ایک دوست نفسیاتی مریض ہے اور زیر علاج ہے۔ وہ اپنی بیماری کو ماننے سے انکار کرتے ہیں اور دوائی لینے سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ ڈاکٹر کی ہدایت پر، انہیں چائے وغیرہ میں ملا کر دوائی دی جاتی ہے، جس کا انہیں علم نہیں ہوتا۔ اگر دوائی نہ دی جائے تو ان کی حالت بگڑ جاتی ہے اور وہ گھر کے افراد کو نقصان پہنچانے لگتے ہیں۔ حال ہی میں انہیں شک ہوگیا کہ انہیں دوائی دی جا رہی ہے اور انہوں نے دھمکی دی کہ ’’اگر کسی نے مجھے لاعلمی میں دوائی دی تو میری بیوی کو طلاق ہے۔‘‘ بعد میں ان کی ہمشیرہ نے انہیں چائے میں ملا کر دوائی دے دی۔ کیا اس صورت میں طلاق واقع ہوگئی؟ اگر ہاں، تو اس مسئلے کا کیا حل ہے کیونکہ دوائی نہ دینے سے بیماری بڑھ سکتی ہے۔ براہ کرم اس سوال کا جلد جواب دیں۔

الجواب

اس مسئلے میں علماء کا اختلاف پایا جاتا ہے:

اکثر علماء کا موقف ہے کہ طلاق واقع ہو جائے گی کیونکہ یہ طلاق ایک شرط پر معلق ہے، اور جب شرط پوری ہو جائے تو طلاق بھی واقع ہو جاتی ہے۔
(المغنی: 7/372)

بعض اہل علم جیسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر طلاق قسم کی صورت میں ہو اور طلاق دینے والے کا مقصد کسی کام سے روکنا یا کسی کام پر ابھارنا ہو، اور طلاق کی نیت نہ ہو، تو ایسی صورت میں قسم توڑنے پر صرف قسم کا کفارہ ادا کرنا ہوگا، اور طلاق واقع نہیں ہوگی۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے بھی یہی فتویٰ دیا ہے۔ لہذا، آپ کے دوست کی نیت دیکھی جائے گی:

➊ اگر انہوں نے شرط پوری ہونے پر طلاق کی نیت کی تھی تو طلاق واقع ہو گئی۔
➋ لیکن اگر ان کا مقصد صرف اپنے آپ یا کسی کو کسی کام سے روکنا یا کسی کام پر مجبور کرنا تھا اور طلاق کا ارادہ نہ تھا، تو اس صورت میں قسم توڑنے پر صرف کفارہ ادا کرنا لازم ہوگا اور طلاق واقع نہیں ہوگی۔

نصیحت

خاوند کو چاہئے کہ وہ اللہ سے ڈرنے کا رویہ اپنائے اور طلاق کی قسم اٹھانے سے باز رہے۔ طلاق کی قسم کا زیادہ استعمال حرام زندگی گزارنے تک لے جا سکتا ہے۔ آج کل یہ مسئلہ عام ہو چکا ہے کہ لوگ بار بار طلاق دینے کے باوجود بیوی کے ساتھ رہتے ہیں اور اس طرح حرام زندگی بسر کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں اولاد بھی حرام شمار ہوتی ہے۔ اگر خاوند اپنی زبان کو قسم سے محفوظ رکھے تو اس کا معاملہ آسان رہتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے