بعض علماء کے نزدیک قربانی کے چار دن ہیں اور بعض علماء کے نزدیک قربانی کے تین ایام ہیں ، ہر ایک کے پاس دلائل موجود ہیں ، دلائل کی روشنی میں ہم یہ پرکھنا چاہتے ہیں کہ کس کے دلائل مضبوط ہیں پہلے ہم چار دن کے دلائل پر بحث کرتے ہیں:
(1) جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ایام تشریق ذبح کے دن ہیں۔ (مسند احمد ج ٤، ص 82)
اگرچہ اس روایت کے متعلق کہا جاتاہے کہ یہ منقطع ہے۔
لیکن امام ابن حبان اور امام بیہقی نے اسے موصولاً بیان کیا ہے ،
اور علامہ البانی رحمہ اللہ علیہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ (الجامع الصغیر حدیث 4537)
بعض فقہاء نے عید کے بعد صرف دو دن تک قربانی کی اجازت دی ہے ان کی دلیل درج ذیل ہے:
قربانی یوم الاضحی کے بعد دو دن پے۔ (بیہقی ص 297ج 1)
لیکن یہ قول ابن عمر رضی اللہ عنہ یا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اپنا قول ہے اس لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرفوع حدیث کے مقابلہ میں پیش نہیں کیا جا سکتا ، لہذا قابل حجت نہیں ہے علامہ شوکانی رحمہ اللہ علیہ نے اس کے متعلق پانچ مذاہب ذکر کیے ہیں پھر اپنا فیصلہ ان الفاظ میں لکھا ہے:
تمام ایام تشریق ذبح کے دن ہیں اور وہ یوم النحر کے بعد تین دن ہیں۔
(نیل الاوطار ج5-ص125)
واضح رہے پہلے دن قربانی کرنا زیادہ فضیلت کا باعث ہے کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسی پر عمل پیرا رھے ہیں ، لہذا بلاوجہ قربانی دیر سے نہ کی جائے اگرچہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ غرباء ومساکین کو فائدہ پہنچانے کیلئے تأخیر کرنا افضل ہے ، لیکن یہ محض ایک خیال ہے، جس کی کوئی منقول دلیل نہیں نیز اگر کسی نے 13ذوالحجہ کو قربانی کرنی ہوتو غروب آفتاب سے پہلے پہلے قربانی کردے کیونکہ غروب آفتاب کے بعد اگلا دن شروع ہوجاتا ہے یہ وہ دلائل میں جن کو مختلف علمائے کرام حجت سمجھ کر قربانی کے چار دن تصور کرتے ہیں:
مضمون کے اہم نکات:
چار دن قربانی سے متعلق روایات کی تحقیق
پہلی روایت:
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ مِثْلَهُ، وَقَالَ: ” كُلُّ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ذَبْحٌ“
ترجمہ: تمام ایام تشریق ذبح کے دن ہیں۔ (مسند أحمد حدیث: ١٦٧٥٢)
یہ روایت منقطع ہے کیونکہ سُلَْیمَان بن مُوْسیٰ نے جُبَیْر بن مَطْعَم رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا امام بَیْہقی نے اس روایت کے بارے میں فرمایا : (مُّرْسَلٌ ) یعنی مُنْقَطِعْ دیکھئے سنن الکبری للبیہقی ج 5ص (239) جدید نسخۂ ج 9ص (295)
امام ترمذی کی طرف منسوب (کتاب العلل ) میں امام بخاری سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:
سلیمان لم یدرک أحدا من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم یعنی سلیمان بن موسیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام میں سے کسی ایک کو بھی نہیں پایا۔
علی الکبیر ج 1ص (313)
اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ کسی صحیح دلیل سے یہ ثابت نہیں ہے کہ سلیمان بن موسیٰ نے جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کو پایا ہے آنے والی روایت نمبر 2سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ سلیمان بن موسیٰ نے جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت نہیں سنی۔ نیز دیکھئیے نصب الرایہ ج 3ص (61)
دوسری روایت:
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كل أيام التشريق ذبح.
”تمام ایام تشریق ذبح دن کے ہیں۔“
یہ حدیث جمیع سندوں کے ساتھ ضعیف ہے۔
1: اس کو ابو نصر التمار عبد الملک بن عبدالعزیز القشیری نے سعید بن عبدالعزیز عن سلیمان بن موسی عن عبدالرحمن بن ابی حسین عن جبیر بن مطعم کی سند سے مرفوع روایت کیا ہے:
تیسری روایت:
” و فی کل ایام التشریق ذبح“
”ایام تشریق (11، 12، 13ذوالحجہ) کا ہر دن قربانی کا دن ہے۔ “
(مسند البزار (کشف الاستار: 1126)، الکامل لابن عدی: 3/269، نسخہ اخری: 3/1118، واللفظ لہ، سنن الکبری للبیھقی: 9/۲۹۵، ۲۹۶، ۔ المحلی لا بن حزم: 7/272))
اس کو امام ابن حبان (3854) نے صحیح کہا ہے۔
تبصرہ:
یہ سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وفی اسناد انقطاع، فانّہ من روایۃ عبداللہ (والصواب عبدالرحمن)بن ابی حسین عن جبیر بن مطعم، ولم یلقہ۔
”اس کی سند میں انقطاع ہے، یہ عبدالرحمن بن ابی حسین کی روایت ہے، وہ جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے نہیں ملے۔ “
(التلخیص الحبیر: 2/255)
عبدالرحمن بن ابی حسین النوفلی”مجہول الحال“ہے،
امام ابن حبان رحمہ اللہ کے علاوہ کسی نے اس کی توثیق بیان نہیں کی۔
دوسری سند
2: اس روایت کو ابو المغیرہ عبدالقدوس بن الحجاج الحمصی (ابوالیمان الحکم بن نافع الحمصی، مسند احمد: ۴/۸۲، بیہقی: ۹/۲۹۵) نے سعید عن سلیمان بن موسی عن جبیر بن مطعم کی سند سے روایت کیا ہے۔
(مسند الامام احمد: ۴/۸۲، السنن الکبری للبیہقی: ۵/۲۳۹، ۹/۲۹۵ )
تبصرہ:
اس کی سند بھی انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے،
امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ھذا ھو الصحیح، وھو مرسل
”یہ صحیح ہے، لیکن یہ مرسل ہے“
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ھکذا رواہ احمد، وھو منقطع، فان سلیمان بن موسی الاشدق لم یدرک جبیر بن مطعم
”امام احمد نے اس حدیث کو اسی طرح بیان کیا ہے اور یہ منقطع ہے، کیونکہ سلیمان بن موسی الاشدق نے سیدنا جبیر بن مطعم کا زمانہ نہیں پایا۔ “
( نصب الرایہ للزیلعی: ۳/۶۱ )
تیسری سند
3: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اخرجہ احمد لکن فی سندہ انقطاع، ووصلہ الدارقطنی و رجالہ ثقات
اس کو امام احمد نے روایت کیا ہےلیکن اس کی سند میں انقطاع ہے۔
اس کو (دارقطنی ۴/۲۸۴، ح: ۴۷۱۱، ۴۷۱۲)نے موصول ذکر کیا ہے، اس کے راوی ثقہ ہیں۔
(فتح الباری: ۱۰/۸)
تبصرہ:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا یہ دعوی کے امام دارقطنی نے اس کو موصول کیا ہے، محل نظر ہے۔ سوید بن عبدالعزیز کا سعید بن عبدالعزیز التنوخی سے سماع مطلوب ہے۔
نیز حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ اس کے راوی ثقہ ہیں، بالکل صحیح نہیں، خود حافظ ابن حجر نے اس راوی سوید بن عبدالعزیز کو”ضعیف“قرار دیا ہے۔
(تقریب التہذیب: ۲۶۹۲، لسان المیزان: ۴/۳، فتح الباری: ۱/۵۷۲)
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ضعفہ احمد وجمھور الائمۃ ووثقہ دحیم
”اس کو امام احمد اور جمہور ائمہ نے ضعیف اورامام دحیم نے ثقہ کہا ہے۔ “
(مجمع الزوائد: ۳/۱۴۸، ۷/۸۹)
امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وھذا غیر قوی لان روایہ سوید
”یہ سند قوی نہیں ہے، کیونکہ اس کا راوی سوید بن عبدالعزیز ہے۔“
(السنن الکبری للبیہقی: ۵/۲۳۹)
چوتھی سند
4: عمرو بن ابی سلمہ التّنّیسی عن حفض بن غیلان عن سلیمان بن موسی ان عمرو بن دینار حدثہ عن جبیر بن مطعم رفعہ: کل ایام التشریق ذبح
تبصرہ
یہ سند ضعیف ہے،
اس کا راوی احمد بن عیسیٰ الخشاب مجروح ہے، امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”یہ قوی نہیں ہے۔ “
(سوالات السلمی: ۶۲)
ابنِ طاہر کہتے ہیں:
پرلے درجے کا جھوٹاراوی ہے اور حدیثیں گھڑتا ہے۔
(لسان المیزان: ۱/۲۴۰)
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”یہ مشہور راویوں کی طرف کی طرف منکر روایتیں منسوب کرکے بیان کرتا ہے اورثقہ راویوں کی طرف مقلوبات منسوب کرکے بیان کرتا ہے، یہ منفرد ہوتو ناقابل حجت ہے۔ “
(المجروحین: ۱/۱۴۶)
امام ابن یونس کہتے ہیں:
و کان مضطرب الھدیث جدّا
”اس کی حدیث سخت مضطرب ہوتی ہے۔ “
(لسان المیزان لابن حجر: ۱/۲۴۰)
اس پر توثیق کا ایک حرف بھی ثابت نہیں ہے۔
پانچویں سند
5: سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ایام التشریق کلھا ذبح
”ایام تشریق سارے کے سارے قربانی کے دن ہیں۔“
(الکامل لابن عدی: ۶/۴۰۰ )
تبصرہ:
یہ سخت ترین”ضعیف“ہے، اس کا راوی معاویہ بن یحیی الصدفی جمہور کے نزدیک”ضعیف“ہے۔
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وضعّفہ الجمھور
جمہور نے اس کو ”ضعیف“کہا ہے۔
(مجمع الزوائد للہیثمی: ۳/۸۵ )
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”کہ یہ ضعیف ہے۔ “
(تقریب التہذیب: ۶۷۷۲ )
اس میں اما م زہری رحمہ اللہ کی تدلیس ہے، پھر امام زہری نے اسے”مرسل“ بھی بیان کیا ہے۔
الحاصل:
حدیث ایام التشریق کلھا ذبح
(ایام تشریق سارے کے سارے قربانی کے دن ہیں)جمیع سندوں کے ساتھ ضعیف ہے۔
تیسری روایت
سلیمان بن موسیٰ عن عبدالرحمن ابن ابی حسین بن مطعم رضی اللہ عنہ کی سند سے مروی ہے کہ
وفی. کل ایام التشریق ذبح .
(صحیح ابن حبان الاحسان حدیث 3843، 3854، مسند البزار کشف الاستار ج2ص27حدیث، 1126)
یہ روایت دو وجہ سے ضعیف ہے۔
پہلی وجہ حافظ البزار نے فرمایا ہے۔
وابن ابی حسین لم یلق جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ
ترجمہ اور (عبدالرحمن )ابن أبی حسین کی جبیر رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہیں ہوئی۔
بحرالزخار ج,8ص364حدیث (3444)
نیز دیکھئیے: (نصب الرایہ ج3.ص61 یہی بات والتمید نسخۂ جدید ج100ص (283)
دوسری وجہ عبدالرحمن بن أبی حسین کی توثیق (امام ابن حبان )نے اپنی کتاب (الثقات ج5,ص 109)کے علاوہ کسی اور سے ثابت نہیں ہے لہذا یہ راوی مجہول الحال ہے۔
تنبیہ:
روایۃ مجھول الحال:
وہ حدیث جس کا راوی ”مجہول الحال“ ہو، یعنی اس کے متعلق ائمہ فن کا کوئی تبصرہ نہ ملتا ہو اور اس روایت کرنے والے کل دو آدمی ہوں جس کے باعث اس کی شخصیت معلوم اور حالت مجہول ٹھہرتی ہو۔ ایسے راوی کو ”مستور“ بھی کہتے ہیں۔
چوتھی روایت
وغیرہم نے سوید بن عبد العزیز عن سعیدبن عبدالعزیز التنوخی عن سلیمان بن موسیٰ عن نافع بن جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ عن ابیہ کی سند سے مرفوعا نقل کیا ہے کہ ایام التشریق کلھا ذبح
سارے ایام التشریق کے ہیں یعنی (١٠-١١-١٢-١٣)
(معجم الکبیر للطبرانی حدیث 1583 ، مسند البزار بحرالزخار حدیث 3443، سنن دارقطنی حدیث 4711)
اس روایت کا بنیادی راوی سوید بن عبد العزیز ضعیف ہے۔
(تقریب التہذیب، راوی نمبر 9692)
حافظ نور الدین ھیمثی نے کہا ہے۔
وضعفہ جمہور الائمہ
اور اسے جمہور اماموں نے ضعیف کہا ہے۔
مجمع الزوائد ج3-ص 147)
کل أیام التشریق ذبح .
یہ روایت سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مرفوعا کئی ایک طرق سے مروی ہے۔
پہلی سند:
سُوَیْدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ أَبِیہِ …….
(السنن الکبرٰی للبیہقي: 5/392 ، السنن للدارقطنی: 5/511ح: 4756، المعجم الکبیر: 2/138، مسند البزار: 8/363ح: 3443)
یہ سند سوید بن عبدا لعزیز کی وجہ سے ”ضعیف “ہے۔
حافظ بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَهذَا غَیْرُ قَوِیٍّ؛ لِأَنَّ رَاوِیَه سُوَیْدٌ .
یہ سند بھی ضعیف ہے کیونکہ اس کا راوی ”سوید “ ہے۔ (حوالہ سابقہ )
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سُوَیْد بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ وَهوَ ضَعِیفٌ .
”سوید بن عبدالعزیز ضعیف راوی ہے۔ “
(تلخیص الحبیر: 3/128، تقریب التہذیب: 2692)
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقد أَجمعوا علی ضعفه .
اس کے ضعیف ہونے پر محدثین کا اتفاق ہے۔
(مجمع الزوائد: 1/141)
دوسری جگہ فرماتے ہیں:
ضَعَّفَه جُمْہُوْرُ الْـأَئِمَة .
”اسے اکثر آئمہ نے ضعیف کہا ہے۔ “ (مجمع الزوائد: 4/160)
حافظ بوصیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سُوَیْدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ ضَعِیفٌ .
”سوید بن عبد العزیز ضعیف ہے۔ “
(إتحاف الخیرۃ المہرۃ: 6/335)
دوسری سند:
سُلَیْمَانُ بْنُ مُوسَی، عَنْ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ …….
(مسند أحمد: 4/82 ح: 1651، السنن الکبرٰی للبیہقي: 5/392)
یہ سند” منقطع“ہے کیونکہ سلیمان بن موسی کی جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے اسے ”مرسل“ (منقطع ) قرار دیا ہے۔ (حوالہ سابقہ )
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سُلَیْمَانُ لَمْ یُدْرِکْ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْه وَسَلَّمَ .
”سلیمان نے کسی بھی صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پایا۔ “
(العلل الکبیر للترمذي: 176)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أَخْرَجَه أَحْمَدُ لٰکِنْ فِیْ سَنَدِہِ انْقِطَاعٌ .
”اسے امام احمد رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے لیکن اس کی سند ”منقطع “ہے۔ “
(فتح الباری: 10/8)
حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رَوَاہُ الْبَیْہَقِیُّ مِنْ طُرُقٍ قَالَ وَهوَ مُرْسَلٌ لِأَنَّه مِنْ رِوَایَة سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی الْـأَسَدِیِّ فَقِیه أَہْلِ الشَّامِ عَنْ جُبَیْرٍ وَلَمْ یُدْرِکْه وَرَوَاہُ مِنْ طُرُقٍ ضَعِیْفَۃٍ مُتَّصِلًا .
”اسے امام بیہقی رحمہ اللہ نے اسے کئی اسناد سے روایت کیا اور فرمایا: یہ مرسل (منقطع)ہے۔ کیونکہ یہ شامی فقیہ سلیمان بن موسی الاسدی کی سیدنا جبیر رضی اللہ سے روایت ہے ، اس نے ان کا زمانہ نہیں پایا ۔ اور (امام بیہقی نے)اسے کچھ متصل ضعیف اسناد سے بھی روایت کیا ہے۔ “
(المجموع شرح المہذ ب: 8/387)
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رُوِیَ مِنْ حَدِیثِ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، وَفِیه انْقِطَاعٌ.
”یہ سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ کی روایت ہے جس میں انقطاع ہے۔ “
(زاد المعاد: 2/291)
محدث البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أنه منقطع بین سلیمان بن موسی وجبیر بن مطعم .
”یہ سند سلیمان بن موسی اور جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کے درمیان منقطع ہے۔ “
(السلسلۃ الصحیحۃ: 5/617)
پانچویں روایت
أَحْمَدُ بْنُ عِیسَی الْخَشَّابُ ، نا عَمْرُو بْنُ أَبِی سَلَمَةَ ، نا أَبُو مُعَیْدٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ دِینَارٍ حَدَّثَه ، عَنْ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ..
قَاْلَ کلُُّ اَیّامِ التَشْرِیْق ذِبْحُُ
(السنن للدارقطني: 5/512ح: 4713، 4758 ، السنن الکبرٰ ی للبیہقي: 9/498)
یہ روایت دو وجہ سے ضعیف اور مردود ہے۔
یہ سند سخت” ضعیف“ ہے ۔
پہلی وجہ
”احمد بن عیسی الخشاب سخت ضعیف ہے۔“
(لسان المیزان: 1/240، 241 ت: 755، المغنی فی الضعفاء: 392، میزان الإعتدال: 1/126ت: 508)
دوسری وجہ
عمرو بن دینار کی جبیر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔
الموسوعۃ الحدیثہ ج (27) ص (317)
چھٹی روایت
الوليد بن مسلم، عن حفص بن غيلان عن سليمان بن موسيٰ عن محمد بن منكدر عن جبير رضى الله عنه قال كل عرفة موقف ، وارفعوا عن عرنة ، وكل مزدلفة موقف ، وارفعوا عن بطن محسر ، وكل فجاج منى منحر ، وكل أيام التشريق ذبح
پورا عرفات وقوف کی جگہ ہے اور عرنہ سے ہٹ کر وقوف کرو اور پورا مزدلفہ وقوف کی جگہ ہے اور وادی محسر سے ہٹ کر وقوف کرو اور منیٰ کا ہر راستہ قربانی کی جگہ ہے اور تشریق کے تمام دن ذبح کرنے کے دن ہیں۔
(صحيح الجامع: 4537، مسند الشامین ح 1556)
اس روایت کی سند میں ولید بن مسلم کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔
خلاصۃ التحقیق
ایام التشریق والی روایات اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف ہے لہذا اس روایت کو حسن یا صحیح قرار دینا غلط ۔ جو روایت اپنی تائید کرتی ھو اسکو صحیح قرار دینا اور جو روایت اگرچہ صحیح بھی ہو اگر وہ اپنی تائید نہ کرتی ہو تو اس کو غلط قرار دینا دوغلی پالیسی ہے اس لئے جوروایت ضعیف ہو اسے ضعیف تصور کیا جائے چاہے اپنے خلاف ہو یا نہ ہوں۔
روایت ھذا کے ضعیف ہونے کے بعد آثار صحابہ کرام کی تحقیق درج ذیل ہے :
(1).و حَدَّثَنِي يَحْيَى عَنْ مَالِك عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ الْأَضْحَى يَوْمَانِ بَعْدَ يَوْمِ الْأَضْحَى
نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: قربانی دو دن تک درست ہے بعد عید الاضحیٰ کے۔
( سنن الكبری للبیہقی برقم: 19254، 19249، 19250)،
(2)وَمَا قَد حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بنُ مَرْزُوْقِ، قَالَ حَدَّثَنَا وَھَبُْ بْنِ جَرِیْر ، قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَن مَیْسَرَۃ بنِ حَبِیْبٍ عَنْ مَنْہَالِ بْنِ عَمْرِو عَنْ سَعِید بن جبیر عَنْ ابِنِ عَبَّاسِ رَضِیْ آللَّـهُ عَنْہُ قَالَ اَلنَحْرُیَوْمَاْنِ بَعْدَیَوْمِ النَحْرِوَاَفْضَلُھَا یَوْمُ النَحرِ
قربانی کے دن کے بعد دو دن قربانی ہے اور افضل قربانی ، ۱۰- (۱۱-۱۲)ذوالحجہ ہے۔
احکام القرآن للطحاوی ج ۲-۲۰۵حدیث (۱۵۷۱) حسن
(3)عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالكٍ رَضِیْ آللَّـهُ عَنْہُ قَالَ اَلاضْحٰي يَوْمَانِ بَعْدَہُ
قربانی والے (اَوَّلْ)دن کے بعد دو دن قربانی ہوتی ہے۔
آحْکاَمُ القُرآن للطحاوی ج2ص206حدیث (1576) سنده صحيح
(4)عَنْ عَلَيَّ بْنِ آ بی طَالِبٍ رَضِیْ آللَّـهُ عَنْہُ الَنَحْرُثَلاَثَۃُاَیَّام
قربانی والے (اَوَّلْ) دن کے بعد دو دن قربانی ہوتی ہے۔
آحْکاَمُ القُرآن للطحاوی ج2ص256حدیث (569) سنده صحيح
تنبیہ :
مذکورہ اثر کی سند جیسے بیان کی جاتی ہے اس کی تصیح ملاحظہ کیجیے۔
احکام القرآن میں حماد بن سلمہ بن کھیل عن حجتہ عن علی ہے جبکہ صحیح عن سلمہ بن کھیل عن حجتہ عن علی ہے۔
جیسا کہ کتب اسماء الرجال سے ظاہر ہے اور حماد سے مرادحماد بن سلمہ ہے ۔ والحمد اللہ
(5)امام ابن حزم رحمہ اللہ علیہ نے کہا ہے وَمِن طَرِیْقِ ابْنِ أَبِیْ شَیْبَۃ حَدَّثَنَا زَیْدِبنُ الْحُبَابِ عَن مُعَاوِیَۃَ بْنِ صَالِحٍ حَدَّثَنِی أَبُو مَرْیَمَ سَمِعْتْ آبَا ہُرَیْرَۃَ یَقُوْلُ الَاضْحٰی ثَلَاثَةُ اَیَّامٍ
(محلی لابن حزم ج 7، 377, حدیث 982)
اس کی روایت کی سند محلی لابن حزم میں حسن ہے۔
تنبیہ :
لیکن مصنف ابن أبی شیبۃ (مطبوعہ )میں یہ روایت نہیں ملی ۔ (واللہ أعلم)
فائدہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا میں تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے سے منع فرمایا تھا بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا، یہ ممانعت اس کی دلیل ہے کہ قربانی تین دن ہے والا قول ہی راجع ہے اس ساری تحقیق کا خلاصہ یہی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحتاً اس بارے میں کچھ بھی ثابت نہیں ہے اور آثار میں اختلاف ہے لیکن حضرت ابو ہریرہ ، حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت ابنِ عمر اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابۂ کرام سے مروی ہے کہ قربانی کے (۱۰-۱۱-۱۲-) تین دن ہیں اور پہلے دن قربانی کرنا افضل ہے۔