کیا عورت اذان کہہ سکتی ہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

کیا عورت اذان کہہ سکتی ہے

امام نوویؒ رقمطراز ہیں کہ اس مسئلے میں تین اقوال ہیں:
➊ خواتین کے لیے اقامت مستحب ہے لیکن اذان نہیں۔ اذان اس لیے نہیں کیونکہ اذان ( اوقات نماز سے ) خبر دار و آگاہ کرنے کے لیے ہوتی ہے اور یہ صرف بلند آواز کے ذریعے ہی ممکن ہے لٰہذا عورتوں کے بر سر عام آواز بلند کرنے میں فتنے کا اندیشہ ہے۔ اس لیے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے :
وليس على النساء آذان و أما أن الإقامة تستحب
”عورتوں پر اذان کہنا لازمی نہیں ہے البتہ اقامت کہنا مستحب ہے۔“
➋ خواتین کے لیے اذان و اقامت دونوں ہی درست نہیں۔ اذان اس لیے نہیں جیسا کہ ابھی بتلایا گیا ہے اور اقامت اس لیے نہیں کیونکہ یہ بھی اس کے تابع ہے۔
➌ اذان و اقامت دونوں مستحب ہیں۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق مروی ہے کہ :
آنـهـا كــانــت تـؤذن و تقيم
[المجموع 146/3-147]
”وہ اذان دیا کرتی تھیں اور اقامت بھی کہا کرتی تھیں ۔ “
(ابن حزمؒ ) عورتوں پر اذان و اقامت کہنا ضروری نہیں لیکن اگر وہ اذان واقامت کہتی ہیں تو بہتر ہے۔ اس کی دلیل (یعنی ان پر عدم وجوب کی ) یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کا حکم صرف انہیں دیا ہے کہ جن پر جماعت میں آ کر نماز پڑھنا فرض کیا ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا :
فليؤذن لكم أحدكم وليو مكم أكبر كم
اور جنہیں یہ حکم دیا گیا ہے خواتین ان میں شامل نہیں ہیں۔
لیکن اذان و اقامت بہر حال اللہ کا ذکر ہے اور انہیں ان کے وقت میں کہنا ایک اچھا فعل ہے اور ہم نے : عن ابن جريج عن عطاء روایت کیا ہے کہ ”عورت اپنی ذات کے لیے اقامت کہہ سکتی ہے اور امام طاؤسؒ نے کہا ہے کہ حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا اذان و اقامت دونوں کہتی تھیں ۔“
[المحلى 129/3]
(شوکانیؒ) ظاہر بات یہی ہے کہ عورتیں بھی (اذان کے حکم میں ) مردوں کی طرح ہی ہیں کیونکہ وہ شقائق الرجال ہیں اور مردوں کے لیے دیا گیا حکم ان کے لیے بھی ہے اور ایسی کوئی دلیل وارد نہیں ہوئی جو ان پر عدم وجوب کے اثبات کے لیے قابل حجت ہو اور جو اس مسئلے میں وارد ہے اس کی سندوں میں متروک راوی ہیں اس لیے ان کے ساتھ حجت لینا جائز نہیں۔ اگر تو عورتوں کو اس مسئلے سے خارج کرنے کی کوئی صحیح دلیل مل جائے تو ٹھیک ورنہ وہ مردوں کی طرح ہی ہیں ۔
[السيل الجرار 197/1-198]
(ابن بازؒ) علماء کے اقوال میں سے صحیح ترین یہی ہے کہ عورتوں پر اذان دینا نہیں ہے۔
[الفتاوى الإسلاميه 326/1]
(راجع) مردوں کی طرح عورتوں کا مسجد میں اذان دینا تو بالکل جائز نہیں اور نہ ہی ایسی جگہ پر اونچی آواز کے ساتھ اذان دینا درست ہے جہاں غیر محرم مردوں تک آواز پہنچنے کا امکان ہو ۔ علاوہ ازیں اگر کسی الگ جگہ میں صرف خواتین کی مجلس یا اجتماع ہو اور غیر محرم مردوں تک آواز کے پہنچنے کا اندیشہ بھی نہ ہوتو ہلکی آواز سے عورت اذان دے سکتی ہے۔ والله اعلم جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے عمل سے یہ بات ثابت ہوتی ہے :
أنها كانت تؤذن وتقيم
[بيهقى 408/1 ، حاكم 203/1 ، عبد الرزاق 126/3 ، ابن أبى شيبة 223/1]
”وہ اذان دیا کرتی تھیں اور اقامت بھی کہا کرتی تھیں ۔ “
(البانیؒ) یہ اور اس طرح کے آثار عمل کے لیے درست ہیں۔
[تمام المنة ص/ 154]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے