کیا عمرہ بھی صاحب استطاعت پر حج کی طرح فرض ہے؟
تحریر: عمران ایوب لاہوری

اسی طرح عمرہ بھی اور ایک سے زیادہ مرتبہ نفل ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
العمرة إلى العمرة كفارة لما بينهما
”ایک عمرہ دوسرے عمرے تک دونوں کے مابین گناہوں کا کفارہ ہے ۔“
[بخاري: 1773 ، كتاب الحج: باب وجوب العمرة وفضلها ، مسلم: 1349 ، ترمذي: 933 ، نسائي: 115/5 ، ابن ماجة: 2888 ، موطا: 346/1 ، عبد الرزاق: 8798 ، حميدي: 1002 ، دارمي: 31/2 ، احمد: 246/2 ، طيالسي: 2423 ، شرح السنة: 5/4 ، بيهقى: 261/5]
فقہا نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے کہ صاحب استطاعت پر عمرہ بھی ایک مرتبہ فرض ہے یا نہیں؟
(احمدؒ ، شافعیؒ) عمرہ واجب ہے۔ حضرت عمر ، حضرت ابن عمر ، حضرت ابن عباس ، حضرت علی رضی اللہ عنہم ، امام حسنؒ ، امام ثوریؒ اور علماء کی ایک جماعت کا یہی موقف ہے۔
(مالکؒ ، ابو حنیفہؒ) یہ سنت ہے ، حضرت جابر رضی اللہ عنہ اور امام شعبیؒ بھی اسی کے قائل ہیں ۔
[الأم: 187/2 ، الحاوى: 33/4 ، الهداية: 183/1 ، المغنى: 13/5 ، نيل الأوطار: 274/3]
(راجح) عمرہ واجب نہیں بلکہ سنت ہے کیونکہ وجوب کی کوئی صحیح دلیل موجود نہیں۔
➊ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی جس روایت میں ہے:
الحج والعمرة فريضتان
”حج اور عمرہ دونوں فرض ہیں ۔ “ وہ ضعیف ہے۔
[الكامل لا بن عدى: 1468/4 ، نصب الراية: 148/3 ، امام ابن حزمؒ نے اس روايت كو جهوٹ اور باطل كها هے۔ المحلى: 37/7]
➋ آیت أَتِمُّوا الحَجَّ وَالْعُمْرَةَ میں عمرے کے وجوب کا نہیں بلکہ ان لوگوں کے لیے اتمام کا حکم ہے جو حج اور عمرہ شروع کر چکے ہوں۔
➌ جس روایت میں ہے: حج عن أبيك و اعتمر ”تم اپنے والد کی طرف سے حج کرو اور عمرہ بھی کرو ۔“ اس میں امر وجوب کے لیے نہیں بلکہ اجازت کے لیے ہے جیسا کہ بیشتر احادیث میں ایسا حکم موجود ہے اور کوئی بھی اسے وجوب پر محمول نہیں کرتا مثلاً ایک حدیث میں یہ حکم ہے کہ :
صلوا فى مرابض الغنم
”بھیڑ بکریوں کے باڑوں میں نماز پڑھو (یعنی پڑھ سکتے ہو) ۔“
[صحيح: صحيح ترمذي: 285 ، كتاب الصلاة: باب ما جاء فى الصلاة فى مرابض الغنم ، ترمذي: 348]
مزید برآں ایک اصولی قاعدہ بھی اس کی تائید کرتا ہے:
صيغة الأمر بعد طلب الإجازة تدل على الإباحة
”کسی چیز کی اجازت مانگنے کے بعد امر کا صیغہ (محض) جواز پر دلالت کرتا ہے۔ “
تاہم عدم وجوب کے قائل حضرات كى يہ دليل وأن تعتمروا هو أفضل اور ایک روایت میں وأن تعتمر خير لك ”یعنی عمرہ تمہارے لیے افضل و بہتر ہے۔“ بہر حال ضعیف ہے۔
[ضعيف: ضعيف ترمذي: 161 ، كتاب الحج: باب ما جاء فى العمرة أواجبة هى أم لا؟ ترمذي: 931 ، ابن خزيمة: 3068 ، اس كي سند ميں حجاج بن ارطاة راوي ضعيف هے۔ المجروحين: 225/1 ، ميزان الاعتدال: 458/1 ، الجرح والتعديل: 154/3 ، حافظ ابن حجرؒ نے بهي اسے ضعيف كها هے۔ فتح الباري: 341/4]
اور جس روایت میں ہے کہ :
الحج جهاد والعمرة تطوع
”حج جہاد اور عمرہ نفل ہے۔“ وہ بھی ضعیف ہے۔
[ضعيف: ضعيف ابن ماجة: 645 ، كتاب المناسك: باب العمرة ، الضعيفة: 200 ، ابن ماجة: 2989 ، طبراني كبير: 442/11 ، حافظ ابن حجرؒ اور حافظ بوصيريؒ نے اسے ضعيف كها هے۔ تلخيص الحبر: 432/2 ، مصباح الزجاجة: 24/3]
(ابن تیمیهؒ ) عدم وجوب کا قول ہی راجح ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صرف حج کو ہی واجب کیا ہے۔
[مجموع الفتاوى: 5/26]
(شوکانیؒ ) حق بات یہی ہے کہ عمرہ واجب نہیں کیونکہ براءتِ اصلیہ سے صرف کوئی ایسی دلیل ہی منتقل کر سکتی ہے جس کے ذریعے تکلیف ثابت ہو سکتی ہو ۔
[نيل الأوطار: 276/3]
(امیر صنعانیؒ) تحقیقی اعتبار سے دلائل اس چیز (یعنی عمرے) کے وجوب کو ثابت نہیں کرتے (حالانکہ ) اس کی اصل عدم (وجوب) ہے۔
[سبل السلام: 922/2]
وجوب کے قائل حضرات کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
➊ ایک صحابی نے اپنے بوڑھے والد کی طرف سے حج کرنے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
حج عن أبيك و اعتمر ”اپنے والد کی طرف سے حج کرو اور عمرہ بھی کرو ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 2349 ، كتاب المناسك: باب الحج عن الحي إذا لم يستطع ، ابن ماجة: 2906 ، ابو داود: 1810 ، نسائي: 111/5 ، ترمذي: 930 ، أحمد: 10/4 ، ابن خزيمة: 2040 ، ابن حبان: 3991 ، بيهقي: 329/4]
➋ حدیثِ جبرئیل کی ایک روایت میں اسلام کی تفسیر میں یہ الفاظ بھی مروی ہیں:
وتحج البيت و تعتمر
” (اسلام یہ ہے کہ … ) اور تم بیت اللہ کا حج اور عمرہ کرو ۔“
[ابن خزيمة: 1 ، دارقطني: 282/2 ، ابن حبان: 173 ، ابن منده: 14]
➌ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہر صاحب استطاعت پر حج اور عمرہ دونوں فرض ہیں ۔
[بخاري تعليقا: 698/3 ، حاكم: 471/1 ، كتاب المناسك ، امام حاكمؒ نے اس كي سند كو شيخين كي شرط پر صحیح كها هے۔ امام ذهبيؒ نے بهي اس كي موافقت كي هے۔ حافظ ابن حجرؒ نے كها هے كه امام ابن خزيمهؒ ، امام دار قطنيؒ اور امام حاكمؒ نے اسے موصول بيان كيا هے۔ فتح البارى: 699/3]
(ابن حزمؒ ) حج اور عمرہ دونوں فرض ہیں۔
[المحلى بالآثار: 8/5]
(عبد الرحمن مبارکپوریؒ) اسی کو ترجیح دیتے ہیں ۔
[تحفة الأحوذي: 813/3]
حدیث نبوی ہے کہ :
الحج مرة واحدة فمن زاد فهو تطوع
”حج ایک مرتبہ (فرض) ہے اور جس نے زیادہ کیا تو وہ فعلی حج ہے۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 1514 ، كتاب المناسیك: باب فرض الحج ، ابو داود: 1721]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1