مضمون کے اہم نکات:
صفات باری تعالیٰ اور صحیح خبر واحد
(عبد اللہ) بن عروہ بن الزبیرؒ سے روایت کہ:
’’ أن الزبير بن العوام سمع رجلاً يحدث حديثًا عن النبي ﷺ فاستمع له الزبير حتى إذا قضى الرجل حديثه قال له الزبير : أنت سمعت هذا من رسول الله ﷺ ؟ فقال الرجل : نعم ، قال : هذا و أشباهه مما يمنعنا أن نحدث عن النبي ﷺ ، قد لعمري سمعت هذا من رسول الله ﷺ و أنا يومئذ حاضر، و لكن رسول الله ﷺ ابتدأ هذا الحديث فحدثناه عن رجل من أهل الكتاب حدثه إياه ، فجئت أنت يومئذ بعد أن قضى صدر الحديث و ذكر الرجل الذي من أهل الكتاب فظننت أنه من حديث رسول الله ﷺ .‘‘
بے شک (سیدنا) زبیر بن العوامؓ نے ایک آدمی کو نبی ﷺ سے ایک حدیث بیان کرتے ہوئے سنا تو زبیرؓ نے اُس کی طرف اپنے کان لگا دیئے حتی کہ اس آدمی نے اپنی حدیث بیان کر کے ختم کر دی۔ زبیرؓ نے اُس سے کہا:
تم نے رسول اللہ ﷺ سے یہ ( حدیث ) سُنی ہے؟ تو اس آدمی نے کہا:
جی ہاں ! آپ نے فرمایا:
یہ اور اس طرح کی باتیں ہمیں نبی ﷺ سے حدیث بیان کرنے سے روکتی ہیں، قسم ہے کہ تو (یا میں) نے رسول الله ﷺ سے یہ حدیث سنی ہے اور میں اُس دن حاضر تھا، لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث کی ابتدا (شروع) میں ہمیں اہل کتاب کے ایک آدمی سے حدیث سنائی تم اُس دن اُس وقت آئے جب حدیث کا ابتدائی حصہ اور اہل کتاب کے آدمی کا ذکر ختم ہو چکا تھا، لہٰذا تم یہ سمجھے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے۔
(کتاب الاسماء والصفات للبیہقی ص ۲۵۸، دوسرا نسخہ ص ۴۵۰، تیسرا نسخہ بحاشیتہ الکوثری ص ۳۵۷، چوتھا نسخہ ج ۲ ص ۲۰۱ ۷۶۴، پانچواں نسخہ ج ۲ ص ۳۰۳ ح ۷۳۹)
اس روایت کے متصل بعد کتاب الاسماء الصفات میں لکھا ہوا ہے کہ
’’ قال الشيخ و لهذا الوجه من الاحتمال ترك أهل النظر من أصحابنا الإحتجاج بأخبار الآحاد في صفات الله تعالى ، إذا لم يكن لما انفرد منها أصل في الكتاب أو الإجماع و اشتغلوا بتأويله، و ما نقل في هذا الخبر إنما يفعله في الشاهد من الفارغين من أعمالهم من مسه لغوب ، أو أصابه نصب مما فعل ، ليستريح بالاستلقاء ووضع إحدى رجليه على الأخرى، وقد كذب الله تعالى اليهود ، حين وصفوه بالاستراحة بعد خلق السموات والأرض و ما بينهما فقال :( ولقد خلقنا السماوات والأرض وما بينهما في ستة أيام وما مسنا من لغوب فاصبر على ما يقولون) “
شیخ ( غالباً بیہقی) نے کہا:
احتمال کی اس وجہ سے ہمارے اصحاب (متکلمین اشاعرہ) کے اہلِ نظر (!) نے اللہ تعالیٰ کی صفات میں اخبار احاد سے حجت پکڑ نا ترک کر دیا، اگر جس میں تفرد ہو، اس کی اصل (اللہ کی) کتاب یا اجتماع میں نہ ہو ، اور وہ اس کی تاویل میں مشغول ہوئے، اور اس روایت (جس کا ذکر اس ترجمے کے بعد آ رہا ہے) میں جو نقل کیا گیا ہے، یہ تو وہ لوگ کرتے ہیں جو اپنے کاموں سے فارغ ہو کر تھک جاتے ہیں، یا عمل سے تھکان پہنچتی ہے تا کہ لیٹ کر اور اپنی ٹانگیں ایک دوسرے پر رکھ کر آرام کریں، یہودیوں نے جب اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا کہ اُس نے زمین و آسمان پیدا کرنے کے بعد آرام فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے انھیں جھوٹا قرار دیا اور فرمایا:
اور یقیناً ہم نے آسمان وزمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے چھ دنوں میں پیدا فرمایا اور ہمیں کوئی کمزوری لاحق نہیں ہوئی۔ پس یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں اُس پر صبر کرو۔
(الاسماء والصفات ص۴۵۰)
روایت مذکورہ (جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے) سے مراد وہ منکر (ضعیف) روایت ہے، جس میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب مخلوقات پیدا کیں تو لیٹ گیا اور ایک ٹانگ پر دوسری ٹانگ رکھ دی۔
دیکھئے الاسماء والصفات (ص ۴۴۸ وقال : فهذا حديث منكر)
ہمارے علم کے مطابق کسی محدث نے اس روایت کو صحیح یا حسن نہیں کہا،لہٰذا یہ روایت منکر ومردود ہے۔ امام بیہقی کی اس عبارت میں مذکورہ کلام :
” اللہ تعالیٰ کی صفات میں اخبار آحاد سے حجت پکڑنا ترک کر دیا۔‘‘ کئی وجہ سے غلط ہے۔
مثلاً :
امام بیہقی کی پیش کردہ روایت ضعیف و مردود ہے۔ اس روایت کی سند درج ذیل ہے:
’’أخبرنا أبو جعفر العرابي : أنا أبو العباس الصبغي : نا الحسن بن علي بن زياد نا ابن أبي أويس : حدثني ابن أبي الزناد عبدالرحمن عن هشام بن عروة عن (عبدالله بن) عروة بن الزبير “
اس روایت کی سند تین وجہ سے ضعیف ہے:
اول :
ابو جعفر العرابی (یا العزائی) نامعلوم (مجہول) ہے۔ شیخ عبدالرحمٰن بن یحییٰ المعلمی الیمانیؒ نے فرمایا:
” لم أعرفه “
میں نے اسے نہیں پہچانا۔
(الانوار کاشفہ ص ۶۰)
دوم:
اس کے دوسرے راوی ابو العباس الصبغی محمد بن اسحاق بن ایوب کی توثیق نا معلوم ہے بلکہ اس پر اس کے ثقہ بھائی امام ابو بکر احمد بن اسحاق الصبفی النیسابوری رحمہ اللہ تنقید کرتے تھے، وہ اسے دادا گیری یعنی بدمعاشی (الفتوة) کی وجہ سے سماع حدیث سے منع کرتے تھے۔
دیکھئے سیر اعلام النبلاء (۴۸۹/۱۵)
سوم:
یہ روایت عروہ بن الزبیر نے نہیں بلکہ ان کے بیٹے عبداللہ بن عروہ بن الزبیر نے بیان کی ہے، جیسا کہ الاسماء والصفات للبیہقی کے قلمی نسخے (مخطوطة الحرم المکی رقم ۲۰۳) میں لکھا ہوا ہے۔
(دیکھئے الانوار الکاشفہ مع الحاشیہ ص ۶۰)
عبد اللہ بن عروہؒ ۴۵ ھ میں پیدا ہوئے۔
(تقریب التہذیب: ۳۴۷۵)
اور سیدنا زبیر بن العوامؓ ۳۶ھ میں جنگ جمل سے واپسی پر شہید ہو گئے تھے۔
(دیکھئے تقریب التہذیب: ۲۰۰۳)
لہٰذا یہ روایت منقطع بھی ہے اور منقطع روایت ضعیف ہوتی ہے۔
نیز دیکھئے تیسیر مصطلح الحدیث(ص ۷۸، المنقطع)
طحاوی حنفی نے ایک حدیث کے خلاف امام ابوحنیفہ کا قول ذکر کیا اور پھر لکھا:
’’ و كان من الحجة لهم في ذلك أن هذا الحدیث منقطع “
اور (اس حدیث کو رد کرنے کے لئے) ان (امام ابو حنیفہ وغیرہ) کی دلیل یہ ہے کہ یہ حدیث منقطع ہے
(شرح معانی الآثار ج ۲ ص ۱۶۴، باب الرجل يسلم في دار الحرب)
معلوم ہوا کہ بقول طحاوی امام ابو حنیفہ بھی منقطع روایت کو حجت نہیں سمجھتے تھے۔
صحیح احادیث میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا ذکر ہے، مثلاً قدم، رجل اور اصابع ۔ محد ثین کرام نے ان احادیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
مثلاً :
حدیث قدم :
صحیح بخاری (کتاب التوحید باب ۷ ح ۷۳۸۴) صحیح مسلم (کتاب الجنة و صفه نعیهما واهلها باب ۱۳ ح ۲۸۴۸) سنن ترمذی (۲۵۵۷ وقال: ’’هــذا حـديـث حسن صحیح “) صحیح ابی عوانہ (ج ا ص ۱۸۷ ح ۳۴۴) المختارة للضياء المقدسی (۷۶/۷ ح ۶ ۲۴۸ وقال الحافظ ابوالقاسم اسماعیل بن محمد بن الفضل : قوام السنہ [ احد رواة الحديث ]: ’’هذا حدیث صحیح‘‘) صحیح ابن حبان (الاحسان ار۵۰۱ ح ۲۶۸ و تاً وله بتأویل مرجوح)
امام اسحاق بن منصور الکوسج نے امام احمد بن حنبل سے قدم وغیرہ والی احادیث کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا:
’’كلّ هذا صحيح“
یہ سب صحیح ہے یعنی یہ ساری حدیثیں صحیح ہیں۔ امام اسحاق بن راہویہ نے فرمایا:
’’هذا صحيح ولا يـدفـعــه إلا مبتدع أو ضعيف الرأي“
یہ صحیح ہے اور بدعتی یا کمز ور رائے والے شخص کے علاوہ کوئی بھی اس کا انکار نہیں کرتا۔
(کتاب الشریعه للآجری ۱۱۲۷/۳- ۱۱۲۸ ح ۶۹۷ وسنده صحیح، دوسرا نسخہ ص ۳۲۰، تیسرا نسخہ ص ۳۰۷)
ابو عبد اللہ ابن مندہ نے فرمایا:
” و هذا حديث ثابت باتفاق “
اور یہ حدیث بالا تفاق (بالا جماع) ثابت ہے۔
(الرد علی الجہمیہ ج اص ۱۹ ح ۱۰/۲)
حافظ اسماعیل بن محمد الاصبہانی یعنی قوام السنہؒ ( متوفی ۵۳۵ھ) نے فرمایا:
” هذا حديث صحيح ، و ذكر القدم فيه مما يجب الإيمان به ولا يتعرض له بالتأويل والتكييف “
یہ حدیث صحیح ہے اور اس میں جو قدم کا ذکر ہے تو اس پر ایمان لا نا واجب (فرض ہے) اس کی تاویل یا تکییف ( یہ سوال کہ یہ کیسے ہے؟) کی جسارت نہیں کرنی چاہیئے ۔
(العقارہ ۲۳۸۶۷۶/۷)
قدم والی حدیث کو امام ابن خزیمہ نے کتاب التوحید (۴۲۷/۱) میں ، ابن مندہ نے کتاب الایمان (۷۹۷/۲ ح ۸۱۵) میں اور بیہقی نے الاسماء والصفات (ص ۴۴۱ ، دوسرا نسخہ ص ۳۴۸۔۳۴۹) میں روایت کیا ہے۔
ائمہ اسلام کا اس حدیث کے صحیح ہونے پر اجماع ہے اور اس اجماع کی مخالفت کسی ایک امام یا عالم سے (ہمارے علم کے مطابق) ثابت نہیں ہے، لہٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ صحیح خبر واحد کے ساتھ صفات باری تعالیٰ میں سے کسی صفت کا اثبات بالکل صحیح ہے اور اس پر ایمان لانا بھی فرض ہے۔
حدیث رجل :
صحیح بخاری (۴۸۵۰) صحیح مسلم (۲۸۴۶) الصحیفہ الصحیحہ یعنی صحیفہ ہمام بن منبہ (۵۱) اور صحیح ابی عوانہ (۱۸۸/۱ ح ۳۴۷) وغیرہ۔
حدیث الاصابع :
صحیح بخاری (۷۴۱۴-۷۴۱۵ ) صحیح مسلم (۲۷۸۶) اور سنن ترمذی (۳۲۳۸ وقال: ھذا حدیث حسن صحیح) وغیرہ۔
خود امام بیہقی نے مشہور ثقہ محدث اور امام ابو عبید القاسم بن سلامؒ سے (قوی سند کے ساتھ) نقل کیا کہ یہ احادیث (پھر صفات باری تعالیٰ کے بارے میں کچھ احادیث مثلاً حدیث قدم وغیرہ ذکر کر کے فرمایا :)
ہمارے نزدیک حق ہیں ، انھیں ثقہ راویوں نے ایک دوسرے سے روایت کیا ہے ، سوائے اس کے کہ جب ہمیں ان کی تفسیر (یا تاویل) کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو ہم تفسیر بیان نہیں کرتے اور ہم نے کسی کو ان کی تفسیر بیان کرتے ہوئے نہیں پایا۔
(الاسماء والصفات ص ۳۵۵ ملخصاً)
اسے ابن مندہ نے کتاب التوحید (۱۱۶/۳ ح ۵۲۲ وسندہ صحیح ) اور خلال نے السنہ (۳۱۱ وسندہ صحیح ) میں مطولاً ومختصر بیان کیا ہے اور یہ اثر عباس بن محمد الدوریؒ سے مختلف سندوں کے ساتھ درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:
➊ الشريعه للآجری (ص ۲۵۵)
➋ اصول السنہ لابن البناء (۷۰)
➌ ابطال التاویلات لابی یعلیٰ (۱۷)
➍ سیر اعلام النبلاء للذہبی (۵۰۵/۱۰)
➎ العلو للعلى الغفار (۱۰۹۹/۲ ح ۴۳۱)
➏ کتاب الصفات (المنسوب للدارقطنی : ۵۷)
حافظ ابن تیمیہؒ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
(فتاویٰ الحمویہ الکبریٰ ص۳۰)
امام ابوعبیدؒ کے کلام میں الکرسی موضع القدمین کا بھی ذکر ہے، جو اخبار احاد میں سے ہے، لہٰذا ثابت ہوا کہ جلیل القدر محدثین کرام کے نزدیک صفات باری تعالیٰ میں صحیح و ثابت خبر واحد حجت ہے اور اس پر بغیر تشبیہ اور بغیر تاویل و تعطیل ایمان لانا ضروری ہے، لہٰذا بعض مجہول اہل کلام سے امام بیہقی کی نقل مرجوح منسوخ یا مردود ہے۔
امام ترمذیؒ نے فرمایا:
اہل علم میں سے کئی علماء نے اس حدیث، صفات کے بارے میں اس جیسی روایات اور آسمان دنیا پر ہر رات نزول باری تعالیٰ والی احادیث کے بارے میں فرمایا:
اس میں روایات ثابت ہیں اور ان پر ایمان لایا جاتا ہے اور انھیں وہم (غلط) نہیں قرار دیا جاتا اور نہ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ کیسے ہے؟ اسی طرح (امام) مالک ، سفیان بن عیینہ اور عبداللہ بن المبارک سے روایت ہے کہ انھوں نے ان احادیث کے بارے میں فرمایا:
” کیسے“ کے بغیر انھیں ( بیان کرنا اور ایمان لانا) جاری رکھو، اہل سنت والجماعہ کا یہی قول ہے، لیکن جہمیہ (اہل بدعت کے ایک انتہائی گمراہ اور غالی فرقے) نے ان روایات کا انکار کیا اور کہا:
یہ تشبیہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب (قرآن مجید) میں کئی جگہ ید (ہاتھ) سمع (سننا) اور بصر (دیکھنا) کا ذکر فرمایا تو جہمیہ نے ان آیات کی تاویل کی اور اہل علم کے خلاف دوسری تفسیر بیان کی اور کہا:
”اللہ نے آدم کو اپنے ہاتھ سے پیدا نہیں کیا‘‘ اور کہا:
ید ( ہاتھ ) کا معنی ( مراد ) قوت ہے۔
اسحاق بن ابراہیم (امام اسحاق بن راہویہؒ) نے فرمایا:
تشبیہ تو اس وقت ہوتی ہے جب کہا جائے (اللہ کا) ہاتھ ( مخلوق کے) ہاتھ کی طرح یا مثل ہے، اللہ کا ) سننا ( مخلوق کے ) سننے کی طرح یا مثل ہے، تو یہ تشبیہ ہے، لیکن اگر یہ کہا جائے کہ جیسے اللہ نے فرمایا:
ید ( ہاتھ ) سمع (سننا) اور بصر ( دیکھنا ) یہ نہ کہا جائے کہ کیسے؟ اور نہ یہ کہا جائے کہ ( مخلوق کی طرح ) سننا ہے یا اس جیسا سننا ہے تو یہ تشبیہ نہیں ہوتی اور یہ اسی طرح ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا:
اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سمیع ( سننے والا ) بصیر ( دیکھنے والا) ہے۔
(سنن ترمذی ، کتاب الزكاة باب ما جاء في فضل الصدقه ح ۶۶۲)
اس طویل کلام سے کئی باتیں ثابت ہوئیں:
اہلِ سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ ایمان یعنی عقیدہ ہو یا احکام، صفات باری تعالیٰ ہوں یا اُمور مغیبات ، ان سب میں صحیح خبر واحد حجت ہے اور اس پر ایمان لانا فرض ہے۔
صفات پر بغیر تشبیہ اور بغیر تاویل و تعطیل ایمان لانا ضروری ہے۔
صفات باری تعالیٰ کی تاویل کرنا ، مثلاً ید ( ہاتھ ) سے مراد قدرت لینا گمراہوں اور اہل سنت سے خارج یعنی جہمیہ و مبتدعین کا طریقہ ہے۔
خود امام بیہقی نے ’’باب ما ذكر في القدم والرجل “ کے تحت صفات باری تعالیٰ کے بارے میں اخبارا حادکو ذکر کیا ہے۔
مثلا دیکھئے کتاب الاسماء والصفات (ص ۴۴۱ ۴۴۲ ، دوسر انسخہ ص ۳۴۸_۳۴۹) لہٰذا ان کا کلام :
” اللہ تعالیٰ کی صفات میں اخبار احاد سے حجت پکڑنا ترک کر دیا ۔“
منسوخ ہے۔
خیر القرون ( ۳۰۰ ھ تک) کے کسی قابل اعتماد عالم سے یہ ثابت نہیں ہے کہ صفاتِ باری تعالیٰ میں خبر واحد (صحیح حدیث) حجت نہیں بلکہ صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور محدثین کے اقوال و افعال سے یہی ثابت ہے کہ صحیح حدیث (خبر واحد) حجت ہے، چاہے دین کا کوئی سا بھی مسئلہ ہو اور صفات باری تعالیٰ پر ایمان بھی دین کا ہی مسئلہ ہے۔
تنبیہ:
امام بیہقی کی ذکر کردہ ضعیف و مردود روایت سے محمود ابوریہ (ایک غالی گمراہ) اور دیگر منکرینِ حدیث نے استدلال کر کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی بیان کردہ احادیث میں شک پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور عدالت صحابہ پر حملہ کیا ہے، حالانکہ اہلِ سنت کا یہ متفقہ اصول ہے کہ ’’الصحابة كلهم عدول‘‘ ، یعنی تمام کے تمام صحابہ عادل (روایت حدیث میں سچے اور قابل اعتماد) ہیں۔
عوام اور علماء کو چاہئے کہ وہ ضعیف و مردود روایات سے کلی اجتناب کریں، ان سے دور رہیں اور کسی مسئلے میں بھی ایسی روایات سے استدلال نہ کریں ، تاکہ ہر قسم کے شر وفساد سے محفوظ رہیں اور یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر گمراہوں کی گمراہیوں سے بچا جاسکتا ہے۔
(۲ / ستمبر ۲۰۱۰ء)