جھوٹ بولنے سے روزہ ٹوٹتا ہے یا نہیں؟
جھوٹ بولنا اسلام میں سخت ناپسندیدہ اور کبیرہ گناہ ہے۔ تاہم، یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص روزے کی حالت میں جھوٹ بولے تو کیا اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا؟ اس مضمون میں قرآن، حدیث اور اجماع صحابہ کی روشنی میں اس کا جواب دیا گیا ہے۔
قرآن کی روشنی میں
اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کو سخت ناپسند فرمایا اور سچائی کو اپنانے کا حکم دیا ہے:
إِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَأُو۟لَـٰئِكَ هُمُ ٱلْكَـٰذِبُونَ
(النحل: 105)
ترجمہ: "جھوٹ وہی گھڑتے ہیں جو اللہ کی آیات پر ایمان نہیں رکھتے اور وہی جھوٹے ہیں۔”
یہ آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ جھوٹ بولنا منافقین اور کافروں کی صفت ہے۔ تاہم، اس آیت سے یہ لازم نہیں آتا کہ جھوٹ بولنے سے روزہ باطل ہو جاتا ہے۔
حدیث کی روشنی میں
1. جھوٹ بولنے سے روزے کے اجر میں کمی
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَن لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ
(بخاری: 1903)
ترجمہ: "جو شخص جھوٹ اور اس پر عمل کو نہیں چھوڑتا، تو اللہ کو اس کے بھوکا اور پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔”
یہ حدیث اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جھوٹ بولنے سے روزے کی برکت ختم ہو جاتی ہے، لیکن یہ حدیث یہ نہیں کہتی کہ جھوٹ بولنے سے روزہ باطل ہو جاتا ہے۔
2. روزہ کن چیزوں سے ٹوٹتا ہے؟
فقہاء اور محدثین کے مطابق، روزہ درج ذیل امور سے ٹوٹتا ہے:
◈ کھانے یا پینے سے
◈ مباشرت (جماع) سے
◈ قصداً قے کرنے سے
◈ حیض یا نفاس آنے سے
جھوٹ بولنا، غیبت کرنا یا دیگر گناہ کرنے سے روزہ ضائع ہو سکتا ہے، مگر فقہی اعتبار سے یہ باطل نہیں ہوتا۔
اجماع صحابہ کرام
صحابہ کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ روزہ بنیادی طور پر کھانے، پینے اور مباشرت سے ٹوٹتا ہے۔ اگرچہ صحابہ کرام جھوٹ کو سخت گناہ سمجھتے تھے، لیکن کسی بھی روایت میں یہ نہیں ملتا کہ جھوٹ بولنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ بلکہ وہ جھوٹ کو روزے کی برکتوں کو ختم کرنے والا عمل قرار دیتے تھے۔
مجبوری کی حالت میں جھوٹ بولنے کا حکم
اسلام میں اضطراری حالت (جان یا عزت کے خطرے) میں بعض اوقات جھوٹ بولنے کی اجازت دی گئی ہے، جیسے:
◈ جان بچانے کے لیے
◈ ظالم کے ظلم سے بچنے کے لیے
◈ خاوند یا کسی اور ظالم سے جان و مال کے خطرے کے پیش نظر
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
إِلَّا مَنۡ أُكۡرِهَ وَقَلۡبُهُۥ مُطۡمَئِنٌّۢ بِٱلۡإِيمَٰنِ
(النحل: 106)
ترجمہ: "مگر جو شخص مجبور کر دیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔”
یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کسی کو جان یا شدید نقصان کا خطرہ ہو اور وہ مجبوراً جھوٹ بولے تو وہ گناہگار نہیں ہوگا، لیکن عام حالات میں جھوٹ بولنا سخت حرام ہے۔
نتیجہ
◈ جھوٹ بولنا سخت گناہ ہے اور روزے کی روح کے خلاف ہے۔
◈ اگرچہ جھوٹ بولنے سے روزہ فاسد (باطل) نہیں ہوتا، لیکن اس کا اجر اور برکت ختم ہو جاتی ہے۔
◈ اگر کسی نے مجبوری میں (جان یا عزت کا خطرہ ہو) جھوٹ بولا ہو، تو اسے اللہ سے استغفار کرنا چاہیے، لیکن اس کا روزہ برقرار رہے گا۔
◈ روزے کی حقیقی قدر و قیمت سچائی، پرہیزگاری اور اللہ کے خوف میں ہے، اس لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ جھوٹ سے بچا جائے۔
◈ اگر کسی کو واقعی مجبوراً جھوٹ بولنا پڑے تو اللہ غفور الرحیم ہے، لیکن بہترین راستہ یہی ہے کہ سچ بولنے کے مواقع تلاش کیے جائیں اور جھوٹ سے اجتناب کیا جائے۔