سوال:
کیا تقدیر بدل سکتی ہے یا نہیں؟ (بھائی عبدالسلام اور بھائی عبداللہ)
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ولا حول ولا قوة الا باللہ۔
اللہ تعالیٰ کا عدل اور رحم
اللہ تعالیٰ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا، بلکہ اگر نیکی ہو تو کئی گنا بڑھا کر عطا فرماتا ہے اور اپنی طرف سے اجر عظیم سے نوازتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا رحم اپنے بندے پر ماں کی اپنے بچے پر رحمت سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ ہمارا رب سلامتی کے گھر (یعنی جنت) کی طرف بلاتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت کی توفیق عطا کرتا ہے۔
تقدیر اور عدلِ الٰہی
جب یہ بات واضح ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا اور نہ ہی بندوں کے لیے ظلم کا ارادہ رکھتا ہے، تو یہ بات بھی سمجھ آتی ہے کہ تقدیر کوئی ظلم نہیں، جیسا کہ بعض جاہل لوگ کہتے ہیں۔
مثلاً بعض لوگ یہ کہتے ہیں:
◈ "اگر اللہ نے کسی کی تقدیر میں زنا لکھ دیا ہے تو پھر اس سے حساب کیوں لیا جائے گا؟”
◈ "اگر اللہ نے کسی کے دل پر بدبختی کی مہر لگا دی ہے تو پھر اسے عذاب کیوں دیا جائے گا؟”
یہ اعتراضات حکمتِ قضاء و قدر سے ناآشنا لوگوں کی غلط فہمی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔
تقدیر اللہ تعالیٰ کے علم کا نام ہے
ابن عقیل رحمہ اللہ نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے تقدیر کے بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے فرمایا:
"تقدیر اللہ کا علم ہے”
یعنی:
اللہ نے کسی پر زنا یا چوری کرنے کو جبراً مسلط نہیں کیا۔
اللہ نے لکھا ہے کہ میں فلاں شخص کو پیدا کروں گا، اسے اختیار اور ارادہ دوں گا، اور میں طاعت و معصیت کے اسباب پیدا کروں گا۔
پھر فلاں بندہ میرے جبر کے بغیر، اپنے اختیار سے گناہ کا ارادہ کرے گا۔
اللہ کو پہلے ہی علم ہے کہ وہ اپنے اختیار سے معصیت کرے گا، اسی علم کو تقدیر کہتے ہیں۔
کیا تقدیر بدل سکتی ہے؟
اللہ تعالیٰ کا علم اٹل اور غیر متبدل ہے، اس لیے تقدیر بذاتِ خود نہیں بدلتی۔
لیکن شریعت میں کچھ ایسے اعمال بیان کیے گئے ہیں جو ظاہری طور پر انسان کی زندگی، رزق اور دیگر امور میں تبدیلی کا سبب بنتے ہیں، مگر یہ بھی اللہ کے علم میں پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے۔
تقدیر کی اقسام
علماء نے تقدیر کو تین اقسام میں تقسیم کیا ہے:
مبرم (حتمی تقدیر):
یہ وہ تقدیر ہے جو کبھی نہیں بدلتی۔
مثال کے طور پر، موت کا وقت، کسی انسان کا جنتی یا جہنمی ہونا وغیرہ۔
معلق (مشروط تقدیر):
یہ وہ تقدیر ہے جو اعمالِ صالحہ یا بداعمالیوں کے سبب بدلتی ہے۔
مثلاً اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا ہے کہ:
◈ "اگر فلاں شخص والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرے گا، صلہ رحمی کرے گا، تو میں اس کی عمر بڑھا دوں گا۔”
◈ "اگر وہ نافرمانی کرے گا، قطع رحمی کرے گا، اور زمین میں فساد پھیلائے گا تو میں اس کا رزق و عمر گھٹا دوں گا۔”
یہی وہ تقدیر ہے جس میں دعا، صدقہ، نیک اعمال اور بداعمالیوں کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر:
◈ حدیث میں آتا ہے کہ "صدقہ مصیبتوں کو دور کرتا ہے” (ترمذی)۔
◈ دعا تقدیر کو بدل سکتی ہے، مگر وہ بھی اللہ کے علم میں پہلے سے شامل ہوتی ہے۔
فرشتوں کی کتابوں میں لکھی گئی تقدیر:
جب ماں کے پیٹ میں بچہ کی روح پھونکی جاتی ہے، تو ایک فرشتہ اس کی تقدیر لکھتا ہے۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ:
جب بچہ چار مہینے کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو بھیجتا ہے جو اس کے متعلق چار باتیں لکھتا ہے:
◈ اس کی عمر
◈ اس کا رزق
◈ اس کے اعمال (نیک یا بد)
◈ وہ نیک بخت ہو گا یا بدبخت
اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿يَمحُوا اللَّـهُ ما يَشاءُ وَيُثبِتُ ۖ وَعِندَهُ أُمُّ الكِتـٰبِ﴾
"اللہ جو چاہے مٹا دیتا ہے اور جو چاہے باقی رکھتا ہے، اور لوحِ محفوظ اس کے پاس ہے۔”
(سورۃ الرعد: 39)
مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ یہاں مراد "معلق تقدیر” ہے، یعنی وہ چیزیں جو اعمال کے سبب تبدیل ہو سکتی ہیں۔
جبکہ "ام الکتاب” (لوحِ محفوظ) میں لکھی گئی تقدیر حتمی ہوتی ہے، اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔
خلاصہ
اللہ تعالیٰ کے علم میں تقدیر پہلے سے لکھی ہوئی ہے، اور وہ نہیں بدلتی۔
تقدیر کی دو اقسام ہیں: مبرم (حتمی) اور معلق (مشروط)۔
مبرم تقدیر کبھی نہیں بدلتی، جبکہ معلق تقدیر اعمالِ صالحہ یا گناہوں سے ظاہری طور پر تبدیل ہو سکتی ہے۔
دعا، صدقہ اور نیک اعمال مصیبتوں کو دور کر سکتے ہیں، لیکن یہ سب بھی اللہ کے علم میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔
اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتا، بلکہ بندے کے اپنے اعمال کے مطابق فیصلہ ہوتا ہے۔
اہل سنت والجماعت کا موقف یہ ہے کہ تقدیر کو ماننا ایمان کا لازمی جزو ہے، اور اس میں حد سے زیادہ فلسفہ بازی کرنے والے گروہ (جبریہ، قدریہ، معتزلہ) گمراہ ہو گئے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب۔