کیا اہل حدیث صحابہ کو معیار حق نہیں سمجھتے؟
یہ تحریرمولانا ابو صحیب داؤد ارشد حفظہ اللہ کی کتاب تحفہ حنفیہ سے ماخوذ ہے۔ یہ کتاب دیوبندی عالم دین ابو بلال جھنگوی کیجانب سے لکھی گئی کتاب تحفہ اہلحدیث کا مدلل جواب ہے۔

کیا صحابہ معیار حق نہیں؟

جھنگوی صاحب نے ایک شگوفہ یہ بھی چھوڑا ہے کہ غیر مقلدین صحابہ کو معیار حق نہیں سمجھتے۔
( تحفہ اہل حدیث ص 53)
حالانکہ یہ کذب وافتراء ہے۔ ارشادر بانی ہے۔
(أمنوا كما من الناس ) ( الاية بقره آیت 13)
یعنی ایمان اس طرح لاؤ جس طرح لوگ ( صحابہ ) ایمان لائے ( 13-2)
اس آیت میں الناس سے مراد صحابہ کرام کی مقدس جماعت مراد ہے ۔ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ
ایمان کے لیے ایک معیار اور کسوٹی ہیں۔ اب ایمان انہی کا معتبر ہو گا جو صحابہ کرام ہی کی طرح ایمان لائیں گے۔
(تفسیر احسن البیان ص 10)
اس سے ثابت ہوا کہ عقائد وایمان میں صحابہ سے اختلاف جائز نہیں۔ یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ ہمارے نزدیک صحابہ کرام نے نصوص کی جو تشریح کی ہے وہ بھی حجت ہے
حافظ ثناء اللہ زاہدی حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ
ولذلك اختار جمهور المحدثين ترجيع تفسير الصحابي للحديث على تفسير غيره من المتاخرين لانه شاهد موارد النصوص واجتهاده في فهم النصوص اصوب من اجتهاد المتاخرين من فقهاء التابعين ومن بعد هم كما في تفسير ابن عمر البيعان بالخيار والحنفية خالفوافي هذه الصورة
اور اسی وجہ سے جمہور محدثین کرام کے نزدیک صحابی کی تفسیر کو متاخرین کی تفسیر حدیث پر ترجیح ہے ۔ کیونکہ صحابہ نصوص کے وارد ہونے کے عینی شاہد ہیں۔ اور فھم نصوص میں صحابہ کرام کا اجتہاد‘ متاخرین فقہاء و تابعین اور ان سے بعد والے حضرات فقہاء سے زیادہ درست اور حق ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عمرؓ بیع خیار کی حدیث کی تفسیر کی ہے۔ اور حنفیہ نے اس صورت میں اختلاف کیا ہے۔ (حاشیہ خلاصة الافکار ص 214)
ہاں البتہ کسی مسئلہ میں جب صحابہ میں سے کسی کا قول مرفوع حدیث کے خلاف ہو تب صحابی کا قول حجت نہیں ہوتا۔ اور یہی حنفیہ کا اصول ہے۔ علامہ ابن ھمام فرماتے ہیں کہ
ان قول الصحابي حجة فيجب تقليده عندنا اذالم ينفه شئ آخر من السنة
یعنی ہمارے نزدیک صحابی کا قول حجت ہے جب تک سنت سے کوئی چیز اس کی نفی نہ کرے۔
(فتح القدير ص 37 ج 2 باب صلاة الجمعة )
ملاعلی القاری نے مرقاۃ ص 269 ج 3 میں فتح القدیر سے اس عبارت کو نقل کر کے سکوت کیا ہے۔
مولانا ظفر احمد تھانوی حنفی دیوبندی فرماتے ہیں کہ
قول الصحابي حجة عندنا اذالم يخالفه مرفوع
یعنی صحابی کا قول ہمارے نزدیک حجت ہے جب مرفوع حدیث کے خلاف نہ ہو۔
(اعلاء السنن ص 126 ج 1)
اس کلیہ کا مولانا نے اعلاء السنن ص 140 ج 1 میں بھی ذکر کیا ہے ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ
ولا حجة في قول الصحابى فى معارضة المرفوع لاسيما اذا كانت المسالة مختلفا فيها بين الصحابة
یعنی صحابی کا قول جب مرفوع حدیث کے معارض ہو تو حجت نہیں ہو تا بالخصوص جب وہ مسئلہ صحابہ کرام میں مختلف فیہ ہو۔
(اعلاء السنن ص 438 ج 1‘ باب آداب الاستنجاء )
ان عبارات علماء دیو بند سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جس مسئلہ میں صحابہ کرام مختلف فیہ ہوں یا جن مسائل میں صحابہ کرامؓ کے فتاویٰ حدیث مرفوع کے مخالف د معارض ہوں ان میں صحابہ کرام کے اقوال حجت شرعیہ نہیں۔ باقی رہا صحابہ کرام کا اجماع تو وہ ہمارے نزدیک حجت ہے۔ تفصیل کے لیے علامہ ابن حزم کی کتاب الاحکام فی اصول الاحکام ص 47 ج 1 دیکھئے اس ساری تفصیل سے ثابت ہوا کہ جھنگوی صاحب نے غلط بیانی کی ہے۔ ورنہ اہل حدیث صحابہ کرام کو معیار حق جانتے اور سمجھتے ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل