کیا اللہ کو ہماری عبادت کی ضرورت ہے؟
تحریر ڈاکٹر زاہد مغل

اللہ کو ہماری عبادت کی ضرورت نہیں

عام طور پر یہ سوال ان لوگوں کی طرف سے اٹھایا جاتا ہے جو اسلام کے تصور سے واقف نہیں ہیں۔ قرآن و حدیث میں یہ بات بارہا بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بھی قسم کی ضرورت سے پاک ہے:
”وَمَن جَاهَدَ فَإِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهِ إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ“
"اور جو کوئی جہاد کرتا ہے تو وہ اپنے ہی لیے جہاد کرتا ہے۔ بے شک اللہ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے۔”
(سورہ العنکبوت، آیت نمبر ۶)

لہٰذا، یہ واضح ہے کہ اللہ کو ہماری عبادت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہماری عبادت سے نہ تو اللہ کی عظمت میں اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی عبادت چھوڑنے سے اس کی شان میں کوئی کمی آتی ہے۔
خدا نے ہمیں اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا تاکہ ہم اس کی حکمت سے فائدہ اٹھا سکیں اور اپنی جسمانی و روحانی بھلائی کے راستے پر گامزن ہوں۔

خدا نے ہمیں اپنی عبادت کے لیے کیوں پیدا کیا

1. انسانی بھلائی کے لیے عبادت کا حکم

اللہ تعالیٰ سراپا خیر ہے اور وہ اچھائی کو پسند کرتا ہے۔ ہر اچھا عمل اللہ کی عبادت شمار ہوتا ہے، اور جو اچھے اعمال کرے گا وہ اللہ کی رحمت اور جنت کا حق دار بنے گا۔
خدا نے ہمیں عبادت کے لیے پیدا کیا کیونکہ وہ ہماری بھلائی چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ ہم اس کی رحمت کے مستحق بنیں۔

2. خدا کی صفات کا اظہار

خدا کے بہترین نام اور صفات ہیں، اور ان صفات کا اظہار ضروری تھا۔
مثال کے طور پر، ایک فنکار اپنی تخلیق کے ذریعے اپنی صلاحیت کا اظہار کرتا ہے۔
چونکہ اللہ معبود ہے، اس لیے اس کی عبادت کرنے والی مخلوق کا ہونا ضروری تھا۔
یہ ضروری ہونا کسی ضرورت کی بنیاد پر نہیں بلکہ اللہ کی صفات کے اظہار کے لیے ہے۔

خدا کی حکمت اور انسانی علم کی محدودیت

انسان کا علم محدود ہے، اس لیے وہ خدا کی حکمت کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتا۔ اگر ہم خدا کی حکمت کو مکمل طور پر سمجھنے کے قابل ہو جائیں تو یا تو ہم خدا جیسے بن جائیں گے یا خدا کو انسان کے برابر تصور کریں گے، اور یہ دونوں باتیں ناممکن ہیں۔
خدا نے اپنی حکمت سے انسان کو پیدا کیا اور ہمیں اتنا ہی علم دیا جتنا ہماری سمجھ کے لیے ضروری تھا۔

مثال:

ایک شخص کو سمندر میں پھینکا گیا، جہاں شارک موجود ہیں، لیکن اسے ایک نقشہ اور آکسیجن ٹینک بھی دیا گیا تاکہ وہ ایک خوبصورت جزیرے تک پہنچ سکے۔
اگر وہ شخص اس سوال پر الجھتا رہے کہ اسے سمندر میں کیوں پھینکا گیا، تو وہ شارک کا شکار ہو سکتا ہے یا آکسیجن ختم ہونے سے مر سکتا ہے۔
لیکن اگر وہ نقشہ استعمال کرے تو جزیرے پر محفوظ پہنچ سکتا ہے۔
اسی طرح، مسلمانوں کے لیے قرآن اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات ایک نقشہ اور آکسیجن ٹینک کی مانند ہیں، جو ہمیں محفوظ اور کامیاب زندگی گزارنے میں مدد دیتے ہیں۔

صفت اور اس کے اظہار کا تعلق

یہ سوال اکثر اس وقت پیدا ہوتا ہے جب لوگ صفت اور اس کے اظہار کے تعلق کو نہیں سمجھتے۔ صفت اور اس کے اظہار کے درمیان "کیوں” کا سوال غیر متعلق ہوتا ہے۔

مثال:

  • بینائی کا مطلب دیکھنا ہے، اور دیکھنے کا عمل بینائی کا اظہار ہے۔
  • سماعت کا مطلب سننا ہے، اور سننے کا عمل سماعت کا اظہار ہے۔
  • اسی طرح، اللہ کی صفت "خالق” ہے، اور مخلوق کا ہونا اس صفت کا اظہار ہے۔ یہاں "کیوں” کا سوال بے محل ہے۔

خدا کی دیگر صفات کا اظہار:

اللہ "حق” اور "عادل” ہے، اس لیے حق و باطل کی آزمائش اور جزا و سزا کا نظام ان صفات کا اظہار ہے۔
یہ تمام صفات ایک ساتھ کام کرتی ہیں، اور ان کے اظہار پر بھی "کیوں” کا سوال اٹھانا درست نہیں۔

خدا کی صفات کے اظہار کی حکمت

خدا کی صفات کے اظہار کی حکمت یا وجہ کے بارے میں سوال کرنا بھی غیر ضروری ہے، کیونکہ خدا کی صفات کا اظہار خود اس کی ذات سے جڑا ہوا ہے، نہ کہ کسی بیرونی مقصد سے۔
خدا نے خود اپنا تعارف کروایا ہے کہ "وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے”۔
اس لیے عدم کو وجود میں لانا اور مخلوقات کو تخلیق کرنا اس کی صفت "ارادہ” کا اظہار ہے۔

خدا کی صمدیت:

خدا کی ذات مکمل اور خود کفیل ہے۔ اس کے اعمال کسی بیرونی مقصد کے محتاج نہیں۔ اگر ہم خدا کی صفات کے اظہار کے پیچھے "مقصد” تلاش کریں تو یہ خدا کی صمدیت کا انکار ہوگا۔

غیر متعلق سوالات

بہت سے سوالات خدا کے بارے میں غیر متعلق ہوتے ہیں، جیسے:
"خدا ایسا کیوں ہے؟”
یہ سوال خدا کی صمدیت (قائم بالذات ہستی) کے خلاف ہے۔
خدا کی صفات اور اعمال کو محدود انسانی ذہن پر قیاس کرنا اور ان پر سوال اٹھانا خود ایک بنیادی غلطی ہے۔

نتیجہ

اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا تاکہ ہم اپنی فلاح و بہبود کے لیے اس کی ہدایات پر عمل کریں اور آخرت میں اس کی رحمت کے حق دار بن سکیں۔
خدا کی صفات کے اظہار پر "کیوں” کا سوال بے محل ہے، کیونکہ یہ سوال صفت اور اس کے اظہار کے تعلق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے