"وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر عرش (بریں) پر متمکن ہوگیا۔ وہ اسے بھی جانتا ہے جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے اور (اسے بھی جانتا ہے) جو کچھ اس میں سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے ، اور وہ تمہارےساتھ ہے خواہ تم کہیں بھی ہو۔ اور جو کچھ بھی تم کیا کرتے ہو اسے وہ دیکھتاہوتا ہے ۔” (سورۃ الحدید : ۴، الکتاب/ڈاکٹر محمد عثمان ص ۳۲۴)
اس آیت کریمہ میں ﴿وَ ہُوَ مَعَکُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ ؕ﴾ کی تشریح میں قدیم مفسرِ قرآن، اما م محمد بن جریر بن یزید الطبریؒ (متوفی ۳۱۰ھ) فرماتے ہیں کہ :”وھو شاھد علیکم أیھا الناس أینما کنتم یعلمکم و یعلم أعمالکم و متقلبکم و مثواکم وھو علی عرشہ فوق سمٰواتہ السبع” اور اے لوگو ! وہ (اللہ) تم پر گواہ ہے، تم جہاں بھی ہو وہ تمہیں جانتا ہے، وہ تمہارے اعمال ، پھرنا اور ٹھکانہ جانتا ہے اوروہ اپنے سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر ہے۔ (تفسیر طبری ج ۲۷ ص ۱۲۵)
اسی مفہوم کی ایک آیت کریمہ کے بارے میں مفسر صحاک بن مزاحم الہلالی الخراسانیؒ (متوفی ۱۰۶ھ) فرماتے ہیں کہ :”ھو فوق العرش و علمہ معھم أینما کانوا” وہ عرش پر ہے اور اس کا علم ان (لوگوں) کے ساتھ ہے چاہے وہ جہاں کہیں بھی ہوں۔ (تفسیر طبری ج ۲۸ ص ۱۰و سندہ حسن)
امام مقریٔ محقق محدث اثر ابو عمر احمد بن محمد بن عبداللہ الطَّلَمَنْکی الاندلسیؒ (متوفی ۴۲۹ھ) فرماتے ہیں کہ:”اہل سنت مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ ﴿ وَ ہُوَ مَعَکُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ ؕ﴾ (الحدید : ۴) وغیرہ آیات کا مطلب یہ ہے کہ "ان ذلک علمہ و أن اللہ فوق السمٰوات بذاتہ، مستوٍ علی عرشہ کیف شاء” بےشک اس سے اللہ کا علم مراد ہے ، اللہ اپنی ذات کے لحاظ سے آسمانوں پر، عرش پر مستوی ہے جیسے وہ چاہتا ہے ۔(شرح حدیث النزول لابن تیمیہ ص ۱۴۵،۱۴۴)
اس اجماع سے معلوم ہوا کہ بعض الناس کا اس آیت کریمہ سے یہ مسئلہ تراشنا کہ "اللہ اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے ” غلط اور باطل ہے اور اجماع کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے ۔
مسئولہ آیتِ کریمہ میں "یَعْلَمُ” کا لفظ بھی صاف طور پر اسی پر دلالت کرتا ہے کہ یہاں معیت سے علم و قدرت ہے ۔ تفصیل کے لئے دیکھئے ہمارے استاد محترم شیخ بدیع الدین الراشدیؒ کی کتاب "توحید خالص” (ص ۲۷۷) حارث بن اسد المحاسبیؒ (متوفی ۲۴۳ھ) فرماتے ہیں کہ :”وکذلک لایجوز۔۔۔۔ إلخ” اور اسی طرح یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ ۔۔۔اللہ زمین پر ہے ۔ (فہم القرآن و معانیہ ، القسم الرابع، باب مالا یجوزفیہ النسخ)
حافظ ابن الجوزیؒ فرماتے ہیں کہ :”(جہمیہ کے فرقے) ملتزمہ نے باری تعالیٰ کو ہر جگہ (موجود) قرار دیا ہے ۔”(تلبیس ابلیس ص ۳۰، راقم الحروف کی کتاب: بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم ص ۱۹)
شیخ عبدالقادرجیلانیؒ فرماتے ہیں کہ:”اور یوں کہنا جائز نہیں کہ وہ (اللہ) ہر مکان میں ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ وہ آسمان میں عرش پر ہے ۔” (غنیۃ الطالبین ج ۱ ص۱۰۰)