مستشرقین کی طرف سے قرآن کی اصطلاحات پر اعتراضات
مستشرقین کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ قرآن کی بہت سی اصطلاحات دیگر مذاہب اور زبانوں سے لی گئی ہیں۔ اس دعوے کا مقصد یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ اگر الفاظ دیگر زبانوں سے مستعار ہیں تو ان کے معانی و مفہوم بھی ان مذاہب سے درآمد کیے گئے ہیں، یعنی اسلام دیگر مذاہب کا محض چربہ ہے۔ ابن ورق، ٹسڈل وغیرہ کے ان خیالات کا تفصیلی جواب پہلے بھی دیا جا چکا ہے، جہاں انہوں نے اسلام کو ایک ایسا مذہب قرار دیا ہے جو مختلف مذاہب کے اشتراک سے بنا ہے۔ شارٹر انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں بھی قرآن کے مختلف الفاظ اور اصطلاحات کو بیرونی قرار دیا گیا ہے۔
(Shorter Encyclopedia of Islam; article ‘Quran’, pp. 273-274)
مذہبی اصطلاحات کا تجزیہ
مستشرقین کا استدلال ہے کہ چونکہ اسلامی اصطلاحات جیسے اللہ، قرآن، صلٰوۃ، سجدہ، ملائکہ، مسجد، آیت، قربان وغیرہ دیگر زبانوں سے مستعار ہیں، اس لیے ان تصورات اور عبادت کے ارکان کو بھی انہی مذاہب سے لیا گیا ہے جہاں یہ اصطلاحات موجود تھیں۔ ان میں سے اکثر الفاظ عبرانی سے آئے ہیں، لہذا یہ سب تصورات یہودیت سے لیے گئے ہیں۔ اس بات کو بنیاد بنا کر کائتانی، وینسنک اور بوہل (Buhl) جیسے مستشرقین نے اسلام کی بعض عبادات کو عیسائیت، مجوسیت اور عرب بت پرستی کی عبادات قرار دیا۔
(Montgomery Watt; Mohammed at Medina, p.203)
بوہل نے جنگِ بدر کو حضرت موسٰی (علیہ السلام) کے خروج کے ساتھ تشبیہ دی ہے، کہ جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کامیابی پر عاشوراء کا روزہ رکھا، اسی طرح بدر کی کامیابی کے بعد رمضان کے روزے فرض کیے گئے۔
(Buhl; Origin of Islam, p.124)
قرآن کی عربی زبان میں غیرعربی الفاظ
آرتھر جیفری نے اپنی کتاب The Foreign Vocabulary of the Quran میں قرآن میں موجود غیرعربی الفاظ کی فہرست دی ہے۔ سامی زبانوں کے اشتراک کو دیکھتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ شام، فلسطین، عراق، عبر، فنیشیہ اور مصر میں آباد قوموں کے درمیان زبان، کردار، عقائد اور معاشرت میں مماثلت پائی جاتی ہے۔
(Phillips K. Hitti; History of Arabs, P.3)
عربی اور دیگر سامی زبانوں میں اشتراک کی حقیقت
سامی تہذیب کا اصل گہوارہ عرب کا علاقہ تھا۔ جب سامی نسل عرب سے نکل کر دوسرے علاقوں میں آباد ہوئی تو ان کی زبانیں مقامی اثرات کے تحت تبدیل ہو گئیں، جبکہ وہ لوگ جو عرب میں ہی مقیم رہے، ان کی زبان بیرونی اثرات سے محفوظ رہی۔ اس بنا پر اگر سامی زبانوں میں مشترک الفاظ موجود ہیں تو اسے حیرت انگیز نہیں کہا جا سکتا۔ عربی اور عبرانی کے عام استعمال کے سینکڑوں الفاظ میں مماثلت کا ہونا طبعی ہے، جیسے اب، ارض، امر، ام، برق، بیت، جبل وغیرہ۔
مغربی محققین کا موقف
مغربی محققین کا دعویٰ ہے کہ قرآن کے الفاظ کا کچھ حصہ دیگر زبانوں سے لیا گیا ہے۔ تاہم، سی سی ٹوری کے بقول، یہ الفاظ اور اسما پہلے ہی سے مکہ میں رائج تھے۔
(C.C. Torrey; The Jewish Foundation of Islam, 2nd Lecture, ‘Genesis of the New Faith’.)
عبادات میں مماثلت اور اسلامی نظریہ
اسلام کا یہ نظریہ ہے کہ آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النبیین ﷺ تک تمام انبیاء کی تعلیمات مشترک رہی ہیں، اور اگر عبادات میں مماثلت پائی جاتی ہے تو یہ کوئی عجیب بات نہیں۔ عبادت اللہ کی عظمت اور بندگی کا فطری اظہار ہے، جس کے انداز میں فطری یکسانیت ہے۔ یہودیت اور عیسائیت بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اپنی نسبت جوڑتی ہیں، لہذا ان میں عبادات کی مشابہت کا پایا جانا ناگزیر ہے۔
اسلامی عبادات میں موجود اختلافات کو مدنظر رکھتے ہوئے، اسلام میں اذان کا بلا انقطاع گونجنا، جماعت، امامت، رکوع، سجود اور قرأت جیسے اجزاء کا ہونا، اسے دیگر مذاہب سے منفرد بناتا ہے۔