کیا اذان دینے کے لیے وضوء ضروری ہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

کیا اذان دینے کے لیے وضوء ضروری ہے

ایسی کوئی صحیح دلیل ہمارے علم میں نہیں ہے کہ جس میں مؤذن کے لیے اس شرط کا ذکر ہو کہ وہ اذان دیتے وقت حدث اکبر یا حدث اصغر سے پاک ہو۔ اگرچہ بعض روایات میں اس کا ذکر تو ہے لیکن اس مسئلے میں جو مرفوع روایات ہیں وہ ضعیف ہیں اور جو موقوف ہیں وہ اس درجہ کی نہیں ہیں کہ جن سے حجت قائم ہو سکے۔ تا ہم اولی و احسن یہی ہے کہ انسان با وضو ہو کر ہی اذان کہے کیونکہ اذان بھی اللہ کا ذکر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات نہایت پسند تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر طہارت کی حالت میں کریں جیسا کہ حضرت مھاجر بن قنفذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت پیشاب کر رہے تھے :
فسلمت عليه فلم يرد حتي تو ضا
” میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تک وضوء نہ کر لیا سلام کا جواب نہ دیا۔“
پھر میرے سامنے یہ عذر پیش کیا کہ :
انى كرهت أن أذكر الله إلا على طهر
[صحيح : الصحيحة 834 ، أبو داود 17 ، كتاب الطهارة : باب فى الرجل يرد السلام وهو يبول؟ ، نسائي 38 ، ابن مساجة 350 ، دارمي 287/2 ، امام نوويؒ نے اسے صحيح كہا هے الاذكار ص 77 ، حافظ ابن حجرؒ اس حديث كے متعلق رقمطراز هيں كہ امام ابن خزيمهؒ اور امام ابن حبانؒ نے اسے صحيح كها هے ۔]
” مجھے یہ بات نا پسند ہے کہ میں اللہ کا ذکر طہارت کے سوا کسی بھی حالت میں کروں ۔“
اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تیمم کرنے کے بعد سلام کا جواب دیا۔
[حسن : صحيح أبو داود 12 ، كتاب الطهارة : باب فى الرجل يرد السلام وهو يبول ، أبو داود 16]
معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب وضوء یا تیمم کرنے کے بعد دیا لٰہذا اذان کہنا بھی طہارت کے بعد ہی زیادہ بہتر ہے لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے کہ جو شخص بغیر وضوء کے اذان دے گا تو اذان قبول نہیں ہوگی یا اس شخص نے حرام کا ارتکاب کیا ہے کیونکہ اس کی کوئی دلیل موجود نہیں مزید برآں جس حدیث میں اس قسم کا ذکر ہے وہ ضعیف ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
ولا يؤذن إلا متوضى
[ضعيف : إرواء الغليل 240/1 ، ترمذي 201 ، كتاب الصلاة : باب ما جاء فى كراهية الاذان بغير وضوء ، بيهقي 397/1]
”اذان صرف با وضور شخص ہی دے۔“
(ابن حزمؒ) اذان اور اقامت ہر حالت میں کفایت کر جاتی ہے خواہ انسان بیٹھا ہو، سوار ہو، بے وضو ہو، جنبی ہو یا غیر قبلہ کی طرف رخ کیا ہو، لیکن افضل یہی ہے کہ انسان با وضو قبلہ رخ کھڑا ہو کر اذان دے۔ [المحلى 90/3]

اگر کہیں آدمی اکیلا ہو تو اذان و اقامت کہہ کر نماز پڑھ سکتا ہے

حدیث نبوی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا رب ایسے چرواہے سے خوش ہوتا ہے جو پہاڑ کی چوٹی پر اپنا ریوڑ چراتا ہے اور نماز کے لیے اذان کہتا ہے اور نماز ادا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ :
انظروا إلى عبدى هذا يؤذن وبقيم الصلاة
[صحيح : صحيح أبو داود 1062 ، كتاب صلاة السفر: باب الاذان فى السفر، أبو داود 1203 ، أحمد 145/4 ، نسائي 20/2 ، ابن حبان 1660 ، بيهقى 405/1]
” میرے اس بندے کی طرف دیکھو جو مجھ سے ڈرتے ہوئے نماز کے لیے اذان و اقامت کہتا ہے ۔“ پس میں نے اپنے بندے کو معاف کر دیا اور اسے جنت میں داخل کر دیا۔

مؤذن کو اونچی آواز سے اذان دینی چاہیے

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ولا يسمع مدى صوت المؤذن جن ولا إنس ولا شيئ إلا شهد له يوم القيمة
[أحمـد 35/3 ، بخاري 409 ، 3296 ، كتاب الاذان : باب رفع الصوت بالنداء ، نسائي 12/2 ، بيهقي 397/1 ، موطا 69/1 ، عبد الرزاق 1865 ، ابن خزيمة 389]
”مؤذن کی آواز پہنچنے کی حد تک جو بھی جن انسان اور دوسری اشیاء اسے (یعنی اذان کو) سنتی ہیں وہ قیامت کے دن اس کے حق میں گواہی دیں گی ۔“

اچھی آواز کا حامل موذن مقرر کیا جائے

امام صنعانیؒ فرماتے ہیں کہ مؤذن کے تقرر و انتخاب کے وقت اچھی آواز والوں کو ترجیح دینی چاہیے۔
[سبل السلام 255/1]
یہ بات حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث سے ثابت ہے کہ جس میں ہے :
ان النبـي أعـجـبــه صــوتـه فعلمه الأذان
[صحيح: صحيح ابن خزيمة 385/1]
” نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی آواز بہت پسند آئی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اذان کی تعلیم خود دی ۔“

دوران اذان شہادت کی انگلیاں کانوں میں رکھنا

اذان کہتے وقت اپنی شہادت کی دونوں انگلیاں دونوں کانوں میں رکھنا اور حیعلتین حيى على الصلاة ، حيى على الفلاح کہتے ہوئے دائیں اور بائیں بغیر بالکل گھومے گردن موڑ نا مشروع ومستحب ہے۔
[نيل الأوطار 513/1]
اس مسئلے کے اثبات کے لیے مندرجہ ذیل احادیث بطور شاہد پیش کی جاسکتی ہیں:
➊ حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
رايت بلالا يؤذن وأتتبع فاه ههنا وههنا وإصبعاه فى أذنيه
[بخارى 634 ، كتاب الاذان : باب هل يتتبع المؤذن فاه ههنا و هنا…..، أحمد 307/4 ، ترمذي 197 ، نسائي 87/1 ، ابن ماجة 711 ، دارمي 327/1]
”ميں نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دیتے دیکھا کہ وہ اپنا چہرہ ادھر ادھر پھیرتے تھے۔ اس وقت ان کی دونوں انگلیاں ان کے کانوں میں تھیں ۔“
➋ حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کہتے ہوئے دیکھا :
فلما بلغ حسي على الصلاة حيى على الفلاح لوى عنقه يمينا وشمالا ولم يستدرك
[صحيح: صحيح أبو داود 488 ، كتاب الصلاة : باب المؤذن يستدير فى أذانه ، ابن خزيمة 388 ، ابن حبان 1268 ، حميدي 892 ، عبدالرزاق 1806 ، أبو يعلى 887]
”جب وہ حيي على الصلاة اور حيي على الفلاح پر پہنچے تو انہوں نے اپنی گردن کو دائیں اور بائیں جانب موڑ ا لیکن بالکل گھومے نہیں ۔“
(البانیؒ) سینے کو پھیرنے کی سنت میں بالکل کوئی اصل نہیں ہے۔
[تمام المنة ص/ 150]

اذان کہنے کے لیے قرعہ ڈالنا

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لو يعلم الناس ما فى النداء والصف الأول ثم لم يجدوا إلا أن يستهموا عليه لا ستهموا
[بخاري 615 ، كتاب الاذان : باب الاستهام فى الاذان]
”اگر لوگوں کو اس اجر و ثواب کا علم ہو جائے جو اذان اور پہلی صف میں ہے پھر انہیں اگر اسے حاصل کرنے کے لیے قرعہ بھی ڈالنا پڑے تو وہ قرعہ ڈالیں ۔ “

اذان و اقامت کے درمیان نوافل

حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
وبين كل أذانين صلاة ، بين كل أذانين صلاة
[بخاري 627 ، كتاب الاذان : باب بين كل أذانين صلاة لمن شاء]
” ہر دو اذانوں ( اذان و اقامت ) کے درمیان نماز ہے، ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے ۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ یہی الفاظ کہتے ہوئے فرمایا ولمن شاء ”یعنی یہ نماز ایسے شخص کے لیے ہے جو پڑھنا چا ہے ۔“

اذان و اقامت کے درمیان دعا رد نہیں ہوتی

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
الدعاء لا يرد بين الأذان والإقامة
[صحيح : صحيح ترمذى 175 ، كتاب الصلاة : باب ماجاء فى أن الدعاء لا يرد بين الاذان والإقامة ، المشكاة 671 ، إرواء الغليل 244 ، صحيح أبو داود 534 ، أبو داود 521 ، ترمذي 212 ، أحمد 119/3 ، بيهقى 410/1 ، ابن خزيمة 425]
”اذان و اقامت کے درمیان دعا رد نہیں کی جاتی ۔“

اذان و اقامت کے لیے بھی نیت واجب ہے

کیونکہ یہ بھی ایک نیک عمل ہے اور ہر ایسا عمل جو قربت الہی کا ذریعہ ہو اس میں نیت شرط ہے ۔
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ
[الأعراف : 29 ، يونس :22 ، العنكبوت : 65 ، لقمان : 32 ، غافر : 65،14 ، البيئة : 5]
”اسی کے لیے دین کو خالص کرنے والے ( ہو کر اس کی عبادت کریں ) ۔ “
➋ حدیث نبوی ہے کہ :
إنما الاعمال بالنيات
[بخاري 1 ، كتاب بدء الوحى]
”تمام اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔“
(شوکانیؒ ) مذکورہ حدیث میں موجود لفظ اعمال میں افعال و اقوال دونوں شامل ہیں۔
[السيل الجرار 206/1]

بیٹھ کر یا قبلہ کے علاوہ کسی اور سمت میں اذان کہنا

امام شوکانیؒ بیان کرتے ہیں کہ اس طرح اذان کہنا مشروع و ثابت ہیت اذان کے مخالف ہے۔
[السيل الجرار 201/1]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے