وعَنْ أبى مُوسَى عبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ الأَشعرِيِّ رضِي الله عنه قالَ: سُئِلَ رسولُ الله صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم عَنِ الرَّجُلِ يُقاتِلُ شَجَاعَةً، ويُقاتِلُ حَمِيَّةً ويقاتِلُ رِياءً، أَيُّ ذلِك فى سَبِيلِ اللَّهِ؟ فَقَالَ رَسُول الله صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم: "مَنْ قاتَلَ لِتَكُون كلِمةُ اللَّهِ هِي الْعُلْيَا فهُوَ فى سَبِيلِ اللَّهِ” مُتَّفَقٌ عَلَيهِ
حضرت ابو موسیٰ عبد الله بن قیس اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص شجاعت و بہادری کی خاطر، ایک (خاندانی) حمیت کی خاطر اور ایک ریا کاری کی خاطر لڑتا ہے تو ان میں سے اللہ تعالیٰ کی خاطر کون لڑتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جو شخص اس لیے لڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو وہ اللہ تعالٰی کی راہ میں لڑتا ہے“۔ متفق عليه
توثيق الحديث :
[أخرجه البخاري 222/1 – فتح ، و مسلم 1904 ، واللفظ له]
غريب الحديث :
حمية : ” حمیت و غیرت“ جو خواہ خاندانی ہو یا قبائلی یا دوستوں کی۔
رياء : ” ریا کاری“ لوگوں کو دکھانے کے لیے لڑنا تا کہ وہ اس کے جو ہر دیکھیں اور اس کی تعریف کریں۔
یہ ریا کاری عمل کو باطل کردیتی ہے، اس کے بارے میں شارح کا رسالہ مبطلات الأعمال نہایت مفید ہے، نیز اس ریا کاری کا امت پر برا اثر پڑتا ہے۔ شارح نے اس پر اپنے رسالے الرياء وأثره السبيء فى الأمة میں مفصل بحث کی ہے۔
كلمة الله : ” اللہ کا کلمہ “ یعنی اسلام کی طرف اللہ تعالی کی دعوت اور اس سے مراد اللہ کا دین ہے۔ مختلف روایات میں بیان ہوا ہے کہ قتال پانچ اشیاء کے سبب واقع ہوتا ہے:
➊ حصول غنیمت ۔
➋ شجاعت دکھانے کے لیے۔
➌ ریا کاری کے لیے۔
➍ حمیت کے لیے۔
➎ اور غضب و غصے کے سبب۔
ان امور میں مدح و ذم موجود ہے، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سائل کو نفی یا اثبات میں جواب نہیں دیا، بلکہ ایسے حکیمانہ انداز میں جواب دیا کہ ہر قسم کا شک والتباس دور ہوگیا اور بات سمجھ میں آگئی، فرمایا:
مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللهِ هِيَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ
”جو شخص صرف اس لیے لڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ (دین) بلند ہو وہ اللہ کی راہ میں لڑنے والا ہے۔“
یعنی جہاد وہی اللہ کی راہ میں متصور ہوگا جو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے کیا جائے تاکہ دین اسلام غالب آ جائے ۔ ہاں ! اگر اس نیت سے جہاد کرتے ہوئے مال غنیمت حاصل ہو جائے یا شہرت حاصل ہو جائے جو آغاز میں مقصود نہیں تھی تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں، یہ تو اللہ تعالی کا فضل و کرم ہے، جسے چاہتا ہے عطا فرما دیتا ہے، لیکن اس سے دل میں فخر و غرور نہیں آنا چاہیے۔ پس جو لوگ اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے ہیں انہیں اس مسئلے میں بہت محتاط ہونا چاہیے کہ ہر کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کریں۔
فقه الحدیث :
➊ اعمال صالحہ کا دارومدار نیتِ صالحہ پر ہے اور یہ حدیث إِنَّمَا الأعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ والی حدیث کی شاہد ہے۔
➋ جہاد کی فضیلت اسے حاصل ہوتی ہے جو اللہ تعالٰی کی راہ میں صرف اس لیے لڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو اور دین پورے کا پورا اللہ تعالٰی کے لیے ہو جائے۔
➌ عمل کے سبب کے بارے میں سوال کرنا مستحب ہے نیز اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کی حقیقت بیان فرمائی۔
➍ عمل سے پہلے علم ضروری ہے جیسا کہ سائل نے دریافت کیا کہ کون سا جہاد فی سبیل اللہ ہے؟ تا کہ اس کے معلوم ہونے کے بعد جہاد کرے۔
➎ دنیا کی حرص اور ایسے قتال کی مذمت ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے کیا جائے۔