لا حول ولا قوة إلا بالله کے آخری الفاظ کے بارے میں وضاحت
سوال:
لا حول ولا قوة إلا بالله کے آخری الفاظ کیا ہیں؟
کیا یہ العلي العظيم ہے یا العزيز الحكيم؟
الجواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اصل کلمہ
ولا حول ولا قوة الا بالله
صحیح اور مستند اختتام
درست بات یہی ہے کہ اس کلمۂ طیبہ کا اختتام "العزيز الحکيم” کے الفاظ کے ساتھ کیا جائے۔
دلائل اور احادیث
صحیح مسلم کی روایت
صحیح مسلم (2/345)، باب فضل التسبیح والتھلیل والدعاء میں حضرت سعدؓ سے روایت ہے:
ایک اعرابی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا:
"مجھے کوئی کلام سکھائیں جو میں بار بار پڑھا کروں”۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
«لا اله الا الله وحده لا شريك له الله أكبر كبيرا والحمد لله كثيرا وسبحان الله رب العالمين لا حول ولا قوة إلا بالله العزيز الحكيم»
ترجمہ: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اللہ سب سے بڑا ہے، بہت زیادہ تعریفیں اسی کے لیے ہیں، اللہ پاک ہے جو جہانوں کا پروردگار ہے، برائی سے بچنے اور نیکی کرنے کی طاقت اللہ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں، وہ زبردست اور حکمت والا ہے۔
اعرابی نے کہا: "یہ سب تو رب کے لیے ہے، میرے لیے کیا ہے؟”
تو آپ ﷺ نے فرمایا:
"اللهم اغفر لي وارحمني واهدني وارزقني”
(اے اللہ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم کر، ہدایت دے اور روزی عطا فرما۔)
مشکوٰۃ (1/202)، الترغيب (2/430)
"العلي العظيم” کے ساتھ اختتام کی روایت کا جائزہ
امام احمد کی روایت
مسند احمد (4/91-92) میں ایک حدیث حضرت علقمہ بن وقاصؓ سے مروی ہے:
"میں حضرت معاویہؓ کے پاس تھا، مؤذن نے اذان دی تو انہوں نے بھی مؤذن کی طرح کلمات دہرائے، جب مؤذن نے ‘حي علی الصلاة‘ کہا تو انہوں نے کہا:
"ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم”
پھر فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا۔”
تاہم، اس روایت میں عیسیٰ اور عبداللہ نامعلوم راوی ہیں، جس کی وجہ سے حدیث ضعیف ہے۔
تحقیق کا نتیجہ
امام احمد نے یہی حدیث تین بار
(4/91، 92، 98)
بیان کی، مگر کسی روایت میں "العلي العظيم” کا ذکر نہیں ہے۔
سنن نسائی (1/145) حدیث 652، المجمع (1/330-331) میں بھی "العلي العظيم” موجود نہیں ہے،
جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مشکوٰۃ میں "العلي العظيم” کی زیادتی ایک غلطی ہے۔
مرقات (2/122) میں ملا علی قاری فرماتے ہیں:
"یہ زیادتی روایتوں میں نادر ہے اور قلت جستجو سے ہوئی ہے۔”
علامہ البانیؒ، مشکوٰۃ (1/213) حدیث 675
دیگر مصادر کا جائزہ
خطبہ میں اختتام
مرقاۃ (1/38) میں مصنف کا قول
"ولا حول ولا قوة الا بالله العزيز الحكيم” کے ساتھ ختم ہوتا ہے، جو مشہور ہے مگر روایت میں نہیں آیا۔
حصن حصین کے بعض نسخوں میں "العلي العظيم” موجود ہے،
لیکن وہ غالباً دوسری روایت ہے۔
اصل حصن حصین میں "العزيز الحكيم” ہے، مگر حاشیہ میں "العلي العظيم” لکھا ہوا ہے اور بزار کی طرف منسوب ہے۔
ابن ماجہ اور دیگر کی روایت
عبادہ بن صامتؓ کی روایت
ابن ماجہ (2/335) حدیث 3878، ابن السنی، عمل الیوم واللیلة (751/35) کے مطابق:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو رات کو نیند سے جاگے اور یہ کہے:
«لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شئ قدير سبحان الله والحمد لله ولا اله الا الله والله اكبر ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم»
پھر دعا کرے: اے اللہ! میری مغفرت فرما، تو اللہ اسے بخش دیتا ہے۔
بخاری (1/155)، ترمذی (3/149) حدیث 3654، ابو داود (3/954) حدیث 506، احمد (5/313)، مشکوٰۃ (1/108)
تاہم، بخاری اور دیگر میں "العلي العظيم” کا ذکر نہیں ہے،
صرف ابن ماجہ، ابن السنی، الکلم الطیب (ص: 42) حدیث 42 میں یہ الفاظ ہیں۔
منذری کی روایت
الترغيب (2/435) میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
جو شخص کہے:
«سبحان الله والحمد لله ولا اله الا الله والله اكبر ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم»
تو اللہ فرماتا ہے: "میرا بندہ مسلمان ہو گیا، تابعدار ہو گیا۔”
حاکم، مستدرک (1/502)
مگر اس میں "العلي العظيم” نہیں ہے، اس سے منذری کی خطا واضح ہوتی ہے۔
فضیلت کا بیان اور الجھن کی وضاحت
عام طور پر "ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم” جنت کے خزانوں میں سے بتایا جاتا ہے، مگر:
ترمذی (3/76) حدیث 3853 میں یہ کلمہ موجود نہیں ہے، اس کا سبب منذری کی تحقیق کی کمی ہے۔
بزار، المجمع (10/61) میں بھی "العلي العظيم” موجود ہے،
مگر راویوں کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے۔
ابن السنی اور الوابل الصیب کی روایت
الوابل الصیب (ص: 92)، ابن السنی (حدیث 57، ص: 30)
میں "العلي العظيم” صبح و شام کی دعاؤں میں ذکر ہوا ہے، مگر اس کی سند ضعیف ہے۔
اس میں اغلب بن تمیم راوی ہیں، جو منکر الحدیث ہیں۔
نتیجہ
لہٰذا ثابت ہوا کہ اس کلمے کا درست اختتام "العزيز الحكيم” ہے۔
"العلي العظيم” کے ساتھ ختم کرنا درست نہیں اور اس کے بارے میں جو روایات ہیں وہ یا تو ضعیف ہیں یا غلطی پر مبنی ہیں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب