سوال : کیا کفن کے لیے ایک کپڑا کافی ہے یا تین کپڑے پہنانے چاہییں؟ مہربانی فرما کر جواب عنایت فرما دیں۔
جواب : میت کے لیے کفن کا کپڑا اتنا ہونا چاہیے جو اس کے تمام بدن کو ڈھانپ لے جیسا کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
«ان النبى صلى الله عليه وسلم خطب يوما، فذكر رجلا من اصحابه قبض، فكفن فى كفن غير طائل، وقبر ليلا، فزجر النبى صلى الله عليه وسلم ان يقبر الرجل بالليل. حتى يصلى عليه، إلا ان يضطر إنسان إلى ذلك، وقال النبى صلى الله عليه وسلم:” إذا كفن احدكم اخاه، فليحسن كفنه » [مسلم، كتاب الجنائز، باب فى تحسين كفن العيت 943، المنتقي لابن الجارود 546، أبوداؤد 3148، نسائي 33/4، مسند أحمد 295/3، مستدرك حاكم 368/1، بيهقي 403/3، شرح السنة 415/5]
”بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن خطبہ ارشاد فرمایا اور اپنے ایک صحابی کا ذکر کیا جو فوت ہو گیا تھا۔ اسے ایسے کپڑے میں کفن دیا گیا جو لمبا نہ تھا اور رات کے وقت قبر میں اتارا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت آدمی کو قبر میں اتارنے سے ڈانٹا، یہاں تک کہ اس پر جنازہ پڑھا جائے بجز اس کے کہ انسان اس بات کی طرف مجبور ہو جائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کفن پہنائے تو اسے اچھا کفن دے۔“
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
« إذا ولي احدكم اخاه فليحسن كفنه » [ترمذي، كتاب الجنائز : باب أمر المومن بإحسان كفن أخيه 995، ابن ماجه 1474]
”جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کا ولی بنے تو اسے اچھا کفن دے۔“
اچھا کفن دینے کا مفہوم یہ ہے کہ کفن میں نظافت، ستھرائی، موٹائی ہو اور وہ ستر کو ڈھانپنے والا اور متوسط ہو۔ [تحفة الأحوذي 51/4]
میت کو ایک کپڑے میں بھی کفن دیا جاسکتا ہے جیسا کہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو ایک چادر میں کفن دیا گیا جب وہ جنگِ احد میں شہید کر دیے گئے۔ [ترمذي 3853، أبوداؤد 3155، نسائي 38/4، عبدالرزاق 427/3، مسند أحمد 109/5، مسند حميدي 155، المنتقي لابن الجارود 522]
اسی طرح سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو بھی ایک ہی کپڑے میں کفن دیا گیا۔ [مسند أحمد 395/6، حلية الأولياء 135/1، طبراني 3674]
اسی طرح شداد بن الہاد رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ایک صحابی کے شہید ہونے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے جبہ مبارک میں کفن دیا اور اس کا جنازہ پڑھا اور اللہ سے اس کے لیے دعا کی : ”اے اللہ ! یہ تیرا بندہ ہے، تیری راہ میں مہاجر ہو کر نکلا اور شہید کر دیا گیا، میں اس پر گواہی دیتا ہوں۔“ [عبدالرزاق 9597، شرح معاني الآثار 291/1، مستدرك حاكم 595/3، بيهقي 15/4، دلائل النبوة 22/4، نسائي 277/1]
سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بھی ہے کہ جب انہیں شہید کیا گیا تو ان کی بہن صفیہ رضی اللہ عنہا انہیں کفن دینے کے لیے دو کپڑے لے کر آئیں لیکن ان کے پہلو میں ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ والا سلوک کیا گیا اور اس انصاری کے لیے کفن کا کپڑا نہ تھا تو ایک کپڑا اسے دے دیا گیا۔ [بيهقي 401/3]
ان تمام احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایک ہی کپڑا میسر ہو تو اس میں بھی کفن دیا جا سکتا ہے البتہ کفن کے لیے تین کپرے ہونا مستحب ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
«كفن النبى صلى الله عليه وسلم فى ثلاثة اثواب يمانية ليس فيها قميص ولا عمامة» [بخاري، كتاب الجنائز : باب الكفن بغير قميص 1271، المنتقي لابن الجارود 521، أبوداؤد 3151، نسائي 35/4، ترمذي 996، ابن ماجه 1469، مسند أحمد 118/6، مسند طيالسي 1453، عبدالرزاق 421/3، بيهقي 399/3]
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تین یمنی کپڑوں میں کفن دیا گیا، ان میں قمیص اور پگڑی نہیں تھی۔“
کفن تین کپڑوں سے زائد نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کفن دیا گیا تھا یہ اس کے خلاف ہے اور پھر اس میں مال کا ضیاع بھی ہے۔ عورت کا کفن مرد کی طرح ہے، دونوں کے کفن میں تفریق پر کوئی صحیح دلیل موجود نہیں۔ عورت کے کفن کے پانچ کپڑوں کے بارے میں جو روایات مروی ہیں وہ ثابت نہیں۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔ [أحكام الجنائز للألباني]