کفارہ، قسم اور گواہی کے مسائل
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال :

اگر مجھے اپنے شہر میں دس مساکین نہ مل سکیں تو کیا ایک ہی مستحق کفارہ مسکین کو دس مساکین کا کھانا کھلا سکتی ہوں ؟
ہمارے ملک کی غالب خوراک چاول ہے، کیا میں چاولوں کی صورت میں کفارہ دے سکتی ہوں ؟
اگر نقدی مساکین کے لئے زیادہ مفید ہو تو کیا میں خوراک کے بدلے نقد پیسے دے سکتی ہوں ؟ اور اس صورت میں فی کس کتنے ریال ادا کرنے ہوں گے ؟
ایک ماں اکثر اپنے بچوں کو اس لئے قسمیں دیتی رہتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں، جبکہ اس کے بچے اکثر و بیشتر اس کی مخالفت کرتے ہیں جس سے اس کی قسم پوری نہیں ہوتی۔ تو کیا اس صورت میں اس پر کفارہ قسم واجب ہو گا یا اس کی قسم لغو سمجھی جائے گی ؟
میری ایک ہم جماعت اور ہماری استانی کے درمیان کسی مسئلے میں اختلاف ہو گیا۔ میری ہم جماعت نے استانی کی اجازت کے بغیر ہی اس سے بلند آواز میں بات کرنا شروع کر دی، اس پر استانی نے میری ساتھی لڑکی کے خلاف مجھ سے گواہی چاہی تو میں نے لڑکی کے حق میں گواہی دے دی۔ حالانکہ میں جانتی تھی کہ اس نے اجازت لئے بغیر گفتگو کی ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کہیں اسے سزا نہ ہو جائے بعد میں مجھے اس پر بڑی ندامت ہوئی، میں نے استانی سے معافی مانگنے کا پروگرام بنایا مگر وہ سعودی عرب سے جا چکی تھی۔ اب مجھے کیا کرنا چاہئیے ؟

جواب :

آپ کے لئے شہر میں مساکین کو تلاش کرنا ضروری ہے۔ اگر وہاں نہ مل سکیں تو دوسرے قریبی شہروں میں تلاش کریں اگر ایک ہی مسکین مل سکے تو اسے دس دن تک کھانا کھلایا جا سکتا ہے۔ ہاں صدقات و خیرات جمع کرنے والے اور پھر انہیں مستحقین پر خرچ کرنے والے ایسے اداروں کو کفارہ ادا کرنا جائز ہے جن میں ضرورت مند مستحقین آتے ہیں اور وہ انہیں بقدر ضرورت و استحقاق دے دیتے ہیں یا اتنا کہ جس سے ان کی ضرورت کم ہو سکے۔
مساکین کو اکٹھا کر کے انہیں صبح یا شام پیٹ بھر کر کھانا کھلانا جائز ہے اور اگر کوئی شخص کچے راشن کی صورت میں کفارہ ادا کرنا چاہے تو وہ عموی اور گھر میں استعمال ہونے والی خوراک سے یوں بھی ادا کر سکتا ہے اور اگر وہ گھر میں عام طور پر گوشت اور چاول کا استعمال کرتے ہیں تو وہ اس خوراک سے انہیں ایک وقت کی خوراک دے گا۔
جہاں تک قیمت ادا کرنے کا تعلق ہے تو ایسا کرنا کافی نہ ہو گا اگرچہ اس میں ان کی سہولت اور فائدہ ہی ہو، کیونکہ لوگ عام طور پر کھانا کھلانے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی منصوصات سے آگاہ نہیں ہوتے۔
ہماری رائے میں ماں سے صادر ہونے والی ایسی قسمیں لغو ہوتی ہیں اس لئے کہ وہ اس کے لئے سنجیدہ نہیں ہوتی اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّـهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَـكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ [5-المائدة:89 ]
”اللہ تعالیٰ تم سے تمہاری لغو قسموں پر مواخذہ نہیں کرے گا لیکن جن قموں کو تم مضبوط کر چکے ہو ان پر تم سے مواخذہ کرے گا۔“
اس سے مراد عزم و ارادہ سے صادر ہونے والی قسمیں ہیں۔ جبکہ ایسی بے شمار قسمیں عام طور تنبیہ کرنے کے لئے ہوتی ہیں، لہٰذا اس صورت میں کفارے کی ضرورت نہیں۔
آپ نے سہیلی کے دفاع میں امر واقعہ کے خلاف گواہی دی تو سنگین غلطی کا ارتکا ب کیا، اس کا کفارہ توبہ و استغفار اور سکول کی ہیڈ مسٹریسں سے معذرت اور استانی کے حق میں دعائے خیر کرنا ہے۔ اگر اصل استانی کے ٹھکانے کا علم ہو سکے، مکن ہو تو بالمشافہ ورنہ بذریہ فون یا ڈاک استانی سے معذرت ہونی چاہئیے۔ والله الموفق
(شیخ ابن جبرین حفظ اللہ)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے