سوال:
کیا کسی کام (کسب) کو ترک کرنا جائز ہے، اگر اس کی وجہ سے کسی دوسری چیز کے تلف ہونے کا اندیشہ ہو، جیسے کہ گھوڑا یا بچہ مر جائے؟
(اخوکم: نورالحق و شوکت)
الجواب
الحمد للہ، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ عقیدہ باطل ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدشگونی (نحوست) سے منع فرمایا ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مرض کا متعدی ہونا، بدشگونی، ہامہ اور صفر کا کوئی وجود نہیں، اور کوڑھی (جذامی مریض) سے ایسے بھاگو جیسے کہ تم شیر سے بھاگتے ہو۔”
(صحیح بخاری: 5776، مشکوٰۃ: 2/391)
بدشگونی اور نحوست کا عقیدہ جاہلیت کا عقیدہ ہے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی وضاحت:
بنو عامر کے دو افراد عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور بتایا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ:
"بدشگونی گھر، عورت اور گھوڑے میں ہے۔”
یہ سن کر عائشہ رضی اللہ عنہا غصے میں آ گئیں اور فرمایا:
"قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کبھی نہیں فرمائی، بلکہ یہ جاہلیت والوں کا عقیدہ تھا۔”
(مسند احمد: 6/50، مشکل الآثار للطحاوی: 1/311، الحاکم: 2/479، الصحیحۃ: 2/734، رقم: 993)
📖 پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ آیت پڑھی:
﴿مَا أَصَابَ مِن مُصيبَةٍ فِى الأَرضِ وَلا فِى أَنفُسِكُم إِلّا فِى كِتَابٍ مِن قَبلِ أَن نَبرَأَهَا﴾
(الحدید: 22)
"کوئی مصیبت زمین میں آتی ہے اور نہ تمہاری جانوں پر، مگر وہ اس سے پہلے ایک کتاب (لوحِ محفوظ) میں لکھی جا چکی ہوتی ہے۔”
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ نحوست کا عقیدہ سراسر غلط ہے، کیونکہ ہر چیز اللہ کی تقدیر کے مطابق ہوتی ہے۔
کیا کوئی چیز واقعی منحوس ہو سکتی ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"نحوست کوئی چیز نہیں، لیکن برکت تین چیزوں میں ہو سکتی ہے: عورت، گھوڑا اور گھر۔”
(ترمذی: 2/125، الصحیحۃ: 4/564، رقم: 1930)
یعنی اگر کسی چیز میں خیر و برکت ہے تو وہ بھی اللہ کی طرف سے ہے، اور اگر کوئی آزمائش ہے تو وہ بھی اللہ کی طرف سے ہے، نہ کہ کسی چیز کی نحوست کی وجہ سے۔
کسی بھی چیز کو منحوس سمجھنا، یا کسی کام کو منحوس خیال کر کے ترک کرنا جاہلیت کی سوچ ہے اور یہ شرعی طور پر ناجائز ہے۔
کسب چھوڑنے کا شرعی حکم
اسلام میں کسی کام (کسب) کو سخت مجبوری کے بغیر ترک کرنا جائز نہیں۔
📖 مشکوٰۃ (1/243، رقم: 2785) میں ایک حدیث ہے جو اسی مفہوم پر دلالت کرتی ہے، اگرچہ اس کی سند ضعیف ہے۔
لہٰذا، کسی مخصوص مہینے، دن، یا چیز کو منحوس سمجھ کر کوئی کام (کسب) چھوڑ دینا غلط ہے۔
نتیجہ:
◈ کسی بھی چیز کو منحوس سمجھنا اور اس کی وجہ سے کسب ترک کرنا ناجائز ہے۔
◈ ہر چیز اللہ کی تقدیر کے مطابق ہوتی ہے، اس لیے بے بنیاد وہم و گمان پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔
◈ مسلمان کو چاہیے کہ وہ ایسے باطل نظریات سے بچے اور دین اسلام کے مطابق زندگی گزارے۔
📖 وصلی اللہ علی نبینا محمد وآله وصحبه اجمعین۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب۔