کذبات ابراہیم علیہ السلام کی حدیث کا تحقیقی جائزہ
ماخوذ: فتاوی علمیہ، جلد1۔ كتاب العقائد۔صفحہ111

سوال

ہماری اسکول کلاس میں حالیہ دنوں میں صحیح بخاری کی ایک حدیث "کذبات ابراہیم علیہ السلام” کے بارے میں بہت گفتگو ہو رہی ہے۔ کچھ لوگ اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو "صِدِّيقًا نَّبِيًّا” کہا گیا ہے، جبکہ اس حدیث میں ان کی طرف جھوٹ منسوب کیا گیا ہے۔ اس بنیاد پر کچھ افراد صحیح بخاری کی اس حدیث کو مسترد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس حدیث کی موجودگی میں بخاری کو "اصح الکتب بعد کتاب اللہ” کا درجہ حاصل نہیں ہونا چاہیے۔
برائے مہربانی اس حدیث کی وضاحت پر ایک تفصیلی مضمون تحریر کریں تاکہ حقیقت واضح ہو سکے۔
(محمد ارسلان ستار، راولپنڈی)

الجواب

الحمد للہ، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث کی تخریج اور روایات

"کذبات ابراہیم علیہ السلام” والی حدیث مختلف الفاظ کے ساتھ درج ذیل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے:

◈ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
◈ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ
◈ سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت

یہ حدیث تابعین میں درج ذیل معتبر راویوں کے ذریعے بیان ہوئی ہے:

◈ محمد بن سیرین البصری (ثقہ، ثبت، عابد کبیر القدر، توفی 110ھ،تقریب التہذیب: 5947)
◈ عبدالرحمن بن ہرمز الاعرج (ثقہ، ثبت، عالم، توفی 117ھ، تقریب التہذیب: 4033)
◈ ابو زرعہ بن عمرو بن جریر (ثقہ، تقریب التہذیب: 8103)

محمد بن سیرین سے روایت کرنے والے محدثین

◈ ایوب بن ابی تمیمہ السختیانی (ثقہ، ثبت، حجت، توفی 131ھ، تقریب التہذیب: 605)
(صحیح بخاری، کتاب احادیث الأنبياء، باب 8، حدیث 3357)
(صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب 41، حدیث 6145)

◈ ہشام بن حسان البصری (ثقہ، توفی 147-148ھ، تقریب التہذیب: 7289)
(ابو داود: 2212، نسائی: 8374، ابن حبان: 5707، الطبری فی تفسیرہ: 23/45، ابویعلی: 6039)

حدیث کی صحت پر محدثین کی تصدیق

یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے علاوہ امام ترمذی، امام ابن حبان، امام ابو عوانہ اور دیگر محدثین نے بھی نقل کی ہے۔

یہ حدیث امام بخاری (پیدائش: 194ھ، وفات: 256ھ) سے پہلے امام عبداللہ بن المبارک (وفات: 181ھ) نے بھی روایت کی ہے۔

اسے امام بخاری کے معاصر محدثین جیسے امام احمد بن حنبل، امام ابن ابی شیبہ اور امام ابو داود نے بھی بیان کیا ہے۔ کسی بھی محدث نے اس حدیث کو ضعیف قرار نہیں دیا، نہ ہی کسی نے اس پر جرح کی ہے۔

حدیث کا صحیح مفہوم

"کذبات ابراہیم علیہ السلام” حدیث میں جس جھوٹ کا ذکر کیا گیا ہے، وہ درحقیقت "توریہ” (تعریض) ہے، نہ کہ جھوٹ۔

توریہ عربی زبان کا ایک اسلوب ہے جس میں کہنے والا بظاہر ایک بات کہتا ہے، لیکن اس کا اصل مفہوم کچھ اور ہوتا ہے۔ یہ طریقہ بعض اوقات مصلحت کے تحت استعمال کیا جاتا ہے، اور یہ شرعاً جائز ہے۔

حدیث میں مذکور تین مواقع یہ ہیں:

➊ بتوں کے بارے میں کہا:
"إِنِّي سَقِيمٌ” (میں بیمار ہوں)
(سورۃ الصافات: 89)
اس کا مقصد یہ تھا کہ میں روحانی طور پر اس شرک کو ناپسند کرتا ہوں۔

➋ بیوی کے بارے میں کہا:
"إِنَّهَا أُخْتِي” (یہ میری بہن ہے)
یعنی دینی بہن، کیونکہ سب مومنین ایک دوسرے کے بھائی بہن ہوتے ہیں۔

➌ بیٹے اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں کہا:
بڑی قربانی میں کہا کہ اللہ کا حکم ہے۔
یہ اللہ کی طرف سے ایک آزمائش تھی اور ابراہیم علیہ السلام کا عمل اس آزمائش کے تحت تھا۔

علامہ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"اہلِ حجاز کی لغت میں توریہ کو ‘کذاب’ بھی کہا جاتا ہے۔”
(فتح الباری، ج6، ص 391)

نتیجہ

◈ یہ حدیث صحیح ہے اور اس کی سند کو جلیل القدر محدثین نے قبول کیا ہے۔
◈ "کذبات ابراہیم” درحقیقت "توریہ” ہے، جو شرعی طور پر جائز ہے۔
◈ قرآن و حدیث میں کوئی تضاد نہیں، بلکہ یہ حدیث قرآن کی تصدیق کرتی ہے۔
◈ بخاری شریف کی صحت پر اعتراض درست نہیں کیونکہ یہ حدیث امام بخاری سے پہلے کئی محدثین نے بیان کی ہے۔

لہٰذا، صحیح بخاری پر محض اس حدیث کی بنیاد پر اعتراض کرنا علمی طور پر ناقص اور بے بنیاد ہے۔

واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1