کتب احادیث کے مختلف طبقات یا درجات
➊ پہلا طبقہ صحیح بخاری، صحیح مسلم اور موطا امام مالک پرمشتمل ہے۔ موطا امام مالک زمانہ تالیف کے لحاظ سے صحیحین سے متقدم لیکن مرتبہ و مقام کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہے۔ امام مالک بنے اور ان کے ہم خیال علماء کی رائے کے مطابق اس کی تمام احادیث صحیح ہیں ۔ دوسرے محدثین کے نزدیک اس کی منقطع یا مرسل روایات ( مختلف کتابوں میں ) دیگرسندوں سے اگر چہ متصل ہیں لیکن صرف اتصال سند بسا اوقات صحت حدیث کے لیے کافی نہیں ہوتا۔
➋ دوسرا طبقه من اربعہ پر مشتمل ہے۔ بعض کے نزدیک مسند احمد اور سنن دارمی بھی غالباً اسی طبقے میں شامل ہیں۔ ان کے مؤلفین علم حدیث میں متبحرتھے‘ ثقاہت و عدالت اور ضبط حدیث میں معروف تھے۔ انھوں نے جن مقاصد اور شرائط کو مدنظر رکھا ان کو پورا کرنے میں کوتا ہی نہیں کی۔ ان کی کتابوں کو ہر دور کے محدثین اور دیگر اہل علم میں بے پناہ پذیرائی ملی۔
➌ وہ مسانید‘ جوامع اور مصنفات جو صحاح ستہ سے پہلے یا ان کے زمانے میں یا ان کے بعد لکھی گئیں۔ ان کے مؤلفین کی غرض محض احادیث کو جمع کرنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں ہر قسم کی احادیث پائی جاتی ہیں۔ محدثین میں گو یہ کتابیں اجنبی نہیں، تاہم زیادہ معروف و مقبول بھی نہیں، چنانچہ جو احادیث پہلے دو طبقوں کی کتابوں میں موجود نہیں بلکہ صرف اسی طبقے کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں، فقہاء نے ان کا زیادہ استعمال نہیں کیا اور محدثین نے بھی ان کی صحت وسقم، قبول ورد‘ اور تشریح و توضیح کا زیادہ اہتمام نہیں کیا، مثلاً:
مصنف عبدالرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ مسند طیالسی، بیہقی ، طحاوی اور طبرانی وغیرہ۔
➍ وہ کتابیں جن کے مؤلفین نے زمانہ دراز کے بعد ان احادیث کو جمع کیا جو پہلے دوطبقوں کی کتابوں میں نہیں تھیں بلکہ ایسے مجموعوں میں پائی جاتی تھیں جن کی(علمی دنیا میں)کوئی وقعت نہ تھی۔ یہ احادیث عموماً واعظین کے استدلالات‘ حکماء کے اقوال زریں اور اسرائیلی روایات پر مشتمل ہیں جنھیں ضعیف راویوں نے سہوایا عمداً احادیث نبویہ سے خلط ملط کر دیا یا کتاب وسنت کے بعض احتمالات ہیں جنھیں بعض جاہل صوفیاء نے بالمعنی روایت کر دیا اور انھیں مرفوع احادیث سمجھ لیا گیا یا چند احادیث سے جملے منتخب کر کے ایک نئی حدیث بنادی گئی وغیرہ مثلاً :
ابن حبان کی ’’كِتَابُ الضُّعَفَاء‘‘ کتب احادیث کے مختلف طبقات یا درجات ابن عدی کی الکامل اور خطیب بغدَادِي، أَبُو نُعَيْم أَصْبَهَانِي، اِبْنِ عَساكر، جُورْقَانِي ابْنِ نَجَّار اور ديلمي کی کتب۔ اسی طرح مُسند خوارزمي ، ابن جوزي اور ملا علی قاری کی ’’المَوضُوعات“ وغیرہ بھی اسی طبقےمیں شامل ہیں۔
➎ اس طبقے کی کتابوں میں وہ احادیث شامل ہیں جو فقہاء صوفیاء مورخین اور مختلف فنون کے ماہرین کی زبانوں پر مشہور تھیں، نیز وہ احادیث بھی شامل ہیں جو بے دین زبان دانوں نے کلام بلیغ سے وضع کیں اور ان کے لیے سندیں بھی گھڑ لیں۔ ایسی باتوں کو لغوی طور پر ’’احادیث یا حدیث‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
❀ پہلے اور دوسرے طبقے کی کتابوں پر محدثین کا کامل اعتماد ہے۔ انھیں ہمیشہ ان کتابوں سے وابستگی رہی ہے۔
❀ تیسرے طبقے کی احادیث سے استدلال کرنا ان ماہرین حدیث کا کام ہے جو راویوں کے حالات اور حدیث کی مخفی علتوں کے جاننے والے ہوں۔ عموماً ایسی احادیث خود دلیل نہیں بن سکتیں البتہ کسی مقبول حدیث کی تائید میں پیش کی جاسکتی ہیں۔
❀ پہلے دو طبقوں کی احادیث کی تقویت میں چوتھے طبقے کی احادیث کو جمع کرنا اور ان سے استدلال کرنا علمائے متأخرین کا محض تکلف ہے۔ اہل بدعت اسی قسم کی احادیث سے اپنے اپنے مذاہب کی تائید میں شواہد مہیا کرتے ہیں لیکن محدثین کے نزدیک اس طبقے کی احادیث سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔
(ملخص از حُجَّةُ اللهِ الْبَالِغَه)
◈ مصادر اور مراجع کا مفہوم :
◈مصادر:
وہ کتب جن میں مصنفین نے احادیث کو اپنی سندوں کے ساتھ روایت کیا ہو۔ مذکورہ بالا طبقات میں جو درجہ بندی کی گئی ہے ان میں عموماً مصادر ہی مراد ہیں۔
◈مراجع :
وہ کتب جن میں احادیث کو مختلف مصادر سے منتخب کر کے جمع کیا گیا ہو۔ ان کی تین اقسام ہیں:
➊ وہ مراجع جن میں صرف صحیح احادیث کو جمع کیا گیا ہے مثلا :
’’الله لو وَالْمَرْجَادُ فِيمَا اتَّفَقَ عَلَيْهِ الشَّيْحَانِ‘‘اور ”عُمدَةُ الأحكام‘‘ وغیرہ۔
➋ وہ مراجع جن میں عموماً مستند مصادر سے احادیث منتخب کی گئی ہیں لیکن ان میں ضعیف احادیث بھی موجود ہیں، جیسے ’’مِشُكَاةُ الْمَصَابِيح، ريَاضُ الصَّالِحِينَ، الترغيب والترهيب بُلُوعُ الْمَرَامِ‘‘ وغيره۔
➌ وہ مراجع جن میں کسی معیار اور تحقیق کے بغیر بہت سے مستند اور غیر مستند مصادر سے احادیث لے کر جمع کر دی گئی ہوں، مثلاً:
’’كنز العمال‘‘ وغیرہ۔
نوٹ:
دوسری اور تیسری قسم کے مراجع میں مذکور کسی حدیث سے تحقیق کے بغیر استدلال کرنا درست نہیں ہے۔
❀ دو مقبول احادیث کے ظاہری تعارض کو دور کرنے کی مختلف صورتیں :
➊ سب سے پہلے ان کا کوئی ایسا مشترک مفہوم مراد لیا جائے گا جس سے ہر حدیث پر عمل کرنا ممکن ہو جائے اور اس سلسلے میں اس مفہوم کو ترجیح دی جائے گی جو کسی تیسری حدیث میں بیان ہوا ہو یا فقہائے محدثین نے اسے بیان کیا ہو۔
➋ اگر ایسا نہ ہو سکے تو پھر یہ تحقیق کی جائے گی کہ آیا ان میں سے کوئی حدیث منسوخ تو نہیں ہے۔ اس صورت میں منسوخ کو چھوڑ کر ناسخ پر عمل کیا جائے گا۔
➌ اگر نسخ کا ثبوت نہ ملے تو پھر ایک حدیث کو کسی مسلک کا لحاظ کیے بغیر محض وجود ترجیح (فنی خوبیوں) کی بنا پر ترجیح دی جائے گی اور دوسری حدیث کو چھوڑ دیا جائے گا مثلا:
کوئی حدیث صحت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہو یا اعلیٰ طبقے کی کسی کتاب میں مروی ہو تو کمتر درجے یا طبقے کی حدیث کو چھوڑ دیا جائے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔
نوٹ:
اگر مقبول اور مردود حدیثوں کا تعارض آئے گا تو وہاں مردود حدیث کو رد کرکے صرف مقبول حدیث پر عمل کیا جائے گا۔