کتا کنویں میں گرنے پر پانی کے حکم کی وضاحت
ماخوذ:فتاویٰ علمائے حدیث، کتاب الصلاۃ، جلد 1، صفحہ 17-18

سوال

اگر کتا کنویں میں گر جائے، تو اس کے پانی کا کیا حکم ہوگا؟

الجواب

1. اصولی حکم:

  • اگر کنویں کا پانی کثیر (یعنی دو قلتین یا تقریباً پانچ مٹکے) سے زیادہ ہو اور کتے کے گرنے سے پانی کا رنگ، مزہ یا بو تبدیل نہ ہو، تو پانی پاک ہے۔
  • لیکن اگر پانی کی مقدار قلتین سے کم ہو یا نجاست پانی کے رنگ، مزہ یا بو کو بدل دے، تو پانی ناپاک ہو جائے گا۔

2. حدیث کی دلیل:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"پانی پاک ہے، اسے کوئی چیز پلید نہیں کرتی، مگر جب نجاست اس کے رنگ، مزہ یا بو کو بدل دے۔”
(سبل السلام، شرح بلوغ المرام)

3. فقہ حنفی کا موقف:

  • فقہ حنفی کے مطابق، اگر کنویں میں کتا گر جائے، تو کنویں کا تمام پانی نکالا جائے گا۔
  • اس مسئلے کی بنیاد ایک روایت پر ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے زمزم کے کنویں میں حبشی کے گرنے پر تمام پانی نکالنے کا فتویٰ دیا تھا۔
  • لیکن اس روایت کی سند ضعیف ہے، اور دیگر دلائل کی موجودگی میں اس پر عمل کرنا مناسب نہیں۔

4. ائمہ کرام کا موقف:

  • حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ مکہ کے علما نے ستر سال میں حبشی والی روایت نہیں سنی، اور اس کی سند منقطع ہے۔
  • امام شافعی نے بھی کہا ہے کہ اگر زمزم کا پانی نکالا گیا، تو یہ صفائی کے لیے تھا نہ کہ پانی کے ناپاک ہونے کی وجہ سے۔

5. فقہ حنفی کے تناقضات:

  • فقہ حنفی میں دیگر مواقع پر کم مقدار کے پانی کو پاک قرار دیا گیا ہے، جیسے بارش کے پانی کے ساتھ گندگی کا لگنا۔
  • یہ تناقض ظاہر کرتا ہے کہ کنویں کے پانی کے ناپاک ہونے کا حکم درست اور قطعی نہیں۔

خلاصہ:

  • کنویں کا پانی ناپاک تب ہوگا جب نجاست اس کے رنگ، مزہ یا بو کو بدل دے۔
  • اگر پانی کثیر ہو (دو قلتین یا زیادہ) اور نجاست کا اثر ظاہر نہ ہو، تو پانی پاک ہے۔
  • فقہ حنفی کے بعض فتووں کی بنیاد ضعیف روایات پر ہے، جو قابل قبول نہیں۔
  • اہل حدیث اور جمہور علما کا موقف یہی ہے کہ پانی کو اس وقت تک ناپاک نہ سمجھا جائے جب تک اس میں نجاست کا اثر نہ ہو۔

واللہ اعلم

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے