کافروں کے ساتھ کھانے کا شرعی حکم
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث، کتاب الصلاۃ جلد 1

سوال:

کیا کسی کافر (مشرک) کے ساتھ مل کر کھانا کھانا جائز ہے یا نہیں؟

جواب:

کافر کے ساتھ کھانے کی اجازت اور شرائط

ضرورت یا کسی شرعی مصلحت کے تحت کافر (مشرک) کے ساتھ کھانے کی اجازت ہے، بشرطیکہ دسترخوان پر کوئی حرام چیز موجود نہ ہو۔ اس کی دلیل نبی کریم ﷺ کا عمل ہے کہ آپ کفار کے گھر تشریف لے جاتے اور ان کے ہاں سے کھانا تناول فرماتے تھے۔

حدیث مبارکہ:

«أَنَّ يَهُودِيًّا دَعَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خُبْزِ شَعِيرٍ وَإِهَالَةٍ سَنِخَةٍ فَأَجَابَهُ»

"آپ نے ایک یہودی کی دعوت قبول فرمائی تھی، اور اس کے ہاں کھانا کھایا تھا۔”

اسی طرح، غزوہ خیبر کے موقع پر ایک یہودی عورت نے آپ ﷺ کو کھانے کی دعوت دی، جس میں اس نے بکری کے گوشت میں زہر ملا دیا تھا۔ یہود مشرکین کافروں میں شامل ہیں، کیونکہ وہ سیدنا عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہتے تھے۔

کفار کے ساتھ کھانے سے اجتناب کی ہدایت

اگرچہ ضرورت اور شرعی مصلحت کے تحت کفار کے ساتھ کھانے کی اجازت ہے، لیکن بغیر ضرورت کے ان کے ساتھ دوستی اور کھانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

قرآن کریم:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذوا بِطانَةً مِن دونِكُم لا يَألونَكُم خَبالًا وَدّوا ما عَنِتُّم قَد بَدَتِ البَغضاءُ مِن أَفو‌ٰهِهِم وَما تُخفى صُدورُ‌هُم أَكبَرُ‌……١١٨﴾
(سورہ آل عمران: 118)

"اے ایمان والو! تم اپنے سوا کسی کو اپنا راز دان نہ بناو، وہ تمہیں تکلیف پہنچانے میں کوتاہی نہیں کریں گے، انہیں تمہاری مشقت اچھی لگتی ہے، ان کا بغض ان کے مونہوں سے ظاہر ہو چکا ہے، اور جو ان کے سینوں میں چھپا ہوا ہے وہ اس سے بڑا ہے۔”

خلاصہ:

  • کافر کے ساتھ کھانے کی اجازت اس وقت ہے جب ضرورت ہو اور کھانے میں کوئی حرام چیز شامل نہ ہو۔
  • نبی کریم ﷺ کے عمل سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے کفار کی دعوت قبول کی۔
  • بلا ضرورت کفار سے دوستی اور ان کے ساتھ مل کر کھانے سے اجتناب کیا جائے۔
  • قرآن مجید کی ہدایات کے مطابق کفار کے بغض اور عداوت سے محتاط رہنا ضروری ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے