سوال
دلائل ایمان کے مقابلے میں کافروں کا کردار اور رویہ کیسا تھا؟
جواب
کافروں کا کردار اور رویہ ایمان کے دلائل کے مقابلے میں ہمیشہ منفی اور ضدی رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے وجود اور حقانیت پر بے شمار دلائل موجود ہیں، کیونکہ ہر مخلوق اپنے خالق کی موجودگی کا ثبوت دیتی ہے۔ تاہم، کافر ان دلائل کو تسلیم کرنے کے بجائے انہیں جھٹلاتے ہیں۔
کافروں کے رویے پر قرآنی دلائل
1. اللہ کے بارے میں جھگڑا اور دلیل کی کمی
کافر بغیر کسی علم یا ہدایت کے اللہ کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ:
"وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّـهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّبِعُ كُلَّ شَيْطَانٍ مَّرِيدٍ”
(الحج: 3)
"اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو کسی علم اور روشنی بخشنے والی کتاب کے بغیر خدا کے بارے میں جھگڑتے ہیں۔”
2. حقائق کو جھٹلانا
کافر اللہ کی نشانیاں جانتے ہوئے بھی تکبر اور ظلم کے باعث انہیں جھٹلا دیتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ:
"وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا”
(النمل: 14)
"انہوں نے سراسر ظلم اور غرور کی راہ سے ان نشانیوں کا انکار کیا، حالانکہ دل ان کے قائل ہو چکے تھے۔”
3. حق کو باطل کے ساتھ گڈمڈ کرنا
کافر حق کو چھپانے اور باطل کے ساتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ حقیقت مشتبہ ہو جائے۔
ارشاد باری تعالیٰ:
"وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ”
(البقرۃ: 42)
"باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو۔”
4. دوسروں کو ہدایت کے راستے سے روکنا
کافر صرف خود گمراہ نہیں ہوتے بلکہ دوسروں کو بھی اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ:
"إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّـهِ قَدْ ضَلُّوا ضَلَالًا بَعِيدًا”
(النساء: 167)
"جو لوگ حق کو ماننے سے انکار کرتے ہیں اور دوسروں کو خدا کے راستے سے روکتے ہیں، وہ یقیناً گمراہی میں بہت دور نکل گئے ہیں۔”
کافروں کے رویے کی خصوصیات
1. اندھی تقلید
کافر مضبوط دلائل کے باوجود اپنے آبا و اجداد کے طریقے پر چلنے پر اصرار کرتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ:
"وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ وَإِلَى الرَّسُولِ قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا”
(المائدۃ: 104)
"جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ قانون اور رسول کی طرف آؤ تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارے لیے وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا۔”
2. شکوک و شبہات پھیلانا
کافر لوگوں کو ہدایت سے دور رکھنے کے لیے شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں۔
مثال:
بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا:
"لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ نَرَى اللَّـهَ جَهْرَةً”
(البقرۃ: 55)
"ہم تمہارے کہنے پر ہرگز یقین نہ کریں گے جب تک کہ علانیہ اللہ کو نہ دیکھ لیں۔”
3. اللہ کی واضح نشانیاں بھی نہ ماننا
کافر وہ لوگ ہیں جو ہوا، کشش ثقل اور ریڈیائی لہروں جیسے غیبی مظاہر کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن ان سے زیادہ واضح اللہ کی نشانیاں تسلیم نہیں کرتے۔
اللہ تعالیٰ کا دیدار اور کافروں کی محدود سوچ
کافر اللہ کی ذات کو دیکھنے کا مطالبہ کرتے ہیں، حالانکہ دنیا میں انسان کی نگاہ اس قابل نہیں کہ اللہ کو دیکھ سکے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ:
"فَلَمَّا تَجَلَّىٰ رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَىٰ صَعِقًا”
(الاعراف: 143)
"جب اس کے رب نے پہاڑ پر تجلی کی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ غش کھا کر گر پڑے۔”
نتیجہ
کافروں کا رویہ ضد، تکبر اور ہٹ دھرمی پر مبنی ہوتا ہے۔ وہ حقائق کو تسلیم کرنے کے بجائے انہیں جھٹلاتے ہیں، شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں اور دوسروں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ ایمان کی طرف آنا ان کے لیے تب ہی ممکن ہے جب وہ اپنی ضد چھوڑ کر اللہ کے رسولوں اور دلائل کو تسلیم کریں۔