سوال کا پس منظر
یہ سوال اکثر کیا جاتا ہے کہ اگر زمین کی منظم ساخت، مقصدیت اور زندگی کا ارتقاء ایک خالق کی موجودگی کی دلیل ہے، تو پھر کائنات میں موجود بے شمار آوارہ اور غیر آباد سیارے کس مقصد کے لیے تخلیق کیے گئے ہیں؟ اس سوال کو مختلف زاویوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔
پہلا زاویہ: انسانی علم کی محدودیت
محدود علم:
◈ انسان کے علم میں بے پناہ ترقی کے باوجود یہ آج بھی محدود ہے۔
زمین کی معلومات کا دائرہ:
◈ کروڑوں ستاروں اور سیاروں میں سے ہماری زمین بھی ایک چھوٹا سا نقطہ ہے، اور اس کے بارے میں بھی انسان کو محض چند فیصد علم حاصل ہے۔
نتیجہ:
◈ ہم ان لاکھوں سیاروں کے مقصد کو ابھی سمجھنے سے قاصر ہیں، لیکن جیسے جیسے علم میں اضافہ ہوگا، ممکن ہے کہ ان کا مقصد واضح ہو جائے۔ فی الحال ان سیاروں کے بارے میں کچھ کہنا محض قیاس ہوگا۔
دوسرا زاویہ: شیش محل کی مثال
مثال:
◈ اگر ایک وسیع میدان میں سو مٹی کے بے ترتیب ٹیلے ہوں اور ان کے درمیان ایک شاندار شیش محل دکھائی دے، تو یہ کہنا کہ باقی ٹیلوں کی وجہ سے محل کا کوئی معمار نہیں، انتہائی غیر معقول ہوگا۔
نتیجہ:
◈ اسی طرح لاکھوں اجاڑ سیاروں کی موجودگی یہ ثابت نہیں کرتی کہ زمین اور اس پر زندگی بغیر کسی خالق کے وجود میں آئی۔ بلکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ خالق نے ان میں سے ایک خاص سیارے کو زندگی کے لیے منتخب کیا۔
تیسرا زاویہ: سائنسی انکشافات
جُوپیٹر کا کردار:
◈ سائنس نے ثابت کیا ہے کہ مشتری (جوپیٹر) اپنے بڑے حجم کی وجہ سے نظامِ شمسی کو مہلک ٹکراؤ سے بچاتا ہے۔
کششِ ثقل کا نظام:
◈ کئی سیارے کششِ ثقل کے نظام کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
بٹر فلائی ایفیکٹ:
◈ یہ نظریہ بیان کرتا ہے کہ کائنات ایک مربوط اکائی کی طرح کام کرتی ہے، اور ایک چھوٹا سا عمل بھی دور رس اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
نتیجہ:
◈ سائنس جیسے جیسے ترقی کرے گی، ان آوارہ سیاروں کے وجود کی حکمت مزید واضح ہوتی جائے گی۔
چوتھا زاویہ: قرآنی نقطہ نظر
قرآن کی رہنمائی:
◈ قرآن کریم واضح کرتا ہے کہ یہ کائنات ایک دن تباہ ہوگی اور زمین و آسمان کو نئے زمین و آسمان سے تبدیل کر دیا جائے گا
(سورہ ابراہیم: 48)۔
نئی زمین کی وسعت:
◈ قرآن بتاتا ہے کہ نئی زمین پہلے سے زیادہ وسیع ہوگی
(سورہ آل عمران: 133)۔
اہمیتِ مادہ:
◈ یہ تصور قرین قیاس ہے کہ موجودہ سیارے اور ستارے نئی تخلیق کا حصہ بنیں گے۔
ارتقاء کا اصول:
◈ جیسے خدا انسان کی تخلیق کو ایک طویل ارتقائی عمل سے گزارتا ہے، ویسے ہی کائنات کے تمام اجزاء بھی ایک بڑے مقصد کے لیے ارتقاء سے گزر رہے ہیں۔
خلاصہ
ان آوارہ اور غیر آباد سیاروں کے وجود کو بے مقصد سمجھنا انسانی علم کی محدودیت اور حقائق کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔ سائنس اور ایمان دونوں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ کائنات کا ہر جزو ایک بڑے مقصد کا حصہ ہے، چاہے وہ مقصد فی الحال ہماری سمجھ سے بالاتر ہو۔