کائنات اور اشیاء کا تعلق
کائنات مادّے اور اشیاء کا مجموعہ ہے، جسے ہم "شے” یا Matter کہتے ہیں۔ جب ہم "عدم” یا "لاشے” کی بات کرتے ہیں تو دراصل ہم اشیاء اور مادّے کے دائرے میں ہی گفتگو کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وجود کا تصوّر صرف مادّے اور اشیاء سے جڑا ہوا ہے۔ جب مادّہ موجود نہیں تھا تو وجود کا کوئی مفہوم بھی نہیں تھا۔ یعنی مادّے کی تخلیق سے پہلے عدم میں وجودیت خود ایک مظہر کے طور پر ظاہر ہوئی یا تخلیق کی گئی۔
وجودیت اور عدم کا فلسفہ
یہ نکتہ قابل غور ہے کہ وجودیت (Existence) بذاتِ خود ایک مظہر ہے، جو کہ محدود اور مخصوص طبعی حدود میں آتا ہے۔ انسان اسی وجودیت کے دائرے میں سوچنے اور سمجھنے پر قادر ہے، کیونکہ اس کی عقل اور شعور کی حد یہی ہے۔ انسان اور وجودیت کا تعلق ایسا ہے جیسے مچھلی اور سمندر۔ انسان وجودیت کے سمندر میں "تیرتا” ہوا مخلوق ہے، اور اس کے شعور کی رسائی صرف اسی دائرے تک محدود ہے۔
لاوجودیت (Nonexistence) کا امکان
جب ہم کہتے ہیں کہ کائنات کی ابتدا سے پہلے "کچھ نہیں” تھا، تو یہ صرف وجود کے پیرائے میں سچ ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ عدم میں وجود سے بالاتر کوئی مظہر موجود ہو، جو انسانی شعور اور عقل سے ماورا ہو۔ اس مظہر کو "بالائے وجود” یا Meta-existence کہا جا سکتا ہے، جو ہمارے لیے "کچھ نہیں” معلوم ہوتا ہے، حالانکہ وہ شاید انسانی سمجھ سے باہر کوئی غیر طبعی یا اجنبی حقیقت ہو۔
اجنبی مظاہر اور شعور کی محدودیت
یہ ممکن ہے کہ کائنات کی تخلیق سے پہلے عدم میں کوئی ایسا ماحول موجود تھا جو ہمارے شعور اور علم سے بالا تھا۔ مثلاً، یہ ممکن ہے کہ وہاں کوئی اجنبی ارتعاشات (Alien Frequencies) ہوں، جو ہمارے لیے ابھی غیر محسوس اور ناقابل فہم ہیں۔ لیکن اس عدم کا اثر انسان کے خیالات میں موجود ہے، کیونکہ ہم اس کے بارے میں غور و فکر کرتے ہیں۔
لامحدود ارادہ اور تخلیق
یہ بات عقل کے قریب ہے کہ کائنات کی تخلیق کسی لامحدود ارادے یا ذہانت کے ذریعے ہوئی ہوگی۔ اگر اس مفروضے کو تسلیم کیا جائے، تو یہ کہنا منطقی ہوگا کہ ایک لامحدود قوت نے کائنات کو وجودیت کے دائرے میں تخلیق کیا اور انسان کو اس میں ایک خاص مقصد کے تحت شامل کیا۔ اس مقصد کے تحت انسان کو وقت، مادّے اور زندگی کے محور میں قید کر کے اس کا امتحان لیا جا رہا ہے۔
وجودیت، وقت اور انسانی شعور
وجود اور وقت کا دائرہ
انسان وقت، مادّہ اور زندگی کے دائرے میں محدود ایک باشعور مخلوق ہے۔ اس کا شعور اور عمل، روزمرّہ کے معاملات، جذبات اور خیالات کے گرد گھومتا ہے۔ یہ سب عوامل مل کر ایک مصنوعی ماحول یا Physical Illusion پیدا کرتے ہیں، جسے انسان حقیقت سمجھنے پر مجبور ہے۔ لیکن برتر حقیقت انسان کے محدود شعور اور حواس سے باہر ہے۔
وقت اور اس کی گرفت
وقت ایک غیر مرئی لیکن حرکت پذیر مظہر ہے، جو انسان کی زندگی کو مکمل طور پر گھیرے ہوئے ہے۔ وقت کے مختلف پہلو یا Dimensions اتنے پیچیدہ ہیں کہ بہترین محقّق بھی ان کی گہرائی کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتا۔ تمام انسانی سرگرمیاں اور خیالات وقت کے اس بہاؤ میں محدود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وقت کی بدلتی جہتیں انسان کو مسلسل ایک مصروف اور اُلجھن والے دائرے میں رکھتی ہیں۔
شعور اور حیوانی و انسانی فرق
شعور کا حیوانی اور انسانی پیمانہ
شعور مختلف مخلوقات میں مختلف سطح پر موجود ہوتا ہے۔ مثلاً:
- حشرات الارض
- پرندے اور جانور
- سمندری مخلوقات
یہ تمام مخلوقات اپنے ماحول اور اس میں ہونے والی حرکات کے حوالے سے ایک خاص درجے کا شعور رکھتی ہیں۔ لیکن انسان ان کے شعور کی وسعت یا تنگی کو پوری طرح سمجھنے سے قاصر ہے، کیونکہ ان کے ساتھ انسان کا براہِ راست شعوری رابطہ نہیں ہے۔ البتہ، یہ واضح ہے کہ انسانی شعور حیوانی شعور کے مقابلے میں برتر اور زیادہ وسیع ہے۔
غیر مرئی شعور کا امکان
یہ بھی ممکن ہے کہ کائنات میں کسی قسم کا اجنبی یا غیر مرئی شعور (Abstract Alien Consciousness) موجود ہو، جو انسانی شعور سے بالاتر ہو۔ انسان کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں جس سے شعور کی حدود کو ناپا جا سکے، لیکن یہ بات طے ہے کہ انسان کا شعور لامحدود نہیں ہے۔
شعور، ایٹم اور حقیقت کا ادراک
ایٹم کی حقیقت اور باشعوری کا سوال
انسان مادّے کو بے جان سمجھتا ہے، لیکن ایٹم کی حرکت، توانائی اور تنظیم ایک بڑی حقیقت ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایٹم باشعور ہو سکتا ہے؟ انسان کے لیے اس کا ادراک ممکن نہیں کیونکہ اس کا شعور ان معاملات کو سمجھنے کی حد تک محدود ہے۔
نتیجہ: انسانی صلاحیت کی حدود
یہ تمام بحث انسان کی محدودیت کو ظاہر کرتی ہے۔ انسان اپنے شعور اور عقل کے دائرے میں رہتے ہوئے صرف ایک حد تک کائنات اور وجود کے مظاہر کو سمجھ سکتا ہے۔ اجنبی مظاہر اور شعور کو سمجھنے کی صلاحیت انسان میں نہایت محدود ہے۔