وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: لَمْ تُقْطَعُ يَدُ سَارِقٍ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ مَا فِي أَقَلَّ مِنْ ثَمَنِ الْمِحَنِّ، جَحْفَةٍ، أَوْ تُرْسٍ، وَكِلَاهُمَا ذُو ثَمَنٍ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتی ہیں کہ ڈھال کی قیمت سے کم چیز کی چوری پر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے زمانے میں ہاتھ نہیں کاٹا جاتا تھا محفہ اور ڈھال دونوں قیمتی ہیں۔
تخقیق و تخریج:
[بخاري: 6894، 1685، مسلم: 1287]
وَعَنْهَا، عَنْ رَسُولِ اللهِ عَلى قَالَ: ) ( (لَا تُقْطَعُ يَدُ السَّارِقِ إِلَّا فِي رُبُعِ دِينَارٍ ال فَصَاعِدًا ))
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”چور کا ہاتھ ربع دینار یا اس سے کچھ اوپر پر کاٹا جائے گا۔“
تحقیق و تخریج:
[بخاري 6792، 6790، 6889، مسلم: 1684]
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، أَنَّ ) رَسُولَ اللَّهِ مَا قَطَعَ سَارِفًا فِي مِحَنٍ، قِيمَتُهُ ثَلَاثَةُ دراهم
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈھال کی چوری پر چور کا ہاتھ کاٹ دیا جس کی قیمت تین دینار تھی۔
تحقیق و تخریج:
[بخاري: 6898٬6795، مسلم: 1286]
فوائد:
➊ کچھ امور ایسے ہیں کہ جن کی بنا پر کچھ عائد کرنے کے لیے اسلام نے حد مقرر کی ہے۔ ان میں سے ایک چوری بھی ہے۔
➋ صحیح اور راجح قول کے مطابق چور کا ہاتھ کاٹنے کے لیے مال مسروقہ کا نصاب سرقہ کو پہنچ جانا ضروری ہے۔ اس رائے کے حامل جمہور علماء ہیں۔
➌ نصاب سرقہ کے بارے اختلاف ہے۔ جو صحیح اور زیادہ اقرب الی السنہ ہے وہ یہ ہے کہ دینار کا چوتھائی حصہ جبکہ قیمت کے لحاظ سے تین درہم ہے۔ یہ قول فقہائے حجاز و شافعی وغیرہ کا ہے۔ احناف کے نزدیک دس درہم سے کم نصاب نہیں ہے۔
➍ ربع دینار یا تین درہم ایک ہی چیزا درہم وزن ہیں۔
➎ اصل نصاب سرقہ ربع دینار ہے۔ تین درہم اس کا قائم مقام ہیں یعنی کوئی چور چیز چوری کرے اور وہ چیز ربع دینار کے مساوی ہو تو چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا اگر اس سے کم ہو تو تعزیری سزا تو ہو سکتی ہے لیکن ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ ربع دینار سے زیادہ مال کی کوئی حد نہیں۔ ربع دینار سے کم نہ ہو ۔ معلوم ہوا آج کے کئی چور اس قابل ہیں کہ ان کے ہاتھ کاٹ دیے جانے چاہئیں لیکن افسوس ! پامال ہیں اس ملک میں حدد و الہی ۔