1. قرآن مجید میں چوری کی مذمت اور سزا
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں چوری کو ایک سنگین جرم قرار دیا ہے اور اس کی سخت سزا مقرر کی ہے:
﴿وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءًۭ بِمَا كَسَبَا نَكَالًۭا مِّنَ ٱللَّهِ ۗ وَٱللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾
(سورة المائدة: 38)
ترجمہ:
"چور مرد اور چور عورت، دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، یہ ان کے کیے کا بدلہ ہے اور اللہ کی طرف سے عبرتناک سزا ہے، اور اللہ زبردست، حکمت والا ہے۔”
یہ آیت اسلامی قانون کے تحت چوری کی سنگین سزا کو واضح کرتی ہے، جو نہ صرف مجرم کے لیے عبرتناک ہے بلکہ معاشرے کو بھی چوری جیسے جرم سے پاک رکھنے کا ذریعہ ہے۔
2. احادیث میں چوری کی سخت وعید
چوری کی سنگینی کا اندازہ نبی اکرم ﷺ کی متعدد احادیث سے لگایا جا سکتا ہے، جن میں اس جرم کی مذمت اور اس کی سزا کی وضاحت کی گئی ہے۔
أ) نبی اکرم ﷺ کا فرمان کہ چوری کی کوئی رعایت نہیں
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:
"إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ، أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ، وَايْمُ اللَّهِ، لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا”
(صحیح البخاری: 6788، صحیح مسلم: 1688)
ترجمہ:
"تم سے پہلے لوگوں کو اسی چیز نے ہلاک کیا کہ جب ان میں کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے، اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد جاری کرتے۔ اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنتِ محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔”
یہ حدیث عدل و انصاف کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے اور اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اسلامی قانون میں کسی کے ساتھ رعایت یا امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔
ب) چور کے ایمان پر اثر
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:
"لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَسْرِقُ السَّارِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَشْرَبُ الْخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ…”
(صحیح البخاری: 5578، صحیح مسلم: 57)
ترجمہ:
"جب زانی زنا کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا، اور جب چور چوری کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا، اور جب شراب پینے والا شراب پیتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا…”
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ چوری اور دیگر بڑے گناہ انسان کے ایمان پر اثر انداز ہوتے ہیں، اور یہ برے اعمال ایمان کی کمزوری کی علامت ہوتے ہیں۔
نتیجہ
چوری اسلام میں ایک انتہائی سنگین جرم ہے، جس کی سزا دنیا میں بھی سخت ہے اور آخرت میں بھی عذاب کا سبب بن سکتی ہے۔ چوری صرف مال کے نقصان کا سبب نہیں بنتی بلکہ معاشرتی بے چینی اور بداعتمادی کو بھی جنم دیتی ہے۔ اس لیے ہر مسلمان کو چوری سے بچنا چاہیے، حلال روزی پر قناعت کرنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرنی چاہیے تاکہ دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل ہو۔