چاند نظر آنے پر قریبی علاقوں کے لوگوں پر بھی روزے فرض ہوں گے
جیسا کہ گذشتہ احادیث میں مذکور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ کی شہادت قبول کی اور اسی پر اکتفاء کرتے ہوئے خود بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔
[صحيح: صحيح أبو داود: 2052 ، كتاب الصوم: باب فى شهادة الواحد على رؤية هلال رمضان ، أبو داود: 2342]
(ابن قدامہؒ) جب ایک علاقے کے رہائشی چاند دیکھ لیں تو تمام علاقوں (کے رہائشیوں) پر روزہ لازم ہو جاتا ہے۔
[المغنى: 328/4]
تا ہم کریب کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر علاقے کے رہائشی الگ الگ چاند دیکھیں گے جیسا کہ اس میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کریب کی بات (کہ میں نے شب جمعہ چاند دیکھا ہے) نہ مانتے ہوئے کہا ، ”ہم نے تو چاند بروز ہفتہ دیکھا ہے فلا نزال نصوم حتى نكمل ثلاثين أو نراه ”لٰہذا ہم اس وقت تک روزے رکھتے رہیں گے جب تک کہ تیسں پورے نہ کر لیں یا ہم (دوبارہ) چاند نہ دیکھ لیں ۔“ پھر کریب نے کہا کہ کیا آپ کے لیے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا چاند دیکھ لینا اور روزہ رکھ لینا کافی نہیں ہے؟ تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ”نہیں“ هكذا أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ”اسی طرح ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے ۔“
[مسلم: 1087 ، كتاب الصيام: باب بيان أن لكل بلد رؤيتهم، أبو داود: 2332 ، ترمذي: 689 ، نسائي: 131/4]
شیخ البانیؒ رقمطراز ہیں کہ ”بلاشبہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ایسے شخص کے متعلق ہے کہ جس نے اپنے شہر میں چاند دیکھ کر روزہ رکھ لیا۔ پھر دوران رمضان اسے خبر ملی کہ لوگوں نے دوسرے شہر میں اس سے ایک دن پہلے چاند دیکھ لیا تھا تو ایسی صورت میں وہ شخص اپنے شہر والوں کے ساتھ تیسں روزوں کی تکمیل تک یا اپنا چاند دیکھ لینے تک روزے رکھے گا۔ اس طرح اشکال ختم ہو جائیگا اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کی حدیث اپنے عموم پر ہی باقی رہے گی کہ جس میں ہر ایسا شخص شامل ہے جسے کسی بھی شہر یا صوبے سے بغیر کسی مسافت کی تحدید کے چاند دیکھنے کی اطلاع ملی جیسا کہ امام ابن تیمیہؒ نے [فتاوي: 107/25] میں فرمایا ہے۔
[تمام المنة: ص/398]
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ درمیانِ رمضان کی بات ہے ابتدائے رمضان کی نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ کریب نے مدینہ کے نواحی علاقوں میں چاند نہیں دیکھا تھا بلکہ شام میں دیکھا تھا جو کہ الگ ریاست و ملک تھا۔
بعض علماء کا خیال ہے کہ اگر دو علاقوں کے درمیان مسافت قریب ہو گی تو مطالع مختلف نہیں ہوں گے جیسا کہ بغداد اور بصرہ وغیرہ۔ ان دونوں علاقوں کے رہائشیوں پر محض ان میں سے کسی ایک علاقے میں چاند دیکھ لینے سے روزے لازم ہو جا ئیں گے۔ اور اگر دو علاقوں کے درمیان فاصلہ زیادہ ہو مثلاً عراق اور حجاز اور شام وغیرہ تو پھر ہر علاقے والے اپنے دیکھے (ہوئے چاند ) کا اعتبار کریں گے ۔
[المغنى: 328/4]