سوال:
اگر کسی شخص کی چار بیٹیاں ہوں اور بیٹا نہ ہو، تو وہ اپنی جائیداد کا وارث اپنی بیٹیوں کو کیسے بنائے گا؟ اس میں والدین اور بیوی کا حصہ کتنا ہوگا؟
جواب از فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ
1. وراثت کی تقسیم کا اصول:
- کوئی بھی شخص اپنی زندگی میں اپنی وراثت تقسیم نہیں کر سکتا، کیونکہ وراثت کے احکام صرف وفات کے بعد لاگو ہوتے ہیں۔
- قرآنِ کریم میں وراثت کے لیے “ماترک” (جو کچھ چھوڑا گیا) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، جو کہ موت کے بعد کی کیفیت کو بیان کرتے ہیں۔
2. زندگی میں جائیداد تقسیم کا نقصان:
- اگر جائیداد زندگی میں تقسیم کی جائے:
- کوئی بچہ والد کی زندگی میں فوت ہو جائے تو وہ ناحق جائیداد لے چکا ہوگا۔
- والد کی زندگی میں نئے بچے کی ولادت ہو تو وہ جائیداد سے محروم رہ جائے گا۔
- یہ تقسیم کئی دیگر تنازعات کا سبب بن سکتی ہے۔
3. وصیت کا حل:
- اگر والد کو خدشہ ہو کہ وفات کے بعد ورثاء جائیداد کی تقسیم پر جھگڑا کریں گے، تو وہ کسی کو مختار خاص بنا سکتا ہے۔
- مختار خاص وصیت کے مطابق والد کی وفات کے بعد جائیداد شرعی اصولوں کے تحت تقسیم کرے گا۔
4. وفات کے بعد وراثت کی تقسیم:
مذکورہ شخص کی وفات کے بعد اس کی جائیداد درج ذیل شرعی اصولوں کے تحت تقسیم ہوگی:
- بیوی: کل جائیداد کا 1/8 حصہ (آٹھواں حصہ) لے گی۔
- بیٹیاں: اگر چار بیٹیاں ہوں، تو کل جائیداد کا 2/3 حصہ (دو تہائی) ان میں تقسیم ہوگا۔
- ماں اور باپ: ہر ایک کو جائیداد کا 1/6 حصہ (چھٹا حصہ) ملے گا۔
5. مثال:
فرض کریں جائیداد کو 27 حصوں میں تقسیم کیا جائے:
- بیوی کو: 3 حصے۔
- ہر بیٹی کو: 4 حصے (کل چار بیٹیاں = 16 حصے)۔
- ماں کو: 4 حصے۔
- باپ کو: 4 حصے۔
6. عائلۃ کا اصول:
- اگر حصے مکمل جائیداد سے زیادہ ہو جائیں، تو اس کو “عائلۃ” کہا جاتا ہے، اور جائیداد کو ان حصوں کے تناسب سے تقسیم کیا جاتا ہے۔