پندرہ شعبان کی مخصوص عبادات سے متعلق شیخ البانی کا موقف
تحریر: حافظ محمد طاھر

حدیث کی سند اور شیخ البانی رحمہ اللہ کا تبصرہ

سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعالی پندرہ شعبان کی رات اپنی ساری مخلوق پر مطلع ہو کر مشرک اور کینہ پرور کے علاوہ ساری خلقت کو معاف فرما دیتے ہیں۔”

شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کے متعلق فرمایا:
"یہ حدیث صحیح ہے اور مختلف صحابہ جیسے معاذ بن جبل، ابو ثعلبہ الخشنی، عبداللہ بن عمرو، ابو موسی اشعری، ابو ہریرہ، ابو بکر صدیق، عوف بن مالک اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے مختلف اسانید سے مروی ہے جو ایک دوسرے کو تقویت دیتی ہیں۔ خلاصہ یہ کہ ان مجموعی طرق کی بنیاد پر یہ حدیث بلا شک صحیح ہے، اگرچہ ضعف شدید نہ ہو تو صحتِ حدیث تو اس سے کم عدد سے بھی ثابت ہو جاتی ہے۔”
(السلسلہ الصحيحة: 3/136)

عبادات اور فضیلت میں فرق

بعض افراد کا خیال ہے کہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے پندرہ شعبان کی فضیلت کے ساتھ اس رات میں مخصوص عبادات کو بھی جائز سمجھا، لیکن یہ درست نہیں۔ کسی رات کی فضیلت ثابت ہونا اور اس رات میں عبادات کا خاص اہتمام الگ معاملات ہیں۔ مکان یا زمان کی فضیلت کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں یا اس وقت خاص عبادات مشروع ہو جائیں۔

شیخ البانی رحمہ اللہ کی وضاحت

شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ سے جب پندرہ شعبان کی رات قیام اور دن کو روزہ رکھنے کے متعلق سوال کیا گیا، تو انہوں نے فرمایا:
"اہل سنت کے ہاں یہ بات معروف ہے کہ شعبان کی پندرہویں رات کو قیام اور دن کو روزہ رکھنا غیر مشروع اور بدعتی عمل ہے۔”

انہوں نے اس کی دو وجوہات بیان کیں:

سلف صالحین کی پیروی:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور دیگر سلف صالحین سے اس رات کو بیدار رہنے یا روزہ رکھنے کا کوئی اہتمام منقول نہیں۔
◈ ہر خیر سلف صالحین کی پیروی میں ہے۔
◈ ہر شر کی بنیاد بعد والوں کی بدعات ہیں۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"ہر بدعت گمراہی ہے، چاہے لوگ اسے اچھا ہی سمجھیں۔”

ضعیف روایت پر عمل:
پندرہ شعبان کے روزے اور قیام کو مستحسن سمجھنے والے ایک سخت ضعیف روایت پر اعتماد کرتے ہیں، جو امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں ذکر کی ہے۔ یہ حدیث سخت ضعیف ہے، اس پر عمل جائز نہیں۔
فضائلِ اعمال میں ضعیف احادیث پر عمل کرنے والوں کے لیے بھی شرط ہے کہ ضعف شدید نہ ہو، جبکہ یہاں ضعف شدید ہے۔

پندرہ شعبان کے اہتمام پر تنقید

شیخ البانی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
"پندرہ شعبان کا خاص اہتمام بالکل درست نہیں، کیونکہ اس کی فضیلت میں کچھ بھی ثابت نہیں۔ نہ ہی سلف صالحین سے ایسی کوئی بات منقول ہے۔”

انہوں نے یہ بھی ذکر کیا کہ نصف شعبان کے بعد روزے رکھنے سے متعلق صحیح حدیث موجود ہے:
"جب نصف شعبان گزر جائے تو رمضان تک روزہ نہ رکھو۔”

موجودہ دور کے رویے پر افسوس

شیخ البانی رحمہ اللہ نے بطور عبرت فرمایا:
"یہ افسوس کی بات ہے کہ لوگ ان عبادات کا اہتمام کرتے ہیں جن کے بارے میں نہ کوئی صحیح روایت ہے اور نہ درایت، جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح منقول اور بالاتفاق جائز عبادات کا بھی وہ اہتمام نہیں کرتے۔ ایسی چیزوں کا اہتمام کرتے ہیں جو جائز نہیں اور جو ضروری ہیں ان سے اعراض کرتے ہیں۔ یہ نصیحت ہے، اور نصیحت مومنوں کے لیے فائدہ مند ہے، ان شاء اللہ۔”

ماخد و مصدر: (سلسلۃ الہدی والنور،کیسٹ نمبر : 186)

خلاصہ

◈ پندرہ شعبان کی رات کی فضیلت تو ثابت ہے، لیکن اس رات کو قیام یا دن کو روزہ رکھنے کا خاص اہتمام سلف صالحین سے ثابت نہیں۔
◈ ایسی عبادات کو دین میں شامل کرنا بدعت شمار ہوتی ہے۔
◈ نصف شعبان کے بعد روزے رکھنے سے اجتناب کرنا سنت کے مطابق ہے۔
◈ دین میں ہر خیر سلف صالحین کی پیروی میں ہے اور بدعات گمراہی کی طرف لے جاتی ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے