قراردادِ مقاصد کا تعارف
پاکستان کی قراردادِ مقاصد کو پاکستان کے جمہوری، پارلیمانی، اور آئینی ڈھانچے کی بنیاد کہا جاتا ہے۔ اس قرارداد کے ذریعے دستور ساز اسمبلی نے متفقہ طور پر یہ طے کیا کہ پاکستان کا آئین اسلامی اور جمہوری اصولوں پر مبنی ہوگا، حاکمیت اعلیٰ اللہ کی ہوگی، اور منتخب نمائندے اپنے اختیارات کو امانت سمجھ کر استعمال کریں گے۔
اقلیتوں کے حوالے سے واضح کیا گیا کہ انہیں نہ صرف اپنے مذہب پر عمل کی مکمل آزادی ہوگی بلکہ اپنے ثقافت کے فروغ کا حق بھی حاصل ہوگا۔
قرارداد کی منظوری کا جمہوری عمل
- قراردادِ مقاصد وزیر اعظم لیاقت علی خان نے دستور ساز اسمبلی میں پیش کی۔
- اپوزیشن رہنما سریس چندرا چٹوپا دھیا نے اس پر شدید تنقید کی اور کہا کہ حاکمیت اعلیٰ عوام کے پاس ہونی چاہیے، مگر اس کے باوجود انہیں اختلاف رائے کا پورا حق دیا گیا۔
- جمہوری طریقہ کار کے تحت قرارداد کو اکثریتی ووٹ سے منظور کیا گیا۔
سیکولر حلقوں کے اعتراضات
سیکولر دوستوں کا کہنا ہے کہ:
- یہ قرارداد قائد اعظم کی فکر سے انحراف ہے۔
- یہ قرارداد پاکستان کی فکری بنیاد میں ایک "ٹیڑھی اینٹ” کی حیثیت رکھتی ہے۔
سوالات:
- اگر جمہوری اصولوں کے تحت حاکمیت اعلیٰ اللہ کے لیے طے کی گئی، تو کیا یہ جمہوری فیصلہ تسلیم نہیں کیا جائے گا؟
- مسلمانوں کو جمہوری طریقے سے اپنے نظام کے تعین کا حق کیوں نہیں دیا جاتا؟
قائد اعظم اور سیکولرزم کا دعویٰ
سیکولر حلقے قائد اعظم کو سیکولر قرار دیتے ہیں اور ان کے وژن کی بنیاد پر پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مگر:
- اگر قائد اعظم سیکولر تھے، تو کیا ان کی انفرادی رائے دستور ساز اسمبلی کے اجتماعی فیصلے پر فوقیت رکھتی ہے؟
- سیکولرزم خود یہ مانتا ہے کہ کوئی فرد یا کتاب اجتماعی زندگی میں حرفِ آخر نہیں ہو سکتی، تو پھر قائد اعظم کی ذاتی رائے کو بنیاد بنانا کیسے درست قرار دیا جا سکتا ہے؟
قرارداد مقاصد پر قبضہ گروپ کا الزام
سیکولر احباب قرارداد مقاصد کو "قبضہ گروپ” کی کارروائی قرار دیتے ہیں اور الزام لگاتے ہیں کہ یہ مذہبی طبقے کی سازش تھی۔ لیکن حقائق یہ ہیں کہ:
- قرارداد مقاصد خالصتاً جمہوری عمل کے ذریعے منظور کی گئی۔
- قرارداد مقاصد کی منظوری کسی جبر یا دباؤ کا نتیجہ نہیں تھی۔
- اگر یہ مذہبی طبقے کا قبضہ تھا، تو یہ قبضہ گروپ کبھی اقتدار پر قابض کیوں نہیں ہوا؟ انتخابات میں بار بار شکست سے دوچار کیوں ہوا؟
پاکستان کی اسلامی شناخت اور جمہوریت
- دستور پاکستان میں آرٹیکل 2 کے تحت ریاست کا مذہب اسلام قرار دیا گیا۔
- آرٹیکل 2 اے کے مطابق قرارداد مقاصد کو آئین کا بنیادی حصہ بنایا گیا، جس میں حاکمیت اعلیٰ اللہ کے لیے تسلیم کی گئی۔
- آرٹیکل 31 ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے سہولیات فراہم کرے۔
سوال:
- اگر سیکولر حلقے آئین کی دیگر شقوں کو تسلیم کرتے ہیں، تو اسلامی شقوں کو کیوں نہیں مانتے؟
- کیا یہ رویہ جمہوریت اور آئین دوستی کے تقاضوں کے خلاف نہیں؟
تضادات اور سیکولر رویہ
- برطانیہ میں بادشاہت کو جمہوری فیصلے کے طور پر تسلیم کرنے والے سیکولر حضرات پاکستان میں عوام کے جمہوری فیصلے کو تسلیم کرنے سے کیوں انکاری ہیں؟
- مذہبی انتہا پسند اگر آئین کے کچھ حصوں کو مسترد کریں تو وہ انتہا پسند کہلاتے ہیں، لیکن سیکولر حضرات آئین کی اسلامی شقوں کو مسترد کریں تو کیا یہ انتہا پسندی نہیں؟
اختتامی بات
پاکستان کی اسلامی شناخت کسی جبر یا سازش کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک جمہوری عمل کا نتیجہ ہے۔ سیکولر حضرات کو اپنے رویے پر غور کرنا چاہیے اور یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ جمہوری اصولوں کو مانتے ہیں یا صرف اپنے نظریات کو۔