امریکی کیس کا واقعہ
امریکا میں ایک خاتون کے ساتھ زیادتی کے مقدمے میں پولیس نے متعدد افراد کے ڈی این اے سیمپل لئے۔ رپورٹ کے مطابق ایک 19 سالہ نوجوان کا ڈی این اے میچ کر گیا، جس پر اسے 25 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ پانچ سال بعد معلوم ہوا کہ ڈی این اے ٹیسٹ کے طریقہ کار میں غلطی ہوئی تھی، جس پر اسے رہا کر دیا گیا۔ یہ واقعہ واحد نہیں بلکہ ایسے واقعات امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی بارہا دیکھے جاتے ہیں۔
ڈی این اے ٹیسٹ کی نوعیت
- منفرد پہچان: ہر انسان کا ڈی این اے فنگر پرنٹس کی طرح منفرد ہوتا ہے، سوائے "یکساں جڑواں” (identical twins) کے۔
- حصول کے ذرائع: یہ بالوں، ناخن، جلد یا جسمانی مواد سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
- غلط استعمال کا امکان: زبردستی، دھوکہ دہی یا انجانے میں بھی ڈی این اے لیا جا سکتا ہے، خاص طور پر ایسے معاشروں میں جہاں جھوٹے شواہد، جعلی رپورٹس اور کرپشن معمول ہو۔
پاکستان میں ڈی این اے ٹیسٹ کے مسائل
پاکستان جیسے ملک میں جہاں:
- جھوٹی گواہیاں اور ایف آئی آرز عام ہیں۔
- تفتیشی ادارے رشوت کے عادی ہیں۔
- ذاتی اور سیاسی مفادات کے لئے شواہد کو مسخ کیا جاتا ہے۔
ایسے میں ڈی این اے ٹیسٹ کو قابلِ بھروسہ بنانے کے لیے شواہد کی حفاظت ضروری ہے، جو امریکا جیسے ممالک میں زیادہ یقینی ہوتی ہے۔
ممکنہ غلطیوں کے نتائج
- عوامی دباؤ: پولیس کسی کو پکڑ کر اس کا ڈی این اے سیمپل تبدیل کر کے جرم ثابت کر دے۔ اصل مجرم آزاد رہیں، اور بے گناہ کو سزا ہو جائے۔
- رضامندی کا مقدمہ: باہمی رضامندی سے ہونے والے عمل کو زیادتی ثابت کیا جا سکتا ہے، صرف ڈی این اے کی بنیاد پر۔
- غلط شناخت: کسی اثر و رسوخ رکھنے والے فرد کے الزام کی بنیاد پر پولیس معصوم فرد کو مجرم قرار دے سکتی ہے، اور شواہد بدل دیئے جائیں۔
انصاف کے بنیادی اصول
- انصاف صرف مظلوم کے لیے نہیں بلکہ ملزم کے ساتھ بھی ہونا چاہیے۔
- ملزم اور مجرم میں فرق رکھنا ضروری ہے۔
- شواہد کے حصول اور تفتیش کا عمل غیر جانبدار، پروفیشنل اور شفاف ہونا چاہیے۔
ڈی این اے کی اہمیت: پاکستانی عدلیہ کا نقطہ نظر
پاکستانی عدالتیں ڈی این اے کو سیکنڈری شواہد کے طور پر قبول کرتی ہیں لیکن پرائمری شواہد کے طور پر نہیں۔ اس کی وجہ وہ مسائل ہیں جو ہماری تفتیشی اور عدالتی نظام میں موجود ہیں۔ اگر سیمپلنگ، ٹیسٹنگ، اور تفتیش کو غیر جانبدار اور شفاف بنایا جائے تو ڈی این اے کو زیادہ اہمیت دی جا سکتی ہے۔
غلط فہمیوں کی وضاحت
- زنا کے جرم کے لئے چار گواہوں کی شرط صرف زنا کے لئے ہے، ریپ کے لئے نہیں۔
- ریپ کو دیگر جرائم کی طرح کسی بھی ثبوت کے ذریعے ثابت کیا جا سکتا ہے۔
- ڈی این اے بطور ثبوت قابل قبول ہے، بشرطیکہ دیگر شواہد بھی ملزم کے جرم کو ثابت کریں۔
نتیجہ
پاکستان میں ڈی این اے ٹیسٹ کے استعمال میں بہتری لانے کے لئے:
- شواہد کے حصول کے نظام کو مضبوط کرنا ہوگا۔
- ڈی این اے ٹیسٹ کے عمل کو غیر سیاسی اور پیشہ ورانہ بنایا جائے۔
- معاشرتی دباؤ یا ذاتی مفادات سے ہٹ کر انصاف کے اصولوں پر عمل کیا جائے۔