پاکستان اور بھارت میں سیکولرازم کے متضاد رویے
تحریر: عامر ہاشم خاکوانی

پاکستان میں سیکولرازم کی مخالفت کی وجوہات

1. پاکستان کی مسلم اکثریت اور مذہبی معاشرت

پاکستان ایک مسلم اکثریتی ملک ہے، جہاں سماجی اور تہذیبی ڈھانچے کی بنیاد مذہب ہے۔ یہاں کی اکثریت چاہتی ہے کہ ملکی آئین، قوانین، اور نظامِ زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق ہوں، کیونکہ مسلمان اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پر یقین رکھتے ہیں اور انسانی عقل کو الہامی علم کے تابع سمجھتے ہیں۔

2. پاکستان کا قیام اسلام کے نام پر

پاکستان کے قیام کا مقصد ہی مسلم اکثریتی علاقوں کے لیے ایک ایسا خطہ فراہم کرنا تھا جہاں مسلمان اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ اسلامی ریاست اور نظامِ شریعت پاکستان کے وجود کا لازمی جزو ہیں۔

3. اسلامی ریاست کا قیام امت مسلمہ کی ذمہ داری

آج کے دور میں ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام امتِ مسلمہ کی ذمہ داری ہے، اور پاکستان چونکہ "کلمہ طیبہ” کی بنیاد پر بنا، اس لیے پاکستانیوں پر یہ ذمہ داری دوچند ہو جاتی ہے۔ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا ضروری ہے جو اسلام کے تصورِ علم، اخلاقیات، معیشت، اور سماجی اصولوں کا عملی نمونہ پیش کرے۔

4. سیکولرازم کے اثرات

سیکولرازم کے تحت مذہب کو ریاستی معاملات سے الگ کر دیا جاتا ہے۔ اگر پاکستان میں سیکولرازم رائج کیا جائے تو دین اجتماعی زندگی سے کٹ کر صرف انفرادی عبادات تک محدود رہ جائے گا، اور نتیجتاً لادینیت کو فروغ ملے گا۔

بھارت میں سیکولرازم کی حمایت کی وجوہات

1. بھارت میں مسلمانوں کی اقلیت

بھارت ایک ہندو اکثریتی ملک ہے، جہاں مسلمانوں کی تعداد صرف 20 فیصد کے قریب ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کے لیے اسلامی ریاست یا نظامِ شریعت کا مطالبہ کرنا نہ صرف غیر عملی ہے بلکہ اقلیت ہونے کی وجہ سے یہ ان کے حق میں نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ اگر مذہبی ریاست کا مطالبہ کیا جائے تو وہ صرف "ہندو ریاست” کی صورت میں سامنے آئے گی۔

2. تاریخی پس منظر

بھارت کی تقسیم سے قبل کانگریس کے ساتھ وابستہ مسلم رہنما، بشمول مذہبی علما، سیکولرازم کے حامی تھے۔ یہ مؤقف انہوں نے تقسیم کے بعد بھی برقرار رکھا۔ بھارت کے آئین میں سیکولرازم کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور بھارتی سپریم کورٹ کے مطابق یہ آئین کا ناقابلِ ترمیم جزو ہے۔ اس لیے وہاں کے مذہبی حلقے اسی پالیسی کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔

3. موجودہ حالات اور محدود آپشنز

بھارتی حکومت کی شدت پسندانہ ہندو پالیسیوں، خصوصاً بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد، مسلمانوں کے پاس سیکولرازم کی حمایت کے سوا کوئی دوسرا محفوظ راستہ نہیں۔ اقلیت کے طور پر ان کے لیے یہی آپشن بہتر ہے۔

4. ہندو ریاست بننے کی صورت میں صورتحال

اگر بھارت مستقبل میں ہندو ریاست بن بھی جائے، تب بھی پاکستانیوں کے لیے یہ داخلی بھارتی مسئلہ ہوگا۔ جب تک مسلمان اقلیت کے حقوق محفوظ رہیں، انہیں مذہبی آزادی دی جائے، اور ان پر مظالم نہ ڈھائے جائیں، عالمی برادری کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

مختلف حالات میں مختلف مؤقف کی اہمیت

پاکستان میں سیکولرازم کی مخالفت اور بھارت میں اس کی حمایت مختلف حالات اور معروضی حقائق پر مبنی ہے۔ دونوں ممالک کے مسلمانوں کے لیے ان کے مخصوص زمینی حقائق کے مطابق مؤقف اپنانا ضروری ہے۔

ایک آسان مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی سندھی زبان کے فروغ کی حامی ہے، جبکہ خیبرپختونخوا میں وہ پشتو زبان کی حمایت کرے گی۔ اگر کوئی اسے منافقت کہے تو یہ ایک مضحکہ خیز بات ہوگی کیونکہ ہر جگہ کے اپنے حالات کے مطابق پالیسی بنانا فطری بات ہے۔

نتیجہ

پاکستان میں سیکولرازم کی مخالفت اور بھارت میں اس کی حمایت کو تضاد نہیں بلکہ معروضی حالات کی مناسبت سمجھنا چاہیے۔ ہر مسئلے پر تنقید کرنے کے بجائے اگر کچھ باتوں کو عام فہم حقائق کے طور پر قبول کر لیا جائے تو زیادہ وقت اور توانائی بچائی جا سکتی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے