پانی موجود ہونے کے باوجود پتھروں سے استنجاء کرنا
سوال:
کیا پانی کی موجودگی کے باوجود پتھروں سے استنجاء کرنا جائز ہے؟
الجواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
پتھروں سے استنجاء کا حکم:
پانی کی موجودگی میں بھی پتھروں سے استنجاء بلا کراہت جائز ہے۔
نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کی اکثریتی عادت یہی تھی کہ وہ پتھروں سے استنجاء کرتے تھے۔
سنت سے انحراف:
جو شخص رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کی سنت سے روگردانی کرتا ہے، وہ مسلمانوں میں سے نہیں سمجھا جاتا۔
پانی اور پتھروں کا بیک وقت استعمال:
نہ رسول اللہ ﷺ سے اور نہ ہی صحابہ کرام سے کسی واضح حدیث میں پانی اور پتھروں کو بیک وقت استعمال کرنا ثابت ہے۔
صاحب السنن المبتدعات کا قول:
کتاب: السنن المبتدعات، صفحہ 21
اس میں لکھا ہے:
"پتھروں کے ساتھ استنجاء نبی کریم ﷺ کے عمل سے ثابت ہے، جیسے کہ پانی کے ساتھ استنجاء بھی ثابت ہے۔”
احادیث مبارکہ سے دلائل:
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے:
"رسول اللہ ﷺ قضائے حاجت کے لیے تشریف لے جا رہے تھے، تو مجھے تین پتھر لانے کا حکم دیا۔ دو پتھر ملے، لیکن تیسرا نہیں ملا تو میں لید لے آیا۔ آپ ﷺ نے لید کو پھینک دیا اور پتھر لے لیے۔ فرمایا: یہ (لید) ناپاک ہے۔”
— روایت: صحیح بخاری، نیز احمد و دارقطنی نے یہ اضافہ کیا کہ: "اس کے علاوہ کچھ اور لے آؤ”
صحیح بخاری میں ایک اور روایت میں نبی کریم ﷺ کا فرمان:
"جو شخص ڈھیلے استعمال کرے، وہ طاق (یعنی 3، 5، 7…) استعمال کرے۔”
صحیح مسلم میں حضرت سلمان فارسی سے روایت ہے:
"رسول اللہ ﷺ نے ہمیں قضاء حاجت کے وقت قبلہ رخ ہونے سے منع فرمایا، داہنے ہاتھ سے استنجاء کرنے سے روکا، تین پتھروں سے کم استعمال کرنے سے منع فرمایا، اور ہڈی و لید سے استنجاء سے بھی منع کیا۔”
جمہور کا مؤقف:
استنجاء کے لیے ڈھیلے استعمال کرنا
صحاح، سنن، مسند احمد، موطا
اور دیگر کتب حدیث میں ثابت ہے۔
ائمہ اور تمام اہل اسلام کے فرقے اس پر متفق ہیں۔
امام ترمذی وغیرہ کا قول:
"حدیث سلمان صحیح ہے، اور یہ صحابہ اور ان کے بعد اکثریتی اہل علم کا قول ہے کہ پتھروں سے استنجاء کافی ہے، خواہ بعد میں پانی استعمال نہ کیا جائے، بشرطیکہ نجاست کے آثار ختم ہو جائیں۔”
بدعت و جہالت پر تنبیہ:
پانی کی موجودگی میں پتھروں سے استنجاء کو نماز باطل کرنے والا عمل کہنا بدعت اور جہالت ہے۔
یہ باطل نظریہ بعض علماء میں سرایت کر چکا ہے، جسے دور کرنا ضروری ہے۔
توبہ و تعزیر:
جو یہ کہتا ہے کہ ڈھیلے صرف پانی نہ ہونے کی صورت میں استعمال کیے جائیں، اس سے توبہ کروائی جائے۔
اگر توبہ نہ کرے، تو تعزیر (تادیبی سزا) دی جائے۔
امام مالک کا مؤقف:
امام مالک سے نبی کریم ﷺ کے پانی کے ساتھ استنجاء کو انکار منقول ہے۔
لیکن چونکہ احادیث میں پانی کے ساتھ استنجاء بھی ثابت ہے، اس لیے امام مالک کے قول کو قبول نہیں کیا جائے گا۔
وسوسوں میں مبتلا افراد کا غلط نظریہ:
کچھ ظاہری متعلمین کا خیال ہے:
"اگر کوئی نمازی ایسے شخص پر ہاتھ رکھ دے جس نے ڈھیلے سے استنجاء کیا ہو، تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی، کیونکہ وہ ناپاک شخص پر ہاتھ رکھ رہا ہے۔”
یہ نظریہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے اقوال و افعال کے خلاف ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب