ٹیکنالوجی، قرب قیامت کی نشانیاں اور ایمان کا تقاضا

ٹیکنالوجی کا وجود اور اس کی افادیت

موجودہ دور میں ٹیکنالوجی کا وجود ایک حقیقت ہے، اور اس کے فوائد و نقصانات نہ صرف واضح ہیں بلکہ ان کے ممکنہ اثرات پر بھی ماہرین بحث و تحقیق کرتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ٹیکنالوجی کوئی مستقل یا ابدی چیز نہیں ہے۔ قرآن کریم میں مختلف اقوام کا ذکر ملتا ہے، جن کے پاس اپنی دور کی خاص ٹیکنالوجی موجود تھی، جیسے بڑی ڈیمز، عمارتیں، اور دیگر تعمیراتی مہارتیں۔

قدیم ٹیکنالوجی کے شواہد

آج بھی دنیا میں ایسی قدیم ٹیکنالوجی کے آثار موجود ہیں، جیسے مصر کی اہرام۔ ماہرین ان کے وجود، تعمیراتی طرز، اور مقاصد پر تحقیق کر رہے ہیں۔ لیکن یہ سمجھنا کہ موجودہ دور کی ٹیکنالوجی ہمیشہ باقی رہے گی، نہ صرف غیر عقلی رویہ ہے بلکہ ایک مسلمان کے لیے یہ سوچ ایمان کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ خاص طور پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ اسی ٹیکنالوجی کی مدد سے انسان نے مہلک ہتھیار بنا لیے ہیں، جو دنیا کی مکمل تباہی کا سبب بن سکتے ہیں۔

جدید ٹیکنالوجی اور جنگ کا خطرہ

حال ہی میں روسی صدر ولادی میر پوٹن نے نیوکلیئر ہتھیاروں کی نئی پیش رفت کے حوالے سے بیانات دیے۔ مغربی ماہرین بھی یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ وہ وقت کب آئے گا جب انسان ایک دوسرے پر ان مہلک ہتھیاروں سے حملہ کر کے دنیا کو تباہ کر دے گا۔ عراق، شام، اور لیبیا جیسے ممالک کی موجودہ صورتحال اس کی ایک مثال ہے، جہاں جنگ و جدل نے انہیں تباہ حال معاشروں میں بدل دیا ہے۔

قرب قیامت کی نشانیاں اور غیر سائنسی تاویلات

دجال اور قرب قیامت کی نشانیاں

حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا میں موجود مشاہدات اور حقیقی خطرات کے باوجود کچھ لوگ دجال کی سواری، دجال کے ایک انسان کو زندہ کرنے، یا دابۃ الارض کے ظہور جیسی علامات کو غیر ضروری سائنسی تاویلات سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارا اللہ کی قدرت پر ایمان اتنا کمزور ہو گیا ہے کہ ہمیں یقین نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ زمین سے ایک بولنے والا جانور نکال سکتا ہے؟

حضرت صالح علیہ السلام کی قوم کے لیے اللہ نے پہاڑ سے اونٹنی نکالی، تو زمین سے ایک جانور کا ظاہر ہونا کیسے محال ہو سکتا ہے؟ لیکن کچھ لوگ اس پر آرٹیفیشل انٹیلیجنس جیسی تاویلات پیش کرتے ہیں اور انہیں ایسے بیان کرتے ہیں جیسے یہی حقیقت ہو۔

ماضی اور موجودہ دور کے تقابلی ایمان

◈ پرانے دور کے لوگوں کے پاس آج کی ٹیکنالوجی نہیں تھی، لیکن وہ اسراء اور معراج میں براق پر ایمان لے آئے، اور انگلی کے اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے ہونے کو تسلیم کر لیا۔
◈ لیکن آج کا انسان، سائنسی ترقی اور ٹیکنالوجی کے باوجود، ان معجزات پر یقین کرنے سے انکاری ہے اور قرب قیامت کی نشانیوں کو غیر منطقی سائنسی تاویلات سے جوڑتا ہے۔

نتیجہ

لہذا، قرب قیامت کی علامات کو سائنسی توجیہات میں قید کرنا نہ صرف غیر ضروری ہے بلکہ یہ اللہ کی قدرت اور ماضی کے معجزات کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔ موجودہ دور کے انسان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ٹیکنالوجی عارضی ہے اور اللہ کی قدرت اس سے کہیں بلند و بالا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1