ایک باشعور اور خود مختار خاتون کا تجربہ
ایک باشعور اور خود مختار خاتون نے جب صبح آنکھ کھولی، تو مساوات اور خود انحصاری کے اصولوں پر کاربند ہوتے ہوئے، گھر کے تمام کام خود انجام دینے کے بعد، پرعزم انداز میں "اپنا ٹیکس آپ بھرو” کا نعرہ لگاتے ہوئے محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے دفتر پہنچیں۔
دفتر کے باہر بدنظمی اور عوام کی بد تہذیبی
دفتر پہنچتے ہی انہیں پارکنگ کی بدحالی اور عوام کی بدتمیزی کا سامنا کرنا پڑا۔ گاڑیاں بے ترتیبی سے کھڑی تھیں، جنہیں دیکھ کر وہ سوچنے لگیں کہ ایسی بدنظم قوم کو ہر لمحہ پارکنگ فیس ادا کرنی چاہیے۔ جیسے تیسے ایک جگہ ملی، لیکن دماغ میں اپنی قوم کے لیے غصے کی لہر دوڑ گئی۔
دفتر میں داخلے کی جدوجہد
دفتر کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے انہوں نے دیکھا کہ عمارت آہنی جنگلوں اور خاردار تاروں میں جکڑی ہوئی تھی، جیسے یہ کسی دشمن کی چوکی ہو۔ اندر جانے کے لیے انہیں لوگوں کے ہجوم کو چیرنا تھا، جو آسان نہ تھا۔ ایک لمحے کو انہوں نے غیر قانونی راستہ اختیار کرنے کی کوشش کی، مگر گیٹ پر موجود محافظ نے انہیں روک دیا اور واپس قطار میں کھڑا ہونے کا کہا۔ گرمی اور حبس کے عالم میں پسینے میں شرابور کھڑے رہنا مشکل ہورہا تھا، مگر مردوں کے شانہ بشانہ مقابلے کی امنگ نے انہیں ثابت قدم رکھا۔
دفتر کے اندر بدنظمی اور وقت کا ضیاع
قطار میں کھڑے کھڑے جب وہ اندر پہنچیں، تو وہاں کا حال دیکھ کر حیران رہ گئیں۔ استقبالیہ نہ تھا، نہ ہی کوئی واضح ہدایات موجود تھیں۔ سینکڑوں لوگ مختلف کھڑکیوں کے سامنے بے ترتیب کھڑے تھے۔ ہر طرف شکوے، قہقہے، سیاسی تبصرے، معاشی بحثیں اور گھریلو مسائل پر تبادلہ خیال جاری تھا۔ گرمی، پسینے اور شور و غل نے انہیں بے حال کر دیا۔ انہیں احساس ہوا کہ اگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح ماحول اور عوام کا مزاج بھی درآمد کیا جا سکتا، تو وہ فوراً یورپ کی صاف ستھری ہوا پاکستان لے آتیں۔
خواتین کے لیے مخصوص کاؤنٹر اور آسانی
مایوسی کے عالم میں کھڑی تھیں کہ اچانک ایک ملازم نے انہیں خواتین کے لیے مخصوص کاؤنٹر کا راستہ دکھایا۔ وہاں پہنچ کر انہیں قدرے سکون ملا۔ ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں مختلف عمر کی خواتین اپنی باری کا انتظار کر رہی تھیں۔ کچھ ادھیڑ عمر تھیں، کچھ نوجوان، کچھ مکمل حجاب میں تو کچھ مغربی لباس میں ملبوس۔ باہر کھڑے حضرات اپنے گھر کی خواتین کی مدد میں مصروف تھے، جو انہیں خوشگوار محسوس ہوا۔ چند لمحوں بعد ہی ان کا ٹیکس جمع ہوگیا اور رسید ہاتھ میں تھی۔
واپسی پر احساسِ تعلق
خواتین کے مخصوص کاؤنٹر کی سہولت سے فائدہ اٹھانے کے بعد جب وہ باہر نکلیں، تو باہر پسینے میں بھیگے مرد و زن کا ہجوم پہلے کے برعکس اپنا سا محسوس ہونے لگا۔ دل میں اک نرم گوشہ پیدا ہوا اور گاڑی میں بیٹھتے ہی ایک جملہ بے ساختہ زبان سے نکلا: "They are us”۔