شروط نماز: وہ امور جو نماز سے پہلے لازمی ہیں
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی کی کتاب نماز مصطفیٰ علیہ الصلوۃ والسلام سے ماخوذ ہے۔

نماز سے قبل

ذیل کی سطور میں ہم اُن اہم امور کا تذکرہ کرنے لگے ہیں جن کا نماز کی ادائیگی سے قبل نمازی کے لیے اہتمام کرنا ضروری ہے، ان میں سے بعض تو شروط نماز کی حیثیت رکھتے ہیں کہ ان کے بغیر نماز ہوتی ہی نہیں۔ اور بعض امور کی حیثیت شروط کی سی تو نہیں ، البتہ ان کی عدم موجودگی میں نماز میں روحانیت نہیں رہتی۔ پس وہ نماز ایسی ہی ہوتی ہے، جیسے بے روح جسم ہوتا ہے، لہذا نماز نہایت عاجزی اور خشوع و خضوع، حالت طہارت اور ایمان و توحید کی حالت میں سنت نبوی ﷺ کے مطابق ادا کرنی چاہیے۔

حالت میں سنت نبوی ﷺ کے مطابق ادا کرنی چاہیے۔

نماز سنت نبوی ﷺ کے مطابق پڑھنا

نماز سنت کے مطابق پڑھنا فرض ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

(( صلوا كما رأيتموني أصلى . ))
صحیح بخاری، کتاب الأذان، رقم: ٦٣١.

’’تم نماز اس طرح پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘

امام ابن حزمؒ کا قول اس حدیث کی تفسیر میں انتہائی مناسب رہے گا، فرماتے ہیں:

’’سنت نبوی ﷺ کے مطابق نماز پڑھنا فرض ہے ۔‘‘
محلی ابن حزم۔

یہی وجہ ہے کہ مظہر خلق عظیم، محمد رسول اللہ ﷺ نے ہر ممکنہ کوشش کی کہ صحابہ کرامؓ آپ کو نماز پڑھتا دیکھیں، اور نماز کا طریقہ یاد کر لیں۔ ایک بار رسول اللہ ﷺ نے منبر پر کھڑے ہو کر نماز پڑھائی۔ آپ ﷺ کے منبر پاک کے تین درجے تھے۔ سید المرسلین ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے، اور آپ نے تکبیر تحریمہ کہی۔ صحابہ کرامؓ نے بھی آپ ﷺ کی اقتداء میں تکبیر تحریمہ کہی، رکوع بھی محسن اعظم ﷺ نے منبر پر کیا۔ اس کے بعد نبی برحق ﷺ نے سرمبارک اٹھایا اور البتہ سجدہ کرنے کے لیے پچھلے پاؤں اترے اور منبر کے اصل میں سجدہ فرمایا، پھر دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کیا یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہو کر سرور کائنات ﷺ لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا:

’’میں نے منبر پر قیام، رکوع وغیرہ اس لیے کیا ہے تاکہ تم میری اقتداء کرو اور میرے نماز ادا کرنے کی کیفیت کا تمہیں پتہ چل جائے ۔‘‘
صحیح بخاری، کتاب الاذان، رقم : ٨٢٤٠٨١٨- طبقات ابن سعد: ۲۵۳/۱۔

صحابہ کرامؓ بھی اپنی مجالس میں ایک دوسرے کو نماز سنت نبوی ﷺ کے عین مطابق پڑھنے کی اہمیت سے آگاہ کرتے رہتے ۔ محدثین نے اپنی کتب میں اسی چیز پر زور دیا ہے کہ نماز آپ ﷺ کے بتلائے ہوئے طریقہ کے مطابق پڑھی جائے ، امام بخاریؒ نے اپنی ’’صحیح ، کتاب الأذان‘‘ میں باب قائم کیا ہے:

((باب من صلى بالناس وهو لا يريد إلا أن يعلمهم صلاة النبى صلى الله عليه وسلم وسته .))

’’کوئی شخص لوگوں کو سمجھانے کے لیے کہ نبی کریم ﷺ نماز کیونکر پڑھتے تھے اور آپ کا طریقہ کیا تھا، نماز پڑھائے تو کیسا ہے؟‘‘

اور اس کے تحت سیدنا ابو قلابہؒ کی سیدنا مالک بن حویرثؓ کے متعلق بیان کردہ حدیث ذکر کی ہے، فرماتے ہیں کہ :

’’سید نا مالک بن حویرثؓ ایک دفعہ ہماری مسجد میں تشریف لائے ، اور فرمایا کہ میں تم لوگوں کو نماز پڑھاؤں گا۔ اور میری نیت نماز پڑھنے کی نہیں ہے، میرا مقصود صرف اور صرف یہ ہے کہ تمہیں نماز کا وہ طریقہ سکھا دوں جس طریقہ سے نبی کریم ﷺ نماز پڑھا کرتے تھے ۔‘‘
صحیح بخاری، رقم : ٦١٧۔

اور جہاں تک خلاف سنت نماز پڑھنے کا تعلق ہے، تو دیکھئے ! سید نا عبد اللہ بن عمرؓ نے حجاج بن ایمن کو خلاف سنت نماز پڑھتا دیکھا تو فرمایا

((أعِدُ صَلَاتَكَ))

’’تم نماز دوبارہ پڑھو۔‘‘

سید نا حذیفہ بن یمانؓ نے جب ایک ایسے آدمی کو دیکھا جو رکوع و سجود میں صرف اعتدال کا خیال نہیں رکھتا، اور خلاف سنت کر رہا ہے، تو فرمایا کہ اگر تمہاری موت اسی حال میں ہو گئی تو تمہاری موت ملت محمدیہ پر نہیں ہوئی۔
صحیح بخاری، کتاب الأذان، رقم: ۷۹۱۔

لہٰذا نماز میں سنت نبوی ﷺ کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ یہاں نماز میں ایک چھوٹا سا عمل بھی خلاف سنت برداشت نہیں ۔ مگر سبحان اللہ ! لوگوں نے تو حنفی، مالکی ، شافعی، حنبلی اور جعفری نماز تک بناڈالی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی سنت اور منہج صحابہ کرامؓ کو چھوڑ کر اہل سنت و الجماعت ہونے کا دعویٰ سوائے خوش فہمی کے اور کچھ نہیں ۔ حقیقتاً اہل سنت والجماعت وہی ہو سکتا ہے کہ جس کا منہج صحیح معنوں میں قرآن وسنت اور فہم و عمل صحابہ کرامؓ کے عین مطابق ہوگا۔

قرآن کی روشنی میں سنت کی اہمیت

دنیا کی عمر میری اسلام میں ہو پوری
سنت پر جان دے دوں بدعت نہیں گوارا

رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ایمان ہے:

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

((فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا))

(النساء: ٦٥)

’’تمہارے رب کی قسم ! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک تنازعات میں آپ کو حاکم تسلیم نہ کریں، پھر آپ جو فیصلہ کریں اس کے متعلق اپنے دلوں میں گھٹن بھی محسوس نہ کریں، اور اس فیصلہ پر پوری طرح سر تسلیم خم نہ کر دیں ۔‘‘

سنت رسول ﷺ جنت میں اعلیٰ ترین مقام کا باعث ہے:

(وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا)

(النساء : ٦٩)

’’اور جو شخص اللہ اور رسول کی اطاعت کرتا ہے، تو ایسے لوگ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء کرام، صدیقین، شہیدوں اور صالحین کے ساتھ ، اور رفیق ہونے کے لحاظ سے یہ لوگ کتنے اچھے ہیں۔‘‘

رسول اللہ ﷺ کی اطاعت حقیقت میں اللہ کی اطاعت ہے:

(مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ ۖ وَمَن تَوَلَّىٰ فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا )

(النساء: ٨٠)

’’جس نے رسول کی اطاعت کی تو اس نے اللہ کی اطاعت کی ، اور اگر کوئی منہ موڑتا ہے تو ہم نے آپ کو ان پر پاسبان بنا کر نہیں بھیجا۔‘‘

رسول اللہ ﷺ کی اطاعت فرض ہے:

(وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ)

(الحشر : ٧)

’’اور جو کچھ تمہیں رسول دیں، وہ لے لو، اور جس سے روکیں، اس سے رک جاؤ، اور اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ یقیناً سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘

سنت رسول اللہ ﷺ ہی اختلافات کا حل ہے:

(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا)

(النساء : ٥٩)

’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، اور رسول کی اطاعت کرو، اور تم میں سے اقتدار والوں کی، پھر اگر کسی معاملہ میں تمہارا اختلاف ہو جائے ، تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو، اسی میں بھلائی ہے اور انجام کے اعتبار سے یہی اچھا ہے۔‘‘

(وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۗ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ)

(البقره: ١٤٣)

’’اور اسی طرح ہم نے تمہیں متوسط امت بنایا تا کہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو، اور رسول تم پر گواہ ہو، اور ہم نے آپ کے لیے پہلا قبلہ (بیت المقدس) اس لیے بنایا تھا کہ ہمیں معلوم ہو کہ کون رسول کی اتباع کرتا ہے، اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے، قبلہ کی تبدیلی ایک بڑی بات تھی مگر ان لوگوں کے لیے نہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی، اور اللہ تمہارے ایمان کو ضائع نہ کرے گا، وہ تو لوگوں کے حق میں بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔‘‘

سنت رسول ﷺ پر عمل اللہ تعالیٰ سے محبت کی دلیل ہے:

(قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ)

(آل عمران : ۳۱)

’’کہہ دیجیے ! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا، اور تمہارے گناہ بخش دے گا ، اور اللہ بہت بخشنے والا رحیم ہے۔‘‘

ایمان کے بعد اتباع رسول ﷺ بہت ضروری ہے:

(رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ)

(آل عمران : ٥٣)

’’اے ہمارے رب! ہم نے مان لیا جو تو نے نازل کیا ہے، اور ہم نے رسول کی پیروی کی ہے، لہٰذا ہمارے نام گواہی دینے والوں میں لکھ دے۔‘‘

رسول اللہ ﷺ کی ذات مبارکہ میں اسوہ حسنہ ہے:

(لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا)

(الاحزاب : ۲۱)

’’فی الحقیقت تم مسلمانوں کے لیے رسول اللہ کا قول و عمل ایک بہترین نمونہ ہے، ان کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت کا یقین رکھتے ہیں اور اللہ کو بہت یاد کرتے رہتے ہیں۔‘‘

خلاصه:

پس ان آیات کریمہ کی روشنی میں معلوم ہوا کہ اختلافی اُمور میں جب تک رسول کریم ﷺ کے فیصلہ کو دل و جان سے تسلیم نہ کیا جائے، بندہ مومن نہیں ہو سکتا۔ آپ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری سے بندہ روز قیامت انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین (اولیاء کرام) کی رفاقت حاصل کر لے گا۔ نبی کریم ﷺ کی اطاعت در حقیقت اطاعت الہیٰ ہے۔ اتباع رسول ﷺ سے بندہ اللہ کا محبوب بندہ بن جاتا ہے اور یہ اہل ایمان کی بڑی صفات میں ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا قول و عمل ہی اہل ایمان کے لیے بہترین نمونہ ہے۔

سنت رسول ﷺ سے اعراض و انحراف کے متعلق وعید :

جب کہ رسول کریم ﷺ کی نافرمانی ، اور آپ کی سنت سے دُوری کی وجہ سے انسان جہنم میں چلا جائے گا۔ آپ کی مخالفت نفاق کی دلیل ہے، جہالت کی علامت ہے اور باعث ذلت و رسوائی ہے۔ جیسا کہ ذیل کی آیات کریمہ سے واضح ہو رہا ہے۔

(وَ مَن يَعْصِ الله وَرَسُولَهُ وَ يَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينَ)

(النساء : ١٤)

’’اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے، اور اللہ کی حدود سے آگے نکل جائے ، اللہ اسے جہنم میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اور اسے رسوا کرنے والا عذاب ہوگا ۔‘‘

(فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ أَمْرِةِ أَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِبْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ)

(النور : ٦٣)

’’پس جو لوگ رسول اللہ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں، انہیں ڈرنا چاہیے کہ ان پر کوئی بلا نہ نازل ہو جائے ، یا کوئی درد ناک عذاب نہ انہیں آگھیرے۔‘‘

(وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًا)

(النساء : ٦١)

’’اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ اس چیز کی طرف آؤ جو اللہ نے نازل کی ہے، اور رسول کی طرف آؤ تو آپ منافقوں کو دیکھیں گے کہ وہ آپ کے پاس آنے سے گریز کرتے ہیں۔‘‘

(وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۚ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ)

(المائده : ١٠٤)

اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ آؤ اس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے، اور آؤ رسول کی طرف تو کہتے ہیں:

ہمیں تو وہی کچھ کافی ہے جس پر ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو پایا ہے، خواہ ان کے باپ دادا کچھ بھی نہ جانتے ہوں ، اور نہ ہی ہدایت پر ہوں ۔

( إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَٰئِكَ فِي الْأَذَلِّينَ)

(المجادله : ٢٠)

’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں، یقیناً یہی لوگ ذلیل ترین قوموں میں سے ہیں۔‘‘

(وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَ یَتَّبِـعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَؕ-وَ سَآءَتْ مَصِیْرًا)

(النساء : ١١٥)

’’جو شخص ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر اور راہ اختیار کرے تو ہم اسے ادھر ہی پھیر دیتے ہیں جدھر کا اس نے رخ کیا ہے، پھر ہم اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین ٹھکانہ ہے۔‘‘

احادیث نبویہ کی روشنی میں سنت کی اہمیت

((عن عبد الله بن مسعود قال: خط لنا رسول الله خطاثم قال: هذا سبيل الله ، ثم خط خطوطا عن يمينه وعن شماله وقال هذه سبل على كل سبيل منها شيطان يدعوا إليه . وقرأ وأن هذا صراطي مستقيما فاتبعوه الآية .))
مسند احمد: ٤۳۵/۱ سنن دارمی: ٦٧/١، صحیح ابن حبان، رقم : ٧٠٦- مستدرك حاکم : ۳۱۸/۲۔ ابن حبان، حاکم اور شیخ شعیب نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

سید نا عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں :

رسول اللہ ﷺ نے ہمارے لیے ایک خط کھینچا اور فرمایا:

یہ اللہ کا راستہ ہے پھر اس کے دائیں اور بائیں خطوط کھینچے اور فرمایا:

یہ رستے شیطان کے ہیں، اور ان میں سے ہر رستے پر شیطان ہے جو ان رستوں کی طرف بلاتا ہے، اور یہ آیت پڑھی:

(وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُ)

’’بے شک یہ سیدھا راستہ میرا ہے، پس اس کی پیروی کرو ۔‘‘

صِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ، سہل الشياطين

اس حدیث شریف کے مطابق جس جماعت کا بھی منہج قرآن وسنت فہم و عمل صحابہ کرامؓ نہیں وہ جماعت شیطان کے رستے پر ہے۔ اور شیطان کی طرف ہی بلاتی ہے۔

((عن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله ﷺ: ما أمرتكم به فخذوه وما نهيتكم عنه فانتهوا ))
سنن ابن ماجه، باب اتباع سنةٍ رَسُولِ اللهِ ﷺ، رقم : ١- سلسلة الصحيحة، رقم: ٨٥٠۔

سیدنا ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’جو میں تمہیں حکم دوں اس کو لے لو، اور جس چیز سے منع کروں اس سے باز آ جاؤ۔‘‘

((وعن جابر بن عبد الله قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا خطب يقول : أما بعد فإن خير الحديث كتاب الله . وخير الهدي هدى محمد ، وشر الأمور محدثاتها وكل بدعة ضلالة))
مسلم، کتاب الجمعه، باب تحفيف الصَّلاة والخطبة، رقم : ٨٦٧۔

سیدنا جابرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ خطبہ ارشاد فرمایا:

’’حمد وثناء کے بعد، سب سے بہترین بات ’’کتاب اللہ‘‘ ہے، اور بہترین سیرت محمد ﷺ کی سیرت ہے، اور سب سے بدترین کام وہ ہیں جو اپنی طرف سے وضع کیے جائیں، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘

فائدہ:

معلوم ہوا جو کام سنت کے خلاف ہو وہ بدعت ہے، جو کہ سراسر گمراہی ہے۔ پس سنت نور ہدایت ہے، لہذا ہر عمل صالح ، نماز اور روزہ وغیرہ سنت کے عین مطابق ہو، تو حصول رضائے الہیٰ ممکن ہے ، بصورت دیگر نہیں۔

((عن أبى هريرةؓ قال: قال رسول الله : كل أمتي يدخلون الجنة إلا من أبى . قالوا: يا رسول الله ومن يأبى؟ قال: من أطاعني دخل الجنة ومن عصاني فقد أبى .))
صحیح بخاری، کتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، باب الاقتداء بمن رسول الله، رقم: ۷۷۰۔

سیدنا ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں :

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’میری تمام امت جنت میں جائے گی ،مگر جس نے جنت میں جانے سے انکار کیا۔‘‘

صحابہؓ نے کہا:

یا رسول اللہ ! کون ہے جو جنت میں جانے سے انکار کرے؟ نبی رحمت ﷺ نے فرمایا:

’’جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہو گیا، اور جس نے میری نافرمانی کی ، پس تحقیق اس نے جنت میں جانے سے انکار کیا۔‘‘

((وعن أنس ، قال : جاء ثلاثة رهط إلى بيوت أزواج النبى صلى الله عليه وسلم يسألون عن عبادة النبى صلى الله عليه وسلم فلما أخبروا كأنهم تقالوها فقالوا: وأين نحن من النبى صلى الله عليه وسلم قد غفر له ما تقدم من ذنبه وما تأخر ، قال أحدهم: أما أنا فإني أصلى الليل أبدا، وقال آخر: أنا أصوم الدهر ولا أفطر ، وقال آخر: أنا أعتزل النساء فلا أتزوج أبدا فجاء رسول الله إليهم ، فقال: أنتم الذين قلتم كذا وكذا ، أما والله إني لأخشاكم لله وأتقاكم له ، لكني أصوم وأفطر ، وأصلى وأرقد، وأتزوج النساء فمن رغب عن متى فليس مني .))
صحیح بخارى، كتاب النكاح، باب الترغيب في النكاح، رقم: ٥٠٦٣.

سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں کہ تین شخص نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہراتؓ کے پاس آئے ، اور نبی رحمت ﷺ کی عبادت سے متعلق سوال کیا، اور جب انہیں نبی مکرم ﷺ کی عبادت کے متعلق خبر دی گئی تو انہوں نے اس عبادت کو معمولی سمجھا، اور کہا:

ہمیں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کیا نسبت ہے، آپ کی تو اللہ نے پہلی پچھلی سب لغزشیں معاف کردی ہیں، ان میں سے ایک نے کہا:

میں تو ہمیشہ رات بھر نفل ادا کروں گا۔ دوسرے نے کہا:

میں ہمیشہ دن بھر کا روزہ رکھوں گا کبھی افطار نہیں کروں گا۔ تیسرے نے کہا:

میں عورتوں سے دور رہوں گا کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ پس نبی اکرم ﷺ ان کے پاس گئے اور آپ اپنے کلام نے ان سے پوچھا:

تم نے اس اس طرح کی باتیں کی ہیں؟ خبردار اللہ کی قسم ! میں تم میں سب کی نسبت زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ، اور پر ہیز گار ہوں، اس کے باوجود روزہ رکھتا ہوں اور کبھی نہیں بھی رکھتا، میں رات کو نوافل ادا کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، پس جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں ہے۔

((عن العرباض بن سارية قال: قال رسول الله : من يعض منكم يرى اختلافا كثيرا ، وإياكم محدثات الأمور فإنها ضلالة ، فمن أدرك ذلك منكم فعليه بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهدين ، عضوا عليها بالنواجد ))
سنن ترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء في الأخذ بالسنة واجتناب البدعة : ٧٦٧٦ – البانیؒ نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

سید نا عرباض بن ساریہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سارے اختلاف دیکھے گا۔ تم دین میں نئے کاموں سے بچو، کیوں کہ یہ گمراہی ہے تم میں سے جو اس کو پائے اس پر لازم ہے میری سنت کو لازم جانے ، اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقے کو لازم پکڑے، اور اس کو دانتوں سے مضبوط پکڑے ۔‘‘

نبی کریم ﷺ کی اس وصیت پر عمل کرتے ہوئے حنفی، مالکی ، شافعی ، حنبلی اور جعفری نماز کو چھوڑ کر نبی کریم نے سلام کی نماز، فہم وعمل صحابہ کرامؓ کی روشنی میں سیکھی اور ادا کی جائے تو امت مسلمہ میں اتحاد و محبت پیدا ہو جائے گی ۔ انشاء اللہ!

صحابہ کرامؓ کی نظر میں سنت کی اہمیت

➊ سید نا ابوبکر صدیقؓ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ:

((لست تاركا شيئا كان رسول الله ﷺ يعمل به إلا عملت به فإني أخشى إن تركت شيئا من أمره أن أزيغ .))
صحیح بخاری، کتاب فرض الخمس رقم: ۳۰۹۳۔ صحیح مسلم، كتاب الجهاد والسيره رقم : ٤٥٨٢۔

’’میں کسی ایسے کام کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوں جو رسول اللہ ﷺ کیا کرتے تھے، مگر یہ کہ میں اس پر عمل پیرا رہوں گا کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ اگر میں نے نبی ﷺ کے کام میں سے کسی چیز کو چھوڑ دیا تو میں گمراہ ہو جاؤں گا ۔‘‘

➋ ایک بار سید نا علی کرم اللہ وجہہ سوار ہونے لگے تو رکاب میں بسم اللہ کہہ کر پاؤں رکھا ، پشت پر پہنچے تو الحمد للہ کہا، پھر یہ آیت پڑھی:

(سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَ مَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِیْنَ(13)وَ اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ(14))

(الزخرف : ١٤٠١٣)

پھر تین بار الحمد للہ اور تین بار اللہ اکبر کہا۔ اس کے بعد یہ دعا پڑھی:

((سبحانك إني ظلمت نفسي فاغفر لي إنه لا يغفر الذنوب إلا أنت .))

پھر مسکرا دیے، لوگوں نے مسکرانے کی وجہ دریافت کی، بولے:

’’ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ ان ہی پابندیوں کے ساتھ سوار ہوئے اور اخیر میں مسکرا دیے، میں نے مسکرانے کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ جب بندہ علم و یقین کے ساتھ یہ دعا کرتا ہے تو اللہ اس سے خوش ہوتا ہے ۔‘‘
سنن ابوداؤد، كتاب الجهاد باب ما یقول الرجل ادار کب، رقم:٢٦٠٧۔ ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔

➌ اتباع سنت میں تمام صحابہ کرام سے سید نا عبد اللہ بن عمرؓ بطور خاص ممتاز تھے، رسول اللہ ﷺ حج کے سفر سے واپس آئے تو مسجد کے دروازے پر ناقہ کو بٹھا کر پہلے دو رکعت نماز پڑھی، پھر گھر تشریف لے گئے ۔ اس کے بعد سید نا عبد اللہ بن عمرؓ نے بھی یہی معمول کیا ۔
صحيح بخاري، كتاب الوضوء، الخ ١٩٦ – صحيح مسلم ، رقم: ۱۱۸۷۔ سنن ابوداؤد، کتاب الجهاد، رقم: ۲۷۸۲۔

➍ سید نا عبد اللہ بن عمرؓ کعبہ کے صرف دونوں یمانی رکنوں یعنی حجر اسود اور رکن یمانی کو چھوتے تھے، ایسے جوتے پہنتے تھے جن پر بال نہیں ہوتے ، زرد رنگ کا خضاب لگاتے تھے اور لوگ چاند دیکھتے ہی احرام باندھ لیتے تھے، لیکن وہ یوم الترویہ یعنی آٹھویں ذوالحجہ کو احرام باندھتے تھے، جناب عبید بن جریج نے ان سے پوچھا کہ صرف آپ ہی کیوں ایسا کرتے ہیں؟ آپ کے اور اصحاب نہیں کرتے، بولے کہ:

’’میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے اس لیے میں بھی اس کو پسند کرتا ہوں ۔‘‘
سنن ابو داؤد، کتاب المناسك، رقم: ۱۷۷۲.

➎ سید نا عبد اللہ بن عباسؓ نے ایک موقع پر فرمایا:

قریب ہے کہ تم لوگوں پر آسمان سے پتھر برسیں، میں تمہیں بتاتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اور تم اس کے مقابلے میں ابو بکر صدیق اور عمرؓ کے اقوال پیش کرتے ہو ۔
بحواله كتاب التوحيد، باب ۳۸، ص ٢٩٦.

نوٹ:

نبی کریم ﷺ کی حدیث ہوتے ہوئے سید نا ابو بکر و عمر ؓ کی بات دین نہ بن سکی ، افسوس صد افسوس! تو پھر فقہ حنفی، مالکی ، شافعی ،حنبلی اور جعفری اور پیروں ، علماء اور مروجہ فرقوں کی بات کو حجت کیسے مانا جاسکتا ہے۔

➏ سیدنا حذیفہؓ نے ایک شخص کو دیکھا جو رکوع و سجود مکمل طور پر نہیں کر رہا تھا تو آپ نے اس سے کہا:

((ما صليت ولومت مت على غير الفطرة التى فطر الله محمدا ﷺ .))
صحیح بخارى، كتاب الأذان، رقم: ۷۹۱۔

’’تو نے نماز نہیں پڑھی، اگر تو ایسے ہی مر گیا تو اس دین اسلام پر نہیں مرے گا جس فطرت پر اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو پیدا کیا تھا۔‘‘

نوٹ:

اعتدال و اطمینان ، سنت نبوی ﷺ کو چھوڑ کر تراویح کی رکعتیں بڑھانے والوں کو اگر صحابہ کرامؓ دیکھ لیتے کہ یہ لوگ رکوع و سجود کے ساتھ کیا ظلم کرتے ہیں تو وہ کیا فتویٰ صادر فرماتے ؟

ائمہ اربعہ کی نظر میں سنت کی اہمیت

نہ لو قول ائمہ گر حدیثوں سے ہو متصادم
امامان شریعت کی یہی ہم کو وصیت ہے!

امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابتؒ :

امام ابو حنیفہؒ المتوفی ۱۵۰ ھ ارشاد فرماتے ہیں:

((إذا صح الحديث فهو مذهبى .))
رد المحتار على الدر المختار، لابن عابدین: ۶۸/۱۔

’’جب حدیث صحیح ثابت ہو جائے تو وہی میرا مذہب ہے۔‘‘

امام ابوحنیفہؒ اس قول کے مطابق لوگوں کو اپنی آراء کی طرف دعوت دینے کی بجائے امام الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ کی حدیث کی طرف دعوت دے رہے ہیں اور ببانگ دہل اعلان فرما رہے ہیں کہ میں اہل حدیث ہوں اور حیح حدیث ہی میرا مذہب ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب امام ابو حنیفہؒ کو مسح علی الجوربین کی حدیث مل گئی تو انہوں نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا۔ چنانچہ جامع ترمذی میں ہے:

صالح بن محمد الترمذی کہتے ہیں:

میں نے ابو مقاتل سمرقندی سے سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ میں امام ابوحنیفہ کے پاس مرض الموت میں گیا، پس انہوں نے پانی منگوایا اور وضو کیا، آپ جرابیں پہنے ہوئے تھے، پس آپ نے جرابوں پر مسح کیا ، پھر آپ نے ارشاد فرمایا:

((فعلت اليوم شيئا لم أكن أفعله، مسحت على الجوربين، وهما غير منعلين .))

’’میں نے آج وہ کام کیا ہے جو پہلے نہیں کرتا تھا، وہ یہ کہ میں نے جرابوں پرمسح کیا ہے ۔‘‘
سنن ترمذی، کتاب الصلوٰة، رقم : ۹۹ – البانیؒ نے اس قول کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

امام ابو حنیفہؒ کا ایک قول اس طرح ہے کہ:

((إذا قلت قولا يخالف كتاب الله وخير رسول الله ﷺ فاتركوا قولي .))
ايقاظ همم أولى الابصار ص ٥٠۔

’’جب میں کوئی ایسی بات کہوں جو کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث کے خلاف ہو تو میری بات کو چھوڑ دو۔‘‘

ان اقوال سے ثابت ہوا کہ امام ابو حنیفہؒ قرآن و حدیث کو اپنی بات پر مقدم کرتے تھے، اور جو بات خلاف قرآن وسنت ہوتی، اس سے رجوع کر لیتے تھے، معلوم ہوا کہ امام صاحب تقلید شخصی کو نا جائز سمجھتے تھے، انہوں نے خود کسی شخصیت کی تقلید نہ کی اور نہ اسے جائز قرار دیا، بلکہ اس سے سختی کے ساتھ منع فرمایا۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہؒ نے بنانگ دہل فرمایا:

((لا يحل لاحد أن يأخذ بقولنا ما لم يعلم من أين أخذناه))
الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء ص: ١٤٥ البحر الرائق: ۲۹٣/٦- تاريخ يحيى بن معين بحواله صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم، ص: ٤٦.

’’کسی شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ ہماری بات کو لے ۔ جب تک کہ اسے یہ معلوم نہ ہو جائے کہ یہ بات ہم نے کہاں سے لی ہے؟‘‘

اگر امام ابو حنیفہؒ کے اقوال کے مطابق دیکھیں تو قرآن وسنت کو وہ اپنا منہج سمجھتے تھے ، اور موجودہ حنفی نماز تو کیا، حنفی نماز کی ایک رکعت کے مکمل مسائل بھی صحیح سند کے ساتھ امام ابو حنیفہؒ سے ثابت نہیں ہو سکتے ۔ چنانچہ امام الحرمین الجوینی فرماتے ہیں:

’’جس صلاۃ کو امام ابو حنیفہ جائز کہتے ہیں ، اگر کسی عام آدمی کے سامنے پیش کی جائے تو وہ قبول نہ کرے، اور نماز دین کا ستون ہے ۔‘‘
مغيث الخلق، ص : ٥٩۔

اس پر مستزاد یہ کہ امام صاحب نبی ، رسول اور معصوم نہیں تھے اور غلطی کے امکان کی وجہ سے لوگوں کو قرآن وسنت کی طرف رجوع کرنے کا حکم فرمارہے ہیں۔ لہٰذا مسائل نماز سیکھنے کے لیے اپنے ائمہ کی فقہوں کے بجائے سنت رسول ﷺ کا سہارا لینا انتہائی ضروری ہے، وگر نہ نماز باطل ہوگی۔

امام مالک بن انسؒ:

امام مالکؒ فرماتے ہیں:

((إنما أنا بشر أخطى وأصيب، فانظروا فى رابي، فكل ما وافق الكتاب والسنة فخذوه، وكل ما يخالف الكتاب والسنة فاتركوه .))
الجامع لابن عبدالبر : ٣٢/٢- أصول الاحكام لابن حزم : ١٤٩/٦ الايقاظ، ص: ٧٢ – صفة صلاة النبي للألباني، ص: ٠٤٨

’’یقیناً میں ایک انسان ہوں، میری بات غلط بھی ہو سکتی ہے اور صحیح بھی ، لہٰذا میری رائے میں نظر دوڑاؤ ، اور جو بات تمہیں کتاب وسنت کے موافق لگے، اسے لے لو، اور جو کتاب وسنت کے مخالف ہوا سے ترک کرو۔‘‘

امام مالکؒ ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:

(ليس أحد بعد النبى ﷺ إلا ويؤخذ من قوله ويترك ، إلا النبى ﷺ .)

’’نبی کریم ﷺ سلام کے علاوہ ہر شخص کی بات قبول بھی کی جاسکتی ہے اور رد بھی کی جاسکتی ہے ، مگر امام الانبیاء ﷺ کی بات کو قبول ہی کیا جائے گا۔ رد نہیں کیا جا سکتا ۔‘‘

امام مالکؒ کے شاگرد عبد اللہ بن وہبؒ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مجلس میں سنا:

امام مالکؒ سے دوران وضوء پاؤں کی انگلیوں کے خلال سے متعلق سوال کیا گیا، تو انہوں نے جواب دیا کہ اہل مدینہ کا اس پر عمل نہیں ہے۔ عبداللہ بن وہب فرماتے ہیں:

میں نے امام مالک سے اس وقت بات نہ کی۔ جب لوگ چلے گئے تو میں نے آپ سے کہا:

ہمارے پاس اس مسئلہ میں ایک سنت ہے ۔ تو یہ سن کر انہوں نے کہا، وہ کیا ہے؟ تو میں نے لیث بن سعد اور عبد اللہ بن لھیعہ اور عمرو بن حارث اور یزید بن عمر و المعافری از ابو عبدالرحمٰن کے طریق سے سند بیان کی کہ صحابی رسول مستورد بن شداد القرشیؓ فرماتے ہیں:

((رأيت رسول الله ﷺ يدلك خنصره ما بين رجليه .فقال: ’’إن هذا الحديث حسن، وما سمعت به قط إلا الساعة ، ثم سمعته بعد ذلك يسأل، فيأمر بتخليل الاصابع .‘‘))

ارشاد السالك، لا بن عبدالهادي : ۲۲۷/۱ – صفة صلاة النبي ، ص : ٤٩۔

الجرح والتعديل لابن ابی حاتم : ۳۱/۰۱ ۳۲۔ امام مالک نے اسے ’’حسن‘‘ قرار دیا ہے۔

’’میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھ کی سب سے چھوٹی انگلی سے پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرتے تھے۔ تو امام مالکؒ نے فرمایا:

’’بے شک یہ حدیث حسن ہے، اور میں نے آج سے پہلے یہ حدیث نہیں سنی ۔‘‘

جناب عبداللہ بن وہب فرماتے ہیں:

’’پھر اس کے بعد جب بھی آپ سے یہ مسئلہ پوچھا گیا، تو میں نے انہیں انگلیوں کے خلال کرنے کا فتویٰ دیتے سنا۔‘‘

اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ امام مالکؒ حدیث رسول اللہ ﷺ سن کر اپنی بات پر ڈٹے نہیں رہتے تھے، بلکہ حدیث کے سامنے سرتسلیم خم کر کے اسے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتے تھے۔ پس ان سے تقلید شخصی کے جواز کا نظریہ محض باطل ہے۔ اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے ۔ اور یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ بڑے سے بڑے اہل علم سے بھی حدیث کی نص مخفی رہ سکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ائمہ اربعہ اپنی تقلید سے منع کیا کرتے تھے۔

مصور کھینچ وہ نقشہ جس میں یہ صفائی ہو
ادھر فرمان محمد ہو ادھر گردن جھکائی ہو

امام محمد بن ادریس شافعیؒ :

امام شافعیؒ فرماتے ہیں:

((أجمع المسلمون على من استبان له سنة عن رسول الله ﷺ لم يحل له أن يدعها لقول أحد .))
الايقاظ ص : ٦٨۔

’’مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس کسی کے لیے رسول مقبول ﷺ کی سنت واضح ہو جائے تو اس کے لیے حلال نہیں کہ اسے کسی کے قول کی وجہ سے چھوڑ دے۔‘‘

کیا جو لوگ ائمہ اربعہ کی تقلید کا دم بھرتے ہیں، امام شافعی کے اس قول کی روشنی میں اجتماع امت کا عملاً انکار کرتے نظر نہیں آتے :

((إذا وجدتم فى كتابي خلاف سنة رسول الله ﷺ فقولوا بسنة رسول الله ﷺ، ودعوا ما قلت .))
تاریخ مدينه دمشق: ٣٨٦/٥١۔

’’جب تم میری کتاب میں کوئی خلاف سنت بات دیکھو تو تم رسول کریم ﷺ کی سنت کو اختیار کرو، اور میری بات کو چھوڑ دو ۔‘‘

ایک اور روایت میں ہے کہ امام شافعی براللہ نے ارشاد فرمایا:

(( إذا وجدتم سنة فاتبعوها ولا تلتفتوا إلى قول أحد . ))
تاریخ مدينه دمشق : ٣٨٦/٥١- حلية اولياء: ٠١١٤/٩

’’جب تم کوئی سنت پاؤ تو اس کی پیروی کرو اور کسی کے بھی قول کی طرف نہ دیکھو۔‘‘

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:

((إذا صح الحديث فهو مذهبى . ))
المجموع شرح المذهب: ١٠٤/١۔

’’جب حدیث صحیح ثابت ہو جائے ، پس وہی میرا مذ ہب ہے۔‘‘

امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ امام شافعیؒ نے ایک دن مجھ سے کہا:

’’تمہارے پاس حدیث اور اسماء الرجال کا علم مجھ سے زیادہ ہے۔ پس جب بھی کوئی صحیح حدیث ملے تو مجھے بتاؤ، خواہ وہ حدیث کوفی ، بصری یا شامی ہو، تاکہ میں اسے اپنا مذہب قرار دوں ۔‘‘
تاريخ مدينه دمشق :٣٨٦/٥١ََ۔

اسی طرح امام شافعیؒ کا ایک اور عظیم الشان فرمان ہے کہ؛

’’جب میں کوئی صحیح حدیث بیان کروں اس پر عمل نہ کروں تو میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ اس وقت میری عقل زائل ہو چکی ہوگی ۔‘‘
تاريخ مدينة دمشق: ٣٨٦/٥١۔

امام شافعیؒ اتباع سنت کا بہت زیادہ اہتمام کرتے ، اور اپنی تقلید سے منع کرتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے:

’’میری کوئی بھی بات رسول اللہ ﷺ کی یمن کی صحیح حدیث کے خلاف ہو تو حدیث النبی ﷺ زیادہ لائق اتباع ہے ۔

((فلا تقلدوني .))

’’پس میری تقلید نہ کرنا‘‘
تاریخ مدينة دمشق: ٣٨٦/٥١- حلية الأولياء: ۱۱۳/۹۔

امام شافعیؒ کی حدیث سے بہت زیادہ محبت تھی ۔ امام اہل السنتہ احمد بن حنبلؒ فرماتے:

((ما رأيت أحدا أتبع للحديث من الشافعي .))
حلية أولياء : ٠١١٤/٩

’’میں نے امام شافعیؒ سے زیادہ متبع حدیث کسی کو بھی نہیں پایا۔‘‘

امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ امام شافعیؒ نے فرمایا:

((إذا اصح الحديث وقلت قولا فأنا راجع عن قولى وقائل بذلك .))
حلية الأولياء : ١٠٧/٩- إعلام الموقعين: ٣٦٣/٢ بمعناه.

’’میری جو بات صحیح حدیث کے خلاف ہو، میں اس سے رجوع کرتا ہوں ۔‘‘

اسی طرح حرملہ بن یحییٰ فرماتے ہیں کہ میں نے امام شافعیؒ کو یہ فرماتے سنا:

’’مجھے بغداد میں ناصر الحدیث کا لقب دیا گیا ہے ۔‘‘

یعنی حدیث کی مدد کرنے والا ۔
خلية اولياء: ٠١١٤/٩

قارئین کرام! ائمہ ثلاثہ یعنی مالک، شافعی اور احمدؒ اہل سنت اور اہل حدیث کے نام سے معروف تھے۔ اس پر یہ اقوال شاہد عدل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی قرآن و سنت فہم و عمل صحابہ کرامؓ اور ائمہ محدثین کے منہج پر اہل سنت والجماعت کے گروہوں میں سے صرف جماعت اہل حدیث ہی ہے جو کہ اس پر عمل پیرا ہے اور وہی محدثین کے صحیح معنوں میں وارث ہیں۔

امام احمد بن حنبلؒ :

کہتے ہیں ابوحنیفہ شافعی صحیح حدیث ہے مذہب ہمارا
ہے قول احمد مالک نہ کرو تقلید یہ ہے منہج ہمارا

امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں:

((من رد حديث رسول الله ﷺ فهو على شفا هلكة .))
صفة صلاة النبي ﷺ، ص: ٥٣.

’’جس نے بھی رسول اللہ ﷺ کی حدیث مبارک کو رد کیا تو وہ شخص ہلاکت کے دھانے پر ہے۔‘‘

اسی طرح امام احمد بن حنبلؒ اپنی تقلید سے منع کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

((لا تقلدني، ولا تقلد ما لكا ولا الشافعي ولا الأوزاعي ولا الثوري ، وخذ من حيث أخذوا .))
الايقاظ، ص: ۱۱۳۔

’’تم میری تقلید نہ کرنا، اسی طرح مالک، شافعی ، اوزاعی اور سفیان ثوریؒ کی تقلید نہ کرنا۔ بلکہ مسائل وہاں سے حاصل کرنا، جہاں سے ان ائمہ نے اخذ کیے ہیں۔ یعنی کتاب وسنت سے ۔‘‘

اسی طرح ایک اور جگہ فرماتے ہیں:

((لا تقلد دينك أحدا من هؤلاء، ما جاء عن النبى ﷺ وأصحابه، فخذ به، ثم التابعين مخيرا .))
مسائل الامام احمد لابی داؤد، ص: ٢٧٧،٢٧٦ بحواله صفة صلاة النبي، ص: ٥٣.

’’تم اپنے دین میں ان میں سے کسی کی تقلید نہ کرنا، جو نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرامؓ سے ثابت ہوا ہے اسے قبول کرو، رہے تابعین عظامؒ تو تمہیں ان کے اقوال کو قبول ورد کرنے کا اختیار ہے۔‘‘

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

((رأى الأوزاعي، ورأى مالك ، ورأى أبى حنيفة كله رأى ، وهو عندي سواء وإنما الحجة فى الآثار .))
جامع بيان العلم، لابن عبد البر : ١٤٩/٢۔

امام اوزاعی، امام مالک اور امام ابو حنیفہؒ کی رائے تو رائے ہی ہے۔ میرے نزدیک ان کا درجہ حجت نہ ہونے میں برابر ہے۔ دلیل و حجت تو صرف احادیث و آثار ہیں ۔

کیا ان اقوال ائمہ کے بعد ائمہ اربعہ پر یہ بہتان لگانا درست ہے کہ یہ عظیم ہستیاں اسلامی نماز میں طریقہ رسول اللہ ﷺ کو ترک کر کے اپنے اپنے طرز کی طرف بلاتے رہے ہوں گے؟

سبحان اللہ ! آج لوگ ان کی تقلید کو اتباع رسول مقبولؑ پر ترجیح دے رہے ہیں۔ اور امت مسلمہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیا ہے۔ لہٰذا یہ لوگ امت مسلمہ کے فراق، انتشار اور باہمی جنگ و جدال کے ذمہ دار ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت کی توفیق بخشے

گر نہیں تجھ میں جستجوئے حق کا ذوق و شوق
امتی کہلا کر پیغمبر کو تو رسوا نہ کر
ہے فقط توحید و سنت امن و راحت کا طریق
فتنہ جنگ و جدال تقلید سے پیدا نہ کر

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!