وقت نکاح طے شدہ شرائط کا پورا کرنا لائق تر ہے
فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال :

بوقت نکاح بیوی نے اگر خاوند سے یہ شرط رکھی کہ وہ شادی کے بعد اسے پڑھانے سے منع نہیں کرے گا اور اس شرط پر خاوند کی موافقت کے بعد عورت اس سے شادی پر راضی ہو گئی۔ کیا اس صورت میں کہ بیوی ملازمہ ہے، اس پر اپنے خاوند اور بچوں کا نان ونفقہ لازم ہے ؟ اور کیا خاوند بیوی کی رضامندی کے بغیر اس کی تنخواہ میں سے کچھ لینے کا مجاز ہے ؟ اور جب عورت دین دار ہو اور وہ موسیقی اور گانا بجانا سننا نہ چاہتی ہو لیکن خاوند اور اس کے گھر والے گانے سننے پر مصر ہوں اور یہ کہیں کہ گانے نہ سننے والا وسوسوں میں مبتلا کرتا ہے، تو کیا ان حالات میں عورت کو خاوند کے گھروالوں کے ساتھ رہنا چاہیئے ؟

جواب :

جب عورت نے نکاح کے لئے یہ شرط رکھی کہ مرد اسے تعلیم و تعلم سے نہیں روکے گا، اور اس نے یہ شرط قبول کرتے ہوئے شادی کر لی تو ایسی شرط صحیح ہے اور بیوی سے ہم بستری کر لینے کے بعد خاوند کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اسے اس سے روکے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
إن أحق الشروط أن يؤفى به ما استخللتم به الفروج [متفق عليه ]
” جن شروط کے نتیجے میں تم نے شرمگاہوں کو حلال سمجھا ان شرطوں کا پورا کرنا لائق تر ہے۔“
اگر خاوند شرط کے مطابق بیوی کو کام کرنے سے روکتا ہے تو عورت کو اس امر کا اختیار حاصل ہے کہ وہ اس کے پاس رہے یا شرعی عدالت سے فسخ نکاح کا مطالبہ کرے۔ جہاں تک خاوند اور اس کے گھر والوں کا موسیقی سننے سے تعلق ہے تو ان کے اس عمل سے نکاح فسخ نہیں ہو گا، عورت خیر خواہی کے پیش نظر ان لوگوں کو اس کی تحریم کےحکم سے آگاہ کرے اور خود ایسی منکرات سے کنارہ کش رہے۔
اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الدين النصيحة [صحيح مسلم ]
”دین خیر خواہی کا نام ہے۔ “
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من راي منكم منكرا فليغيره بيده فان لم يستطع فبلسانه، فان لم يستطع فبقلبه، وذلك أضعف الإيمان [صحيح مسلم ]
”تم میں سے جو شخص برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے ایسا کرے (یعنی دل میں برا سمجھے ) اور یہ کمزور ترین ایمان ہے۔ “
اس موضوع سے متعلق بہت سی آیات اور احادیث نبوی موجود ہیں۔
بیوی بچوں کے اخراجات کی ذمہ داری خاوند پر ہے، وہ بیوی کی مرضی کے بغیر اس کے مال سے کچھ بھی لینے کا اختیار نہیں رکھتا، جیسا کہ عورت بھی خاوند کی مرضی کے بغیر اس کے گھر سے اپنے والدین یا کسی اور کے گھر نہیں جا سکتی۔ والله ولي التوفيق

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے