تصنیف : عمرو بن عبدالمنعم (الشامی)، ترجمہ و تحقیق: حافظ زبیر علی زئی
وضو کی بدعات میں سےایک بدعت(سر اور کانوں کے مسح کے بعد ) گردن کا (الٹے ہاتھوں سے ) مسح کرنا (بھی) ہے۔بہت سے لوگ اس کام پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں اور اسے فرض یا سنت مؤکدہ سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ صرف ایک بری اور خود ساختہ بدعت ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
نبی کریم ﷺ سے، وضو میں گردن کا مسح ثابت نہیں ہے اور نہ اس بارے میں کوئی صحیح حدیث مروی ہے، بلکہ وضو کی صحیح احادیث میں گردن کے مسح کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ اسی لئے اسے جمہور علماء مثلاً (امام ) مالک ، شافعی اور احمد نےاپنے ظاہر مذہب میں مستحب نہیں کہا۔ جس نے اسے مستحب کہا ہے اس کی دلیل وہ اثر ہے جو (سیدنا) ابوہریرہؓ سے مروی ہے یا وہ ضعیف حدیث ہے جس میں (سرکے مسح کے ساتھ ) گردن تک مسح کا ذکر ہے۔ ایسی روایات پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔ جو (عمل صحیح) احادیث سے ثابت ہے اس کا معارضہ ایسی روایات سے کرنا صحیح نہیں ہے ۔ علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ جس نے وضو میں گردن کا مسح نہ کیا اس کا وضو بالاتفاق صحیح ہے ۔” (الفتاویٰ الکبریٰ ۵۶/۱)
ابن القیم "زاد المعاد” (۱۹۵/۱) میں لکھتے ہیں :”گردن کے مسح کے بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں ہے "۔
اور "المنار المنیف” (ص۱۲۰) میں فرماتے ہیں:”اور اسی طرح دورانِ وضو میں گردن کے مسح کی حدیث باطل ہے”۔
میں (عمرو بن عبدالمنعم) کہتا ہوں کہ (امام) نووی وغیرہ نے گردن کے مسح کو بدعت اور مسح والی حدیث کو موضوع قرار دیا ہے ۔ جو لوگ گردن کے مسح کے جواز کے قائل ہیں ان کا اعتماد، ابن عمرؓ سے مروی اس حدیث پر ہے جس میں آیا ہے کہ انھوں نے وضو کے دوران میں گردن پر مسح کیا اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ تَوَضَّأَ وَ مَسَحَ عُنُقَہُ، لَمْ یَغُلَّ بِالْأَغْلالِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ))
جس نے وضو کیا اور گردن کا مسح کیا، اسے قیامت کے دن طور نہیں پہنایا جائے گا۔
اسے ابو نعیم (اصبہانی) نے اپنی کتاب "اخبار اصبہان” (۱۱۵/۲) میں درج ذیل سند کے ساتھ روایت کیا ہے :
"حدثنا محمد بن أحمد بن محمد: حدثنا عبدالرحمٰن بن داود: حدثنا عثمان بن خرزاد: حدثنا عمرو بن محمد بن الحسن المکتب: حدثنا محمد بن عمرو بن عبید الأنصاري عن أنس بن سیرین عن ابن عمر بہ”
ابن عراق نے اپنی کتاب "تنزیہ الشریعۃ” (۷۵/۲) میں کہا:
"اس حدیث کا ایک راوی، ابو نعیم کا استاد ابوبکر المفید ہے ۔ اس کا وجود ہی اس روایت کے مردود ہونے کے لئے کافی ہے ۔”
میں (مصنف) کہتا ہوں کہ ابوبکر المفید (وضعِ حدیث کے ساتھ) متہم ہے جیساکہ میزان الاعتدال للذہبی (۴۶۱،۴۶۰/۳) اور لسان المیزان لابن حجر (۵۳/۵) میں لکھا ہوا ہے۔
(اس کا دوسرا راوی) محمد بن عمرو بن عبیدالانصاری ہے ، جسے یحییٰ القطان اور یحییٰ بن معین نے سخت ضعیف قرار دیا ہے ۔
ابن نمیر نے کہا :وہ کسی چیز کے برابر نہیں ہے ۔
اور المکتب غالباً وہ راوی ہے جس کے بارے میں امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں :”منکر الحدیث” یعنی وہ منکراحادیث بیان کرتا تھا۔ (تاریخ بغداد للخطیب ۲۰۴/۱۲ ، سنن الدارقطنی ۳۸/۱ ح ۸۴)
اس روایت کی ایک دوسری سند "”فلیح بن سلیمان عن نافع عن ابن عمر” مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ تَوَضَأَ وَ مَسَحَ بِیَدَیْہِ عَلیٰ عُنُقِہٖ وُقِيَ الْغُلَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ)) جس نے وضو کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنی گردن کا مسح کیا تو قیامت کے دن طوق (اور زنجیریں) پہنائے جانے سے بچ جائے گا۔
اسے الرویانی نے "البحر” میں ذکر کیا ہے جیسا کہ "التلخیص الحبیر” (۱۰۴/۱ ح ۹۸) میں لکھا ہوا ہے۔الرویانی نے ابوالحسین بن فارس کے (منسوب) جزء میں پڑھا ہے ۔ ابن فارس نے اپنی (نامعلوم) سند سے یہ حدیث فلیح سے بیان کی ہے ۔
حافظ ابن حجر نے کہا:”ابن فارس اور فلیح کے درمیان سند (ہمارے علم کے مطابق) موجود نہیں ہے جس کی تحقیق کی جائے ” (یعنی یہ روایت بلاسند ہے لہٰذا مردود ہے )
میں (مصنف) کہتا ہوں کہ فلیح کے حافظہ میں کمزوری ہے۔
راجح یہی ہے کہ فلیح بن سلیمان حسن الحدیث ہے۔ یاد رہے کہ وہ روایت مذکورہ سے بری الذمہ ہے۔ مترجم
اس روایت کو شوکانی نے "نیل الاوطار” (۲۴۶/۱) میں احمدبن عیسیٰ کی "امالی” اور "شرح التجرید” سے منسوب کیا ہے لیکن ان کی سند کا دارو مدار الحسین بن علوان عن ابی خالد الواسطی پر ہے ۔ روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں:
((مَنْ تَوَضَّأَ وَ مَسَحَ سَالِفَتَیْہِ وَقَفَاہُ أَمِنَ مِنَ الْغُلِّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ)) جس نے وضو کیا اور اپنی گردن کے دونوں طرف اور گدی کا مسح کیا تو وہ قیامت کے دن طوق سے بچ جائے گا۔
اس کا راوی الحسین بن علوان کذاب (ہے) اور احادیث گھڑنے والا ہے ۔ ابن معین اور نسائی نے اسے "کذاب” کہا۔ صالح جزرہ نے کہا: وہ حدیثیں گھڑتا تھا ۔ یہ قول صالح جزرہ سے باسند صحیح ثابت نہیں ہے / دیکھئے تاریخ بغداد ۶۳/۸ مترجم
ابو خالد الواسطی : عمرو بن خالد القرشی ہے ۔ اس کے بارے میں حافظ ابن حجر نے کہا :”متروک، ورماہ وکیع بالکذب”
یہ متروک ہے اسے وکیع نے کذاب کہا ہے ۔ (تقریب التہذیب ۶۹/۲ رقم : ۵۰۲۱)
(ایک اور روایت میں) نبی کریم ﷺ سے مروی ہے کہ "گردن کا مسح، طوق سے امان ہے ”
امام نووی ؒ نے کہا:
"یہ موضوع ہے ، نبی ﷺ کا کلام نہیں ہے ” (المجموع شرح المہذب ۴۸۹/۱)
حافظ ابن حجر "التلخیص” (۱۰۳/۱ح ۹۷) میں لکھتے ہیں:
"اس حدیث کو ابو محمد الجوینی (امام الحرمین) نے ذکر کرکے کہا ہے کہ محدثین کرام اس روایت کی سند سے راضی نہیں ہیں ، لہذا اس فعل کےبارے میں یہ تردد ہے کہ سنت ہے یا ادب؟
اس بات پر تعاقب کرتے ہوئے امام …..نے کہا:اس روایت کے حکم کے بارے میں کوئی تردد نہیں کہ یہ ضعیف ہے ۔ قاضی ابوالطیب نے کہا : اس بارے میں کوئی سنت ثابت نہیں ہے تقریباً یہی بات قاضی حسین اور الفورانی نے کہی ہے ۔ یہ حدیث جب غزالی نے "الوسیط” میں ذکر کی تو ابن الصلاح نے رد کرتے ہوئے کہا:
یہ حدیث نبی ﷺ سے (باسند صحیح یا حسن) معلوم نہیں ہے بلکہ یہ بعض علمائے سلف کا قول ہے ۔
"بعض علمائے سلف کے قول” سے ابن الصلاح کی مراد غالباً اس روایت سے ہے جسے ابوعبید (القاسم بن سلام) نے کتاب "الطہور” میں عبدالرحمٰن بن مہدی عن المسعودی عن القاسم بن عبدالرحمٰن عن موسیٰ بن طلحہ (کی سند) سے روایت کیا ہے :
((مَنْ مَسَحَ قَفَاہُ مَعَ رَأَسِہٖ وُقِيَ الْغُلَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ))جس نے سر کے ساتھ اپنی گدی کا مسح کیا، وہ قیامت کے دن طوق پہنائے جانے سے بچ جائے گا۔
میں (حافظ ابن حجر) نے کہا کہ اس کا احتمال ہے کہ اگرچہ یہ موقوف (بلکہ مقطوع) ہے لیکن اس کا حکم مرفوع حدیث کا حکم ہے کیونکہ ایسی بات کا تعلق رائے سے نہیں ہے ۔ لہذا یہ روایت مرسل ہے ۔
میں (مصنف) کہتا ہوں کہ یہ مقطوع روایت (امام ابوعبید کی کتاب) "الطہور” (۳۸۶) میں ہے ۔ (اس کی سند بھی ضعیف ہے کیونکہ) المسعودی کاحافظہ آخری عمر میں خراب ہوگیا تھا۔ ابن مہدی کا اس سے سماع آخری زمانے کا ہے (اور ) اس روایت میں اضطراب (بھی) ہے۔ ابوعبید نے حجاج سے اس نے قاسم بن عبدالرحمٰن سے اس کا قول بیان کیا ہے ۔ حجاج نے کہا :”مجھے اس روایت میں موسیٰ بن طلحہ کا نام یاد نہیں ہے ” لہذا اس قول کی سلف صالحین کی طرف نسبت صحیح نہیں ہے ۔
امام بیہقی نے "السنن الکبریٰ” (۶۰/۱) میں جو روایت "ابو اسرائیل عن فضیل بن عمرو عن مجاہد عن ابن عمر” کی سند سے بیان کی ہے کہ عبداللہ بن عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سر کے مسح کے ساتھ گدی کا مسح بھی کرتے تھے ، ثابت نہیں ہے ۔ کیونکہ اس کا راوی ابو اسرائیل اسماعیل بن خلیفہ الملائی ضعیف الحدیث ہے ۔یہ بدبخت (صحابہ کو ) گالیاں دیتا تھا (اور ) اللہﷻ اس کو رسوا کرے جو صحابہ کو گالیاں دیتا ہے ۔
امام بغویؒ کا خیال ہے کہ وضو میں گردن کا مسح مستحب ہے، (لیکن) ابن الرفعہ کہتے ہیں :”ان کے پاس، اس کے مستحب ہونے پر کوئی حدیث یا صحابی کا قول (تک) بھی نہیں ہے (اور) یہ ایسی بات ہے جس میں قیاس کا کوئی عمل دخل نہیں ہے” ابن الرفعہ پر تعاقب (رد) کرتے ہوئے حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
"ہوسکتا ہے گردن کے مسح کو مستحب کہنے میں ، بغوی کی دلیل وہ حدیث ہو جسے احمد بن حنبلؒ اور ابو داؤدؒ نے (لیث بن ابی سلیم عن) طلحہ بن مصرف عن ابیہ عن جدہ کی سند سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سر کا مسح کیا حتی کہ آپ گدی اور گردن تک جاپہنچے۔ (لیکن یاد رہے کہ) اس روایت کی سند ضعیف ہے ”
مؤلفِ کتاب کہتا ہے کہ اس کا راوی مصرف "مجہول ” ہے۔ (التقریب ۵۲۱/۲رقم: ۶۶۸۵) اور لیث بن ابی سلیم ضعیف ہے ۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ شوکانی کا "نیل الاوطار” (۲۴۶/۱) میں یہ قول :
"اس سےمعلوم ہوا کہ نووی کا قول: گردن کا مسح بدعت ہے اور اس کی حدیث موضوع ہے ، باطل ہے ”
بذاتِ خود باطل ہے کیونکہ اس سلسلہ کی تمام روایات (باطل یا) مردود ہیں۔ واللہ اعلم
]یاد رہے کہ ان ضعیف روایات کاتعلق سر اور کانوں کے مسح کے ساتھ، گردن پر مسح کرنے سے ہے ۔ رہا بعض لوگوں کا سر اور کانوں کے مسح کے بعد الٹے ہاتھوں سے گردن کا مسح کرنا تو اس پر کوئی ضعیف روایت بھی موجود نہیں ہے ۔ مترجم[
وضوکی خبیث ترین بدعت جرابوں پر مسح میں تنگی (اور انکار) ہے۔
بہت سے لوگ، طہارت اور وضو کے بعد، پہنی ہوئی جرابوں پر مسح کرنے میں (سخت) حرج (تنگی) محسوس کرتے ہیں حالانکہ بعض سلف صالحین کے نزدیک جرابیں موزوں کے قائم مقام ہیں۔
ہم نے اسے اس لئے خبیث ترین بدعت کہا ہے کیونکہ اس سے رسول اللہ ﷺ سے مروی ، اس صحیح حدیث کی مخالفت ہوتی ہے جس میں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے جرابوں پر مسح کیا تھا۔ اسی طرح اس (بدعت) سے جماعتِ صحابہ سے ثابت شدہ اس بات کی (بھی) مخالفت ہوتی ہے کہ وہ جرابوں کو موزوں کے قائم مقام سمجھتے اور ان پر مسح کرتے تھے۔ اب اس بات کی تفصیل سن لیں:
مغیرہ بن شعبہؓ سےصحیح ثابت ہے کہ نبی ﷺ نے وضو کیا اور جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا۔
ابوداؤد کتاب الطہارۃ باب المسح علی الجوربین ح ۱۵۹، اس میں سفیان ثوری مدلس ہیں اور عن سے روایت کرتے ہیں (لہذا یہ سند ضعیف ہے) لیکن یہ روایت اپنے شواہد کے ساتھ صحیح ہے ۔خاص طور پر جب اجماعِ صحابہ بھی اس کا مؤید ہے تو صحیح ہونے میں کیا شبہ رہ جاتا ہے ؟/ مترجم
یہ حدیث صحیح و ثابت ہے، اسے ابن حزم نے صحیح کہا۔ حافظ اسماعیلی نے فرمایا کہ اس کی سند بخاری کی شرط پر صحیح ہے لہذا امام بخاری کو یہ چاہئے تھا کہ صحیح بخاری میں درج کرتے ۔ (النکت الظراف لابن حجر ۴۹۳/۸)
حافظ ابن القیمؒ نے "زاد المعاد” (۱۹۹/۱) میں کہا:
"اور نبی کریم ﷺ نے جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا ہے ” یہ قول اس کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک مغیرہ بن شعبہ کی حدیث صحیح ہے ۔صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے (اس مسئلہ میں)آثار(بہت زیادہ ہیں)۔
ابن المنذر النیسابوری نے "الاوسط” (۴۶۴/۱) میں امام احمدؒ سے نقل کیا ہے :
"سات یا آٹھ صحابۂ کرام نے جرابوں پر مسح کیا ہے ۔”
ان جلیل القدر صحابۂ کرام میں سے بعض کی روایات درج ذیل ہیں:
۱: علی بن ابی طالب ؓ
عمرو بن حریث نے کہا :میں نے دیکھا، علیؓ نے پیشاب کیا پھر وضو کیا اور جرابوں پر مسح کیا، اسے ابن ابی شیبہ (۱۸۹/۱ ح ۱۹۸۶ و فی سندہ تصحیف) اور ابن المنذر (الاوسط ۴۶۲/۱) نے صحیح سند سے روایت کیا ہے۔
۲:البراء بن عازبؓ
مصنف عبدالرزاق (۷۷۸) مصنف ابن ابی شیبہ (۱۸۹/۱ ح ۱۹۸۴) الاوسط لابن المنذر (۴۶۳/۱) اور السنن الکبریٰ للبیہقی (۲۸۵/۱) میں "الأعمش عن إسما عیل بن رجاء عن رجاءبن ربیعۃ الزبیدی"کی سند سے مروی ہے کہ میں (رجاء) نے دیکھا، براءؓ نے وضو کیا اور جرابوں پر مسح کیا ۔ اس کی سند حسن ہے ۔ [الاعمش صرح بالسماع]
۳:انس بن مالکؓ
قتادہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک انسؓ جرابوں پر مسح کرتے تھے (ابن ابی شیبہ ۱۸۸/۱ ح ،الاوسط۴۶۲/۱، المعجم الکبیر للطبرانی ۲۴۴/۱) اس کی سند صحیح ہے (قتادہ مدلس ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں لہذا یہ روایت ضعیف ہے)
۴:ابو مسعودؓ
عبد الرزاق (۷۷۷) اور ابن المنذر نے "الأعمش عن إبراھیم عن ھمام بن الحارث عن أبي مسعود” کی سند سے روایت کیا ہے کہ ابو مسعود (عقبہ بن عمرو البدری الانصاری) رضی اللہ تعالیٰ عنہ جرابوں پر مسح کرتے تھے۔ اس کی سند صحیح ہے۔
]اس روایت کی سند اعمش کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن مصنف ابن ابی شیبہ ۱۸۹/۱ح ۱۹۸۷ میں اس کا صحیح شاہد ہے لہذا یہ روایت بھی اس شاہد کی وجہ سے صحیح لغیرہ ہے۔[
۵:ابوامامہ الباہلیؓ
ابن ابی شیبہ (۱۹۷۹ و سندہ حسن) اور ابن المنذر (۴۶۳/۱) نے حماد بن سلمہ عن ابی غالب والی حسن سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ میں (ابو غالب) نے ابو امامہ کو جرابوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
سیدنا سہل بن سعد الساعدیؓ نے جرابوں پر مسح کیا ۔ دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ ۱۸۹/۱ح ۱۹۹۰ و سندہ حسن
ابن ابی شیبہ (۱۹۰/۱ ح ۱۹۹۲) نے حسن سند کے ساتھ نافع مولیٰ ابن عمر سے اور صحیح سند کے ساتھ ابراہیم النخعی سے نقل کیاکہ جرابیں موزوں کے حکم میں ہیں ]ابراہیم نخعی والا قول تو نہیں ملا لیکن ابن ابی شیبہ ۱۸۸/۱ ح ۱۹۷۷ نے صحیح سند سے نقل کیا کہ ابراہیم (نخعی) جرابوں پر مسح کرتے تھے[ اور یہی قول احمد بن حنبل کا مذہب ہے اور اسے ہی ابن المنذر نے عطاء ، سعید بن المسیب ، ابراہیم النخعی، سعید بن جبیر ، الاعمش ، سفیان ثوری ، حسن بن صالح، ابن المبارک ، زفر بن الہذیل اور اسحاق بن راہویہ سے نقل کیاہے ۔ (۴۶۵/۱)
جرابوں اور موزوں پر مسح کی بدعات میں اور بھی بہت سی باتیں ہیں مثلاً
۱:ظاہر اور باطن (اوپر اور نیچے) مسح کرنا ۔
یہ بات نبی کریم ﷺ سے ثابت شدہ سنت کے خلاف ہے ۔
(حافظ ) ابن القیم فرماتے ہیں:
"آپﷺ موزوں کے اوپر مسح کرتے تھے، آپ سے صحیح سند کے ساتھ موزوں کے نیچے مسح کرنا ثابت نہیں ہے۔ اس بارے میں جو حدیث آئی ہے اس کی سند منقطع ہے اور یہ روایت صحیح احادیث کے مخالف بھی ہے ۔” (زاد المعاد ۱۹۹/۱)
یہی بات مغیرہؓ کی جرابوں پر مسح والی حدیث آئی ہے ۔
جریر بن عبداللہؓ کی (بیان کردہ) حدیث میں ہے : ((رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللہِﷺ بَالَ ثُمَّ تَوَضَّأَ وَ مَسَحَ عَلیٰ خُفَّیْہِ)) میں نے دیکھا۔ رسول اللہ ﷺ نے پیشاب کیا پھر وضو کیا اور اپنے موزوں کے اوپر مسح کیا۔
(صحیح البخاری کتاب الصلوٰۃ باب الصلوٰۃ فی الخفاف ح ۳۸۷ و صحیح مسلم، الطہارۃ باب المسح علی الخفین ح ۲۷۲)
"عَلیٰ” کا (ظاہر) مفہوم "اوپر” ہے لہذا اس حدیث سے جراب یا موزہ کے اوپر مسح کرنے کا ثبوت واضح ہوتا ہے۔ البتہ عبداللہ بن عمرؓ سے صحیح ثابت ہے کہ وہ (اپنے موزوں یا جرابوں پر ) اپنے دونوں ہاتھوں کے ساتھ، اوپر نیچے صرف ایک دفعہ مسح کرتے تھے (الاوسط لابن المنذر ۴۵۲/۱ ، اس کی سند صحیح ہے / اس میں عبدالرزاق راوی مدلس ہے اور سند عن سے ہے ۔بیہقی ۲۹۱/۱نے حسن سند کے ساتھ نقل کیا کہ عبداللہ بن عمرؓ موزے کے نیچے اور اوپر مسح کرتے تھے)
یہ عبداللہ بن عمرؓ کا اجتہاد ہے جو کہ نبی کریم ﷺ کی صحیح و ثابت سنت کے مخالف ہے اور غالباً یہ اس پر ہی محمول ہے کہ انھیں درج بالا حدیث نہیں پہنچی تھی۔ یہ مسئلہ عام لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ بعض ایسی احادیث ہیں جو بعض صحابہ کو اگر معلوم تھیں تو دوسروں کو ان کا علم ہی نہیں تھا ۔اس بات کا اچھی طرح سمجھ لیں۔
یہاں پر اس بات کا ذکر کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ بعض روایات میں یہ صراحتاً آیا ہے کہ نبی کریم ﷺ موزوں پر، نیچے کے بجائے (صرف) اوپر ہی مسح کرتے تھے لیکن یہ ساری روایات (بلحاظِ سند ) ضعیف ہے ۔ ہم انہیں یہاں دو وجہ سے ذکر کر رہے ہیں:
۱: ان کا ضعیف ہونا واضح کردیں۔
۲: کوئی یہ نہ کہہ دے کہ تم سے اس مقام پر ایسی صحیح احادیث رہ گئی جو تمہارے قول کی واضح دلیل ہیں ۔ توفیق دینا اللہ ہی کا فضل و کرم ہے۔
موزوں پرمسح کی احادیث (بلحاظ مسح) عام ہیں۔ نیچے یا اوپر مسح کی صراحت کے ساتھ صرف تین احادیث مروی ہیں:
۱:الفضل بن مبشر نے کہا :”میں نے دیکھا۔ جابر بن عبداللہ (الانصاریؓ) نے وضو کیا ۔آپ نے صرف ایک دفعہ ہی موزوں کے اوپر مسح کیا پھر (اس وضوکی حالت میں جتنی نمازیں آئیں) سازی نمازیں (بغیر نئے وضو کے ) پڑھیں اور فرمایا:
میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے اور میں اسی طرح کررہا ہوں جیساکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تھا ” (الاوسط لابن المنذر ۴۵۴/۱) یہ روایت مسح کے ذکر کے بغیر سنن ابن ماجہ (ح ۵۱۱) میں بھی موجود ہے ۔
اس روایت کا راوی فضل بن مبشر (محدثین کے نزدیک) حدیث میں ضعیف ہے ۔
۲:عبدالرحمٰن بن ابی الزناد نے اپنے والد سے انھوں نے عروہ بن الزبیر سے، انھوں نے مغیرہ بن شعبہؓ سے روایت کیا کہ میں نے دیکھا، نبی کریم ﷺ موزوں کے ظاہر پر (یعنی اوپر) مسح کررہے تھے۔
(سنن ابی داؤد: ۱۶۱ و سندہ حسن، سنن ترمذی : ۹۸و قال :”حدیث حسن”)
امام ترمذی نے کہا :”یہ روایت عبدالرحمٰن کے علاوہ کسی اور نے بیان نہیں کی ہے "یعنی اس کلام سے امام ترمذی نے عبدالرحمٰن کی زیادت کے منکر ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ بات وہی ہے جو امام ترمذی نے کہی ہے کیونکہ ابن ابی الزناد کے حافظہ میں (محدثین کا) کلام ہے لہذا ایسے راوی کی زیادت مذکورہ کو قبول نہیں کیا جائے گا ۔ محفوظ یہی ہے کہ مغیرہؓ کی حدیث میں ظاہر اور اوپر کے الفاظ نہیں ہیں۔
]تنبیہ: عبدالرحمٰن بن ابی الزناد کے بارے میں راجح یہی ہے کہ وہ سلیمان بن داود الہاشمی کی روایت میں صحیح الحدیث اور دوسرے شاگردوں کی روایت میں حسن الحدیث ہے دیکھئے میری کتاب "نور العینین” ص ۱۸۴،۱۸۳ اور سیر اعلام النبلاء ۱۶۹،۱۶۸/۸ لہذا ا س سند پر جرح صحیح نہیں ہے / مترجم[
۳:علیؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، آپ موزوں کے اوپر مسح کررہے تھے ۔
(سنن ابی داود ۱۶۴۔۱۶۲ واسانیدہ ضعیفۃ)
اس کا راوی ابو اسحاق السبیعی مدلس ہے اور عن سے روایت کررہا ہے ۔ (لہذا یہ سند ضعیف ہے )
مغیرہ بن شعبہؓ سے یہ (بھی) مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے موزے کے نیچے اور اوپر (دونوں جگہوں پر ) مسح کیا ہے ۔
(سنن ابی داود : ۱۶۵، سنن ترمذی: ۹۷، سنن ابن ماجہ : ۵۵۰، الاوسط بن المنذر ۴۵۴،۴۵۳/۱/ وسندہ ضعیف)
امام ترمذی نے کہا :”یہ حدیث معلول (یعنی ضعیف) ہے ۔ اسے ولید بن مسلم کے علاوہ کسی دوسرے نے ثور بن یزید سے مسنداً (سند سے ) روایت نہیں کیا۔ ابو زرعہ اور (امام ) بخاریؒ دونوں کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے کیونکہ یہی روایت عبداللہ بن المبارک نے ثور عن رجاء بن حیوۃ قال: حدثت عن کاتب المغیرۃ عن النبیﷺ مرسلاً بیان کی ہے ۔اس میں مغیرہ کاذکر نہیں کیا۔”
امام ابوداؤد نے اس حدیث (کے ضعیف ہونے کی) ایک اور علت (وجۂ ضعیف کی دلیل) بیان کی ہے :”مجھے معلوم ہوا کہ ثور نے یہ روایت رجاء بن حیوۃ سے نہیں سنی تھی۔”
ابن المنذر نے امام احمد بن حنبل سے نقل کیا کہ وہ اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے تھے۔
۲:موزوں یا جرابوں پر ایک سے زیادہ بار مسح کرنا۔
مسنون یہی ہے کہ موزوں پر ایک ہی دفعہ مسح کیا جائے۔ آپﷺ سے ، ایک سے زیادہ بار مسح کرنا ثابت نہیں ہے ۔ ابن عمرؓ سے یہ ثابت ہے کہ وہ ایک ہی دفعہ مسح کرتے تھے جیساکہ گزر چکا ہے(ص۵۶) یہ بھی یاد رکھیں کہ مسح، دھونے کے خلاف عمل ہے۔ دھونے سے خوب صفائی مقصود ہے جو مسح میں مطلوب نہیں ، اس لئے بار بارے ہونے کی طرح بار بار مسح کرنا صحیح نہیں ہے۔
۳:موزے یا جرابیں اتار کر (خوامخواہ) پاؤں کا دھونا۔
بعض لوگ اپنے آپ کو خود ساختہ مشقت میں مبتلا کرکے جہل مرکب کے مرتکب بن جاتے ہیں۔
(اصل کتاب "السنن و المبتدعات فی العبادات” میں ص ۲۲ ) پر صحیح حدیث گزر چکی ہے :”بے شک اللہ یہ (اسی طرح) پسند کرتا ہے کہ اس کی رخصتوں پر عمل کیا جائے جس طرح کہ وہ ناپسند کرتاہے کہ اس کی نافرمانی کی جائے۔”
(صحیح مسند احمد ۱۰۸/۲ صحیح ابن خزیمہ : ۹۵۰، صحیح ابن حبان ، الموارد :۵۴۵ و سندہ حسن و للحدیث شواہد کثیرۃ)
وہ عبادات جن میں دونوں صورتیں جائز ہوں (ان میں) بے معنی تکلفات سے منع کیا گیا ہے ۔ انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ((نُھِیْنَا عَنِ التَّکَلُّفِ)) ہمیں تکلف سے منع کیا گیا ہے ۔
(صحیح بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب و السنۃ باب مایکرہ من کثرۃ السوال ح ۷۲۹۳)
ابن القیم نے "زاد المعاد” (۱۹۹/۱) میں کہا : "نبی کریم ﷺ (جرابوں اور موزوں وغیرہ میں) اپنے حال کے خلاف بے جا تکلف نہیں کرتے تھے ۔ اگر آپ کے پاؤں میں موزے ہوتے تو اتارنے کے بغیر ہی ان پر مسح کرلیتے اور اگر آپ کے پاؤں ننگے ہوتے تو انہیں دھو لیتے۔ اس مسئلہ میں مسح افضل یا دھونا؟ (تو اس میں ) یہی قول سب سے زیادہ راجح ہے کہ اگر پاؤں ننگے ہوں تو دھو لے اور اگر موزے یا جرابیں ہوں تو مسح کرلے۔ یہی بات ہمارے استاد (امام ابن تیمیہ) نے فرمائی ہے۔”
میرے ساتھ طالب علمی کے ابتدائی زمانہ میں ایک عجیب حادثہ رونما ہوا۔ میں بری (خشکی کے) راستے سے اپنے (دینی ) بھائیوں کے ساتھ، کویت سے عمرہ ادا کرنے کے لئے چلا تھا۔ اتنی شدید سردی تھی کہ درجۂ حرارت صفر سینٹی گریڈ تک گر جاتا تھا۔ میں نے ایک اعلان کرنے والے کو یہ منادی کرتے ہوئے سنا:”اپنی جرابیں اتار دو اور عزیمت پر عمل کرتے ہوئے اپنے پاؤں دھو لو” ۔ مجھے تعجب ہوا کہ شیطان نے کس طرح اس کمزور اور فاسد رائے کو اس شخص کے دل میں ڈال رکھا ہے ، جس کی بنا پر وہ اسے رسول اللہ ﷺ کی سنت پر بھی مقدم کررہا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ دوسروں کو اس کی دعوت بھی دے رہا ہے۔ جن بے چاروں کو ان مسائل کا کوئی علم نہیں ان کے نزدیک رخصت اور عزیمت میں کوئی فرق نہیں ۔ لوگوں کے اس طرزِ عمل کی شکایت، ہم اللہ ہی سے کرتے ہیں۔
۴:پھٹی ہوئی جراب یا موزے پر مسح نہ کرنا۔
(لوگوں کا ) یہ طرزِ عمل سلف صالحین اور محقق علماء کے خلاف ہے۔
سفیان ثوری فرماتے ہیں:
"اس وقت تک مسح کرتے رہو جب تک وہ (موزے) تیرے پاؤں سے لٹکے رہیں، کیا تجھے معلوم نہیں کہ مہاجرین اور انصار کے موزے پھٹے ہوئے ہی ہوتے تھے "؟ (مصنف عبدالرزاق ج ۱ ص ۱۹۴ ح ۷۵۳، البیہقی: ۲۸۳/۱)
اسی بات کو شیخ الاسلام (ابن تیمیہؒ) نے اختیار کیا ہے ۔ فرماتے ہیں:
"دو اقوال میں سے ایک قول یہ ہے کہ لفافوں پر مسح جائز ہے اسے ابن القیم وغیرہ نے ذکر کیا ہے اور پھٹے ہوئے موزے پر اس وقت تک مسح جائز ہے جن تک اسے موزہ کہا جائے اور اس میں چلنا ممکن ہو۔ امام شافعی کا یہی قدیم فتویٰ ہے ۔ ابوالبرکات وغیرہ علماء نے بھی اسے ہی اختیار کیا ہے ” (الاختیارات العلمیۃ ۳۹۰/۴)
وضو کی بدعات میں سے بعض طالبعلموں کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وضو کے بعد جسم (اعضائے وضو) کو خشک نہ کرنا مسنون ہے۔
بعض طالب علم اس سلسلے میں ابن القیمؒ کے قول کو بطورِ دلیل پیش کرتے ہیں :”نبی کریم ﷺ وضو کے بعد اپنے اعضائے وضو کو خشک نہیں کرتے تھے، اس بارے میں کوئی حدیث بھی صحیح نہیں ہے بلکہ اس کے خلاف ثابت ہے ” (زاد المعاد ۱۹۵/۱)
میں (مصنف) کہتاہوں کہ (یہ تسلیم ہے کہ ) امام ابن القیم بہت بڑے محقق امام تھے لیکن اصول یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سوا ہر شخص کی بات قبول بھی ہوسکتی ہے اور رد بھی۔
محققین کے نزدیک حافظ ابن القیم کا قولِ مذکور پیش نظر ہے ۔ اس لئے کہ سلمان فارسیؓ سے اس فعل کا جواز مروی ہے جسے ابن ماجہ (۳۵۶۴،۴۶۸) نے محفوظ بن علقمہ عن سلمان (الفارسی) رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سند سے روایت کیا ہے :
"رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا ۔ آپ نے اپنا اونی حبہ الٹا کیا پھر اس کے ساتھ اپنا چہرہ (مبارک صاف کیا) پونچھ لیا۔”
بوصیری نے "مصباح الزجاجۃ” (۱۲۰/۱) میں لکھا ہے:
"اس کی سند صحیح ہے ۔ اس کے (تمام) راوی ثقہ ہیں (لیکن ) محفوظ کے سلمان سے سماع میں نظر ہے ”
حالانکہ میرے علم کے مطابق کسی نے بھی محفوظ کی سلمانؓ سے روایت کو منقطع نہیں کہا سوائے امام مزی کے ، انہوں نے "تھذیب الکمال” میں لکھا ہے :”یہ کہا جاتا ہے کہ محفوظ کی سلمان (فارسی) سے روایت مرسل ہے” مزی نے یہ بات صیغۂِ تمریض سے کہی ہے گو یا ان کے نزدیک (بھی) یہ قول ثابت نہیں ہے ۔ کیونکہ اس قول پر کوئی دلیل ہے ہی نہیں اور نہ کسی فنِ حدیث کے امام نے ایسا کلام کیا ہے ۔
[چونکہ محفوظ کی سلمانؓ سے ملاقات ثابت نہیں ہے لہذا مترجم کی تحقیق میں یہ روایت ضعیف ہے ۔ واللہ اعلم]
اس کے جواز پر دیگر احادیث بھی ہیں مگر ان میں سے ایک حدیث بھی ثابت نہیں ہے ۔
امام ترمذی فرماتے ہیں :”نبی ﷺ سے اس باب میں کوئی چیز بھی ثابت نہیں ہے ” (سنن الترمذی :ح۵۳)
ترمذی کا یہ بیان اگر انقطاع کی وجہ سے ہے تو فبہا ورنہ قابلِ سماعت نہیں ہے ۔
رہا ابن القیم کا یہ قول کہ "بلکہ اس کے خلاف ثابت ہے” تو اس کا اشارہ اس حدیث کی طرف ہے کہ میمونہؓ نے فرمایا:”(وضو کے بعد) نبی کریم ﷺ کے پاس رومال لایا گیا تو آپ نے اسے ہاتھ نہیں لگایا ، اور اپنے ہاتھوں سے وضو کا پانی جھاڑتے رہے” (صحیح بخاری کتاب الغسل باب نفض الیدین عن الغسل عن الجنابۃ ح ۲۷۶، وغیرہ و صحیح مسلم کتاب الحیض باب صفۃ غسل الجنابۃ ح ۳۱۷)
حالانکہ اس حدیث کا تعلق غسل کے ساتھ ہے وضو کے ساتھ نہیں اور اگر وضو سے بھی ہوتا تو یہ ممانعت کی دلیل نہیں ہے ۔ حافظ ابن المنذر فرماتے ہیں :”یہ حدیث ممانعت کی دلیل نہیں ہے کیونکہ آپ نے اعضائے وضو پونچھنے سے منع نہیں کیا۔ آپ بعض اوقات ایسے مباح کام چھوڑ دیتے تھے جن سے امت کی مشقت کاڈر ہوتا۔” (الاوسط ۴۱۹/۱)
ابن المنذر کا یہ کتنا بہترین کلام ہے۔ تقریباً اسی جیساکلام امام احمدؒ سے ثابت ہے ۔ عبداللہ بن احمد بن حنبلؒ کہتے ہیں :”میں نے اپنے ابا سے پوچھا کہ کیا وضو کے بعد رومال (اور تولیا وغیرہ) استعمال کرسکتے ہیں؟” فرمایا :جی ہاں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ میں نے کہا :میمونہؓ والی حدیث (کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے) ؟ تو فرمایا: یہ روایت ممانعت پر واضح (دلیل) نہیں ہے۔”
عبداللہ کہتے ہیں :”میں نے کئی دفعہ دیکھا ہے کہ میرے اباجان (یعنی امام احمد بن حنبلؒ) وضو کے بعد رومال یا کپڑے سے اپنے اعضاء خشک کرتے تھے ۔” (مسائل عبداللہ : ۱۰۵)
اس بارے میں انسؓ سے حسن سند کے ساتھ ثابت ہے کہ وہ وضو کے بعد رومال کے ساتھ اپنا چہرہ پونچھتے تھے۔
(الاوسط لابن المنذر ۴۱۵/۱ و سندہ حسن)
بعض علماء کرام نے اسے جو مکروہ کہا ہے اس پر (ان کے پاس ) کوئی دلیل نہیں ہے۔ سلمان فارسیؓ کی مرفوع حدیث اور انسؓ کا عمل اس کے جواز کی دلیل ہے۔
۵: وضو کے پانی میں اسراف
یہ پرانی بدعت ہے جس میں صرف وہی لوگ بچتے ہیں جن پر اللہ کا (خاص) رحم (و کرم) ہوتا ہے ۔ یاد رہے کہ وضو (اور تمام عبادات) کے بارے میں نبی کریم ﷺ کا طریقہ ہی بہترین اور کامل طریقہ ہے ۔ آپﷺ وضو کے پانی میں مکمل کفایت شعاری سے کام لیتے تھے۔ ایک مد یا اس سے کچھ کم سے وضو فرماتے تھے۔
سفینہؓ سے روایت ہے :”رسول اللہ ﷺ ایک صاع (تقریباً ڈھائی کلوپانی) کے ساتھ غسل جنابت اور ایک مد (تقریباً چوتھائی صاع) سے وضو کرتے تھے۔ (صحیح بخاری، کتاب الوضوء بالمدح ۲۰۱ صحیح مسلم ، الطہارۃ باب القدر المستحب من الماء فی غسل الجنابۃ ح ۳۲۵)
ام عمارہ الانصاریہؓ فرماتی ہیں کہ”نبی ﷺ نے وضو کیا۔ آپ کے پاس پانی کا جو برتن تھا اس میں تقریباً دو تہائی مد پانی تھا” مد اتنا ہوتا ہے کہ اس سے آدمی کی دونوں ہتھیلیاں بھر جائیں ۔ بتائیں، ہمارے زمانے میں ایساکون شخص ہے جو اتنے پانی سے وضو کرتا ہو؟
امام احمدؒ (کیا خوب) فرماتے ہیں:”انسان کے کم عقل ہونے کی یہ دلیل ہے کہ وہ وضو میں بہت زیادہ پانی استعمال کرتا ہے ” امام احمد کے شاگرد، المیمونی نے کہا:”میں وضو میں بہت زیادہ پانی استعمال کرتا تھا تو امام احمدؒ نے مجھے (بطورِ انکار) کہا: کیا تو ایسا طرزِعمل روا رکھتا ہے ؟یعنی وسوسوں میں مبتلا ہے ؟ تو میں نے یہ طرزِ عمل چھوڑ دیا ۔” (اغاثۃ اللہفان لابن القیم ۱۶۱/۱ دوسرا نسخہ ۱۴۲،۱۴۱/۱ اس قول کی سند معلوم نہیں ہے )