وجودی لایعنیت اور یقین کی فلسفیانہ حقیقت
تحریر: ڈاکٹر خالد ولی اللہ بلغاری

زندگی کی بے رنگی اور وجودی پژمردگی

زندگی کی لایعنیت ایک ایسی کیفیت ہے جس کا سامنا زیادہ تر افراد کو ہوتا ہے، مگر شدت اور دورانیہ مختلف ہوسکتا ہے۔
یہ کیفیت عام طور پر "وجودی بحران” یا "ایگزیسٹینشل کرائسس” کے نام سے جانی جاتی ہے۔
زندگی کے رنگ مدھم پڑ جاتے ہیں، ہر چیز بے کیف اور مردہ سی لگتی ہے۔
خاص طور پر فلسفیانہ ذہن رکھنے والے افراد اس کیفیت کو "وجودی لایعنیت” سے تعبیر کرتے ہیں۔

وجودی بحران کا فلسفیانہ پہلو

فلسفیانہ اداسی عموماً ان ذہنوں میں جنم لیتی ہے جو مسلسل سوالات اٹھاتے ہیں اور اُن کے ناکافی جوابات سے مطمئن نہیں ہوتے۔
فلاسفہ اسے ایگزیسٹینشل کرائسس کے بھاری بھرکم ناموں سے نوازتے ہیں۔
بعض اوقات یہ نام خود کو غیر فلسفیانہ افراد سے ممتاز کرنے کا ایک ذریعہ بھی بن جاتے ہیں۔

طبّی نفسیات کا مؤقف

نفسیات کے مطابق اگر ایک فرد شدید اداسی کے باوجود اپنی بنیادی ذمہ داریاں پوری کرتا رہے تو اسے بیماری کے زمرے میں شامل نہیں کیا جاتا۔
تاہم، جب یہ کیفیت اتنی شدت اختیار کرلے کہ وہ اپنی بنیادی ضروریات بھی پوری نہ کر پائے، تو علاج ناگزیر ہو جاتا ہے۔

وجودی اداسی کا حسیاتی پہلو

سوال یہ ہے کہ کیا جانور بھی وجودی اداسی کا شکار ہوسکتے ہیں؟ اس کا سائنسی طور پر جواب دینا مشکل ہے۔
مزید برآں، انسانوں کے متعلق بھی سوال اٹھتا ہے کہ کب اور کس بنیاد پر ان کی کیفیت کو بیماری یا وجودی بحران کہا جائے۔

وجودی لایعنیت کے اسباب

فلسفیانہ اصولوں کا بودا پن

وجودی اداسی اُس وقت شدت اختیار کرلیتی ہے جب سوالات کے نہ ختم ہونے والے سلسلے سے بیزاری پیدا ہو۔
ہر اصول کے پیچھے ایک نیا اصول تلاش کرنا، اور اس کی بنیاد پر بھی سوالات اٹھانا، ایک بے معنی چکر کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔

جدید انسان اور لایعنیت

جدید انسان، جو اکثر جان بوجھ کر اس لایعنیت کو اپناتا ہے، عمل اور مقصد سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔
اس کے نزدیک تمام اصول اور ضوابط مصنوعی اور عارضی ہیں۔
ایسے افراد کہتے ہیں کہ "زندگی کے تمام اصول بے بنیاد ہیں، تو کیوں نہ بس یونہی جیا جائے؟”

یقین: فلسفیانہ اداسی کا ممکنہ حل

یقین کی بنیاد

فلسفیانہ بحثوں میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسانی عقل اپنی پہلی حرکت یقین کے بغیر نہیں کرسکتی۔
زمان و مکان، علت و معلول جیسے اصولوں کو عقل بغیر کسی ثبوت کے مانتی ہے۔
یہ "قبل تجربی اصول” عقل کی بنیادی ساخت میں شامل ہیں۔

یقین کی ناگزیریت

عقل اپنی بنیاد یقین پر استوار کرتی ہے، لیکن حیرت یہ ہے کہ وہی عقل یقین کو کمتر سمجھتی ہے۔
یہ تضاد فلاسفہ کے رویوں میں نظر آتا ہے، جو یقین کے بغیر بھی اپنی دلیل کو مکمل سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

لایعنیت کے دو راستے

غفلت کا راستہ

  • سوالات سے فرار حاصل کرکے عارضی تسکین کی تلاش۔
  • انٹرٹینمنٹ، مادی اشیاء، یا نشے کا سہارا لینا۔
  • یہ طریقہ وقتی طور پر راحت دیتا ہے مگر لایعنیت کی شدت کو بڑھاتا ہے۔

سوالات کا سامنا

  • فلسفیانہ سوالات کے جواب تلاش کرنا۔
  • یقین کی بنیاد پر نئے بامعنی سوالات دریافت کرنا۔
  • یقین کی حقیقت اور اس کی اہمیت پر غور و فکر کرنا۔

خلاصہ اور نتیجہ

وجودی لایعنیت کا فلسفیانہ علاج یقین کی ناگزیریت کو تسلیم کرنا ہے۔
عقل خود یقین پر انحصار کرتی ہے اور یقین کو رد کرکے انسان کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا۔
فلاسفہ اور جدید انسان کو چاہیے کہ یقین کو ایک بامعنی سوال کے طور پر لیں اور اس کے ذریعے اپنی زندگی کی معنویت تلاش کریں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1