سوال
اگر کسی نے وتر نماز رات کے پہلے حصے میں پڑھ لی ہو اور پھر رات کے آخری حصے میں جاگ جائے، تو کیا وہ نفل نماز پڑھ سکتا ہے؟ کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ رات کی آخری نماز وتر ہونی چاہیے، اور ایک اور حدیث ہے: "لا وتران فی لیلۃ” (ایک رات میں دو وتر نہیں)۔
جواب از فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ , فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ
وتر نماز کے بعد نوافل پڑھنے کی اجازت ہے، اس لیے اگر کسی نے رات کے پہلے حصے میں وتر پڑھ لیا ہو، تو وہ رات کے آخری حصے میں نفل نماز ادا کر سکتا ہے۔
افضلیت کا اصول:
افضل یہ ہے کہ وتر نماز کو رات کی آخری نماز بنایا جائے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اجْعَلُوا آخِرَ صَلَاتِكُمْ بِاللَّيْلِ وِتْرًا”
[صحیح البخاری: 998]
’’وتر رات کی تمام نمازوں کے بعد پڑھا کرو۔‘‘
لیکن یہ حکم استحباب اور افضلیت کے لیے ہے، نہ کہ وجوب کے لیے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود وتر کے بعد بھی نفل نماز ادا کیا کرتے تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت:
ابو سلمہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے فرمایا:
"كَانَ يُصَلِّي ثَلاَثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً يُصَلِّي ثَمَانَ رَكَعَاتٍ ثُمَّ يُوتِرُ ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ”
[صحیح مسلم: 738]
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ رکعات پڑھتے تھے۔ آٹھ رکعتیں نفل پڑھتے، پھر وتر ادا کرتے، اس کے بعد بیٹھ کر دو رکعتیں پڑھتے۔‘‘
حکم اور عمل
- وتر کو آخری نماز بنانا افضل ہے: یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور بہترین عمل ہے۔
- وتر کے بعد نوافل کی اجازت: اگر کوئی وتر کے بعد نوافل پڑھنا چاہے تو یہ جائز ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی وتر کے بعد نوافل پڑھنے کا عمل ثابت ہے۔
- "لا وتران فی لیلۃ” کا مفہوم: اس حدیث کا مطلب ہے کہ ایک رات میں دو مرتبہ وتر نہیں پڑھے جا سکتے، لیکن وتر کے بعد نفل نماز ادا کرنے میں کوئی ممانعت نہیں۔
نتیجہ
- وتر نماز کو رات کی آخری نماز بنانا افضل ہے۔
- اگر کسی نے وتر پہلے پڑھ لیا ہو تو وہ رات کے آخری حصے میں نوافل پڑھ سکتا ہے۔
- ایک رات میں دوبارہ وتر نہیں پڑھے جائیں گے۔