وبا میں اذان
وبا کی صورت میں اجتماعی اذان کا کوئی ثبوت نہیں۔ صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مسلمین کی زندگیوں میں اس کا ذکر نہیں، لہذا یہ بدعت ہے۔
❀ سیدنا انس بن مالکؓ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إِذَا أُذْنَ فِي قَرْيَةٍ أَمَّنَهَا اللَّهُ مِنْ عَذَابِهِ ذَلِكَ الْيَوْمَ.
جب کسی بستی میں اذان کہی جاتی ہے، تو اللہ تعالی اس روز اسے اپنے عذاب سے محفوظ رکھتا ہے ۔
(المعجم الكبير للطبراني :257/1)
سند سخت ضعیف ہے۔
➊عبدالرحمن بن سعد بن عمار ”ضعیف“ ہے۔
◈ امام بخاریؒ فرماتے ہیں:
لَمْ يَصِحَ حَدِيثة
’’اس کی حدیث ثابت نہیں۔“
(التاريخ الكبير : 504/6)
◈ امام یحیی بن معینؒ نے ”ضعیف“ کہا ہے۔
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم : 238/5 ، وسنده صحيح)
◈ حافظ ذہبیؒ (دیوان الضعفاء : ۲۴۴۷) نے ’’منکر الحدیث‘‘ اور حافظ ابن حجرؒ (التقریب :۳۸۷۳، الشخیص :۱۷۶/۲) نے ”ضعیف“ کہا ہے۔
➋بکر بن محمد قرشی کے حالات زندگی نہیں ملے۔
➌صالح بن شعیب کی معتبر توثیق معلوم نہیں ہوسکی۔
اس سے مراد فرض نماز والی اذان ہے ، نہ کہ آفت کی وجہ سے بے وقت دی گئی اذان۔
❀ سیدنا معقل بن یسارؓ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
أَيُّمَا قَوْمٍ نُودِيَ فِيهِمْ بِالْأَذَانِ صَبَاحًا إِلَّا كَانُوا فِي أَمَانِ اللَّهِ حَتَّى يُمْسُوا، وَأَيُّمَا قَوْمٍ نُودِيَ عَلَيْهِمْ بِالْأَذَانِ مَسَاءً إِلَّا كَانُوا فِي أَمَانِ اللَّهِ حَتَّى يُصْبِحُوا.
’’جس قوم میں صبح اذان دی جائے ، وہ شام تک اللہ تعالیٰ کے حفظ وامان میں رہتی ہے اور جس قوم میں شام کو اذان دی جائے ، وہ صبح تک اللہ تعالیٰ کے حفظ وامان میں رہتی ہے۔‘‘
(المعجم الكبير للطبراني : 215/20)
سند سخت ضعیف ہے۔
➊اغلب بن تمیم بصری’’منکر الحدیث ، ضعیف‘‘ ہے۔
◈ اسے امام بخاریؒ (التاریخ الکبیر: ۲/۷۰) نے ’’منکر الحدیث‘‘ کہا ہے۔
◈ امام یحیی بن معینؒ فرماتے ہیں:
لَيْسَ بِشَيْءٍ.
’’یہ کچھ نہیں ہے۔“
(تاريخ ابن معين برواية الدوري : 4571،3513)
◈ امام ابن حبانؓ (کتاب المجر وحین : ۱۰۹) نے ’’منکر الحدیث‘‘ کہا ہے۔
➋داود بن بکر تستری کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔
➌حبان بن اغلب کو امام ابو حاتمؒ نے ”ضعیف الحدیث“ کہا ہے۔
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم : 271/3)
❀ سیدنا ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
نَزَلَ آدَمُ بِالْهِنْدِ فَاسْتَوْحَشَ، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ فَنَادَى بِالْأَذَانِ اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أن لا إلهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللهِ، فَقَالَ لَهُ : وَمَنْ مُحَمَّدٌ هَذَا؟ فَقَالَ : هَذَا آخِرُ وَلَدِكَ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ.
آدمؑ( جنت سے ) ہندوستان میں اترے اور وحشت زدہ ہوگئے ، پھر جبریلؑ اترے اور اذان کہی : اللهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إلَّا اللهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا تو آدمؑ نے کہا، محمد ﷺ کون ہیں؟ جبریل نے کہا : آپ کی اولاد میں سے آخری نبی ہیں۔
(حلية الأولياء لأبي نعيم : 107/5 ، تاريخ دمشق لابن عساكر : 437/7)
روایت ”ضعیف“ ہے۔
◈ حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
فِيهِ مَجَاهِيْلُ.
” اس میں کئی مجہول ہیں۔“
(فتح الباري : 79/2)
➋علی بن بہرام بن یزید کوفی کی توثیق نہیں مل سکی۔
◈ حافظ ہیثمیؒ لکھتے ہیں :
لَمْ أَعْرِفْهُ
’’میں اسے نہیں پہچانتا۔‘‘
(مجمع الزوائد : 87/8)
➌اس روایت میں وبا کے وقت اذان کا اشارہ تک نہیں۔
❀ سیدنا علیؓ بیان کرتے ہیں :
رَآنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَزِيْنًا، فَقَالَ : يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ إِنِّي أَرَاكَ حَزِيْنًا، فَمُرْ بَعْضَ أَهْلِكَ يُؤَذِّنُ فِي أُذُنِكَ، فَإِنَّهُ دَرْءُ الهم.
’’مجھے نبی کریم ﷺ نے غمگین دیکھا تو فرمایا : ابوطالب کے بیٹے ! میں آپ کو غمگین دیکھتا ہوں، اپنے کسی گھر والے کو حکم دیں کہ وہ آپ کے کان میں اذان کہے، کیونکہ اذان غموں کا مداوا ہے۔“
(الغرائب الملتقطة لابن حَجَر : 119/8 ، مناقب علي لابن الجزري، ص 36)
جھوٹی روایت ہے۔
➊ابو عبد الرحمن محمد بن حسین سلمی متہم ہے۔
➋عبداللہ بن موسیٰ بن حسن سلامی کے بارے میں خطیب بغدادیؒ فرماتے ہیں :
فِي رِوَايَاتِهِ غَرَائِبٌ وَمَنَاكِيْرُ وَعَجَائِبٌ.
’’اس کی مرویات غریب، منکر اور تعجب خیز ہیں۔“
(تاریخ بغداد : 383/11)
◈نیز لکھتے ہیں :
كَانَ صَحِيْحَ السَّمَاعَاتِ، إِلَّا أَنَّهُ كَتَبَ عَمَّنْ دَبَّ وَدَرَجَ مِنَ الْمَجْهُولِينَ وَأَصْحَابِ الرِّوَايَا، قَالَ : وَكَانَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ بْن مَنْدَةَ الْأَصْبَهَانِيُّ الْحَافِظُ سَيِّءُ الرَّأْيِ فِيهِ، وَمَا أَرَاهُ كَانَ يَتَعَمَّدُ الْكَذِبَ فِي فَضْلِهِ .
’’اس کی سماعات صحیح ہیں مگر مجہولین اور گوشہ نشینوں میں سے جو ہاتھ چڑھتا، اس سے بیان کر دیتا تھا، حافظ ابو عبد اللہ بن مندہ اصبہانیؒ اسے برا سمجھتے تھے، کہتے کہ یہ فضیلت میں جان بوجھ کر جھوٹ بولتا تھا۔“
(تاریخ بغداد : 383/11)
◈ حافظ ذہبیؒ لکھتے ہیں :
رَوَى حَدِيثًا مَا لَهُ أَصْلٌ.
”اس نے ایک بے سند روایت بیان کی ہے۔“
(میزان الاعتدال : 508/2)
➌فضل بن عباس یا ’’عیاش‘‘ کوفی کون ہے؟
➍حفص بن غیاث’’مدلس‘‘ ہیں۔
اس میں وبا کے وقت اذان کا ذکر نہیں۔
❀ سیدنا ابو امامہ باہلیؓ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَا مِنْ قَوْمٍ يُؤَذِّنُونَ لِصَلَاةِ الْغَدَاةِ إِلَّا أَمِنُوا الْعَذَابَ إِلَى اللَّيْلِ، وَمَا مِنْ قَوْمٍ يُؤَذِّنُونَ لِصَلَاةِ الْمَغْرِبِ إِلَّا أَمِنُوا الْعَذَابَ إِلَى الصُّبْحِ.
’’جس قوم میں فجر کی اذان کہی جائے ، وہ رات تک عذاب سے محفوظ رہتی ہے اور جس قوم میں مغرب کی اذان کہی جائے ، وہ صبح تک عذاب سے بچی رہتی ہے۔“
(أمالي ابن بشران : 408)
روایت باطل ہے۔
➊سلیمان بن عمرو سے مراد اگر ابو داود نخعی ہے، تو بالا جماع کذاب ہے۔
➋ابو سہل کا تعین و توثیق معلوم نہیں ہو سکی۔
➌نصر بن حریش صامت ضعیف ہے ۔
➍محمد بن حماد بن مابان بھی قوی نہیں۔
عطاء بن یسار ہلالی کا سیدنا ابوامامہ باہلیؓ سے سماع معلوم نہیں ہوسکا۔
اس روایت میں بے وقت اذان دینے کا کوئی ذکر نہیں۔
❀ سیدنا عبداللہ بن سلامؓ سے منسوب ہے:
مَا أُذْنَ فِي قَوْمٍ بِلَيْلٍ إِلَّا أُمِنُوا الْعَذَابَ حَتَّى يُصْبِحُوا، وَلَا نَهَارًا إِلَّا أُمِنُوا الْعَذَابَ حَتَّى يُمْسُوا.
’’جس قوم میں رات کو اذان کہی جائے ، تو وہ صبح تک عذاب سے محفوظ رہتی ہے اور دن کو کہی جائے تو شام تک عذاب سے محفوظ رہتی ہے۔“
(مصنف عبد الرزاق : 1873)
اس قول کی سند سخت ضعیف ہے۔
➊محمد بن یوسف بن عبد اللہ بن سلام مجہول الحال ہے۔
➋محمد بن یوسف کا اپنے دادا سیدنا عبداللہ بن سلامؓ سے سماع نہیں ۔
➌امام عبد الرزاق بن ہمامؒ مدلس ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں ۔
➍عبدالرزاق کی صفوان بن سلیم سے روایت واسطہ کے ساتھ ہوتی ہے لیکن یہاں واسطہ کے بغیر بیان کر رہے ہیں ۔ عبدالرزاق نے یہاں تدلیس کی ہے۔
❀ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا رَأَيْتُمُ الْحَرِيقَ فَكَبِّرُوا؛ فَإِنَّ التَّكْبِيرَ يُطْفِئُهُ.
’’آگ دیکھیں ،تو تکبیر کہیں ، کیونکہ اللہ اکبر اسے بجھا دیتا ہے۔“
(عمل اليوم والليلة لابن السني : 295-298 ، الدعاء للطبراني : 1266)
➊من گھڑت ہے، قاسم بن عبد اللہ بن عمر ’’متروک‘‘ ہے۔
◈ امام احمدؒ نے اسے جھوٹا کہا ہے۔
(تقريب التهذيب لابن حجر : 5468)
الدعا للطبرانیؒ میں اس کی متابعت عبد الرحمن بن عبد اللہ بن عمر نے کی ہے ، وہ بھی ’’کذاب‘‘ ہے۔
حافظ ابن حجرؒ نے ’’متروک‘‘ کہا ہے۔
(تقريب التهذيب : 3922)
الکامل لابن عدی اور الدعوات الکبیر للبہیقی میں متابعتا ابن لہیعہ کی روایت آئی ہے ، اس میں ابن لہیعہ (ضعیف عند الجمہور) کی تدلیس ہے، ابن ابی مریم کہتے ہیں :
’’اس حدیث کو ابن لہیعہ نے ہمارے ایک ساتھی زیاد بن یونس حضرمی سے سنا وہ قاسم بن عبداللہ بن عمر سے بیان کرتے ہیں ، ابن لہیعہ اسے مستحسن عمل خیال کرتا تھا، پھر اس نے کہا: اسے وہ عمرو بن شعیب سے بیان کرتا ہے۔“
(الضعفاء الكبير للعقيلي : 296/2)
ثابت ہوا کہ یہ متابعت اُس سند کی ہے، جس میں قاسم بن عبد اللہ ’’کذاب‘‘ ہے۔