نیک خاوند کے انتخاب کے لیے بنیادی صفات
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال:

خاوند کی وہ کون سی اہم خوبیاں ہیں جن کی بنیاد پر ایک لڑکی اس کے بطور خاوند منتخب کرے؟ ؟ نیز کیا دنیاوی اغراض کی خاطر نیک خاوند کے ساتھ شادی کرنے سے کنارہ کشی کرنا عورت کو اللہ کے عذاب کا مستحق بنا دیتا ہے؟

جواب:

وہ اوصاف جن کی بنیاد پر کسی عورت کو خاوند کا انتخاب کرنا چاہیے وہ حسن اخلاق اور دینداری ہیں، رہا مال اور حسب و نسب تو یہ ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن اہم چیز یہی ہے کہ خاوند دیندار اور خوش اخلاق ہو، اس لیے کہ عورت کو دین دار اور خوش اخلاق خاوند سے کسی کمی اور نقصان کا خدشہ نہیں ہے۔ کیونکہ اگر وہ اس کو اپنے پاس ٹھہرائے گا تو اچھے طریقے سے اور اگر بالفرض اس کو چھوڑے گا بھی تو احسان کے ساتھ۔ پھر یہ کہ دیندار شخص عورت اور اس کی اولاد کے حق میں بابرکت ثابت ہو گا، وہ اس طرح کہ یہ اور اس کے بچے اس شخص سے خوش اخلاقی اور دینداری سیکھیں گے، لیکن اگر خاوند ان خوبیوں کا مالک نہ ہو تو عورت کو چاہیے کہ وہ اس سے کنارہ کشی اختیار کرے، خاص طور پر ایسے لوگوں سے جو ادائیگی نماز میں سست ہیں یا وہ جو تمباکونوشی کے عادی ہیں۔
«العياذ بالله»
رہے وہ لوگ جو کبھی بھی نماز ادا نہیں کرتے وہ کافر ہیں، ان کے لیے مومن عورتیں حلال نہیں ہیں اور نہ وہ مومن عورتوں کے لیے حلال ہیں۔ سو اہم چیز یہی ہے کہ خاوند کے چناؤ میں عورت خوش اخلاقی اور دینداری کو ہی بنیاد بنائے۔ اگر اچھے نسب والا خاوند میسر آ جائے تو یہ کوئی اور بہتر ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إذا أتاكم من ترضون دينه وخلقه فأنكحوه»
[حسن، سنن الترمذي رقم الحديث 1084]
”جب تمھارے پاس ایسا شخص نکاح کی خاطر آئے جس کی خوش اخلاقی اور دینداری کو پسند کرتے ہو تو (اپنی بیٹی اور بہن وغیرہ کا) اس سے نکاح کر دو۔“
لیکن اگر ہمسر خاوند مل جائے تو یہ افضل و بہتر ہے۔
(محمد بن صالح العثمین رحمہ اللہ)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے