نوآبادیاتی لوٹ مار اور صنعتی انقلاب کی حقیقت
تحریر: ڈاکٹر خالد جامعی

اٹھارویں صدی کا صنعتی انقلاب اور نوآبادیاتی لوٹ مار

اٹھارویں صدی کے وسط تک انگلینڈ ایک زراعت پر مبنی ملک تھا، لیکن 1760ء کے بعد مشینوں کی ایجاد نے وہاں صنعتی انقلاب کا آغاز کیا۔ یہ تبدیلی اچانک کیسے ممکن ہوئی؟ پام دت کے مطابق:

"ہندوستان میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں کی گئی لوٹ مار جدید انگلینڈ کی تعمیر کی بنیاد بنی۔ 1757ء میں پلاسی کی جنگ کے بعد ہندوستان کی دولت انگلینڈ منتقل ہونے لگی، جس نے ایجادات کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا۔”

اہم ایجادات اور ان کا کردار

  • 1764ء: بارگریوز نے کاتنے کی مشین ایجاد کی۔
  • 1765ء: جیمز واٹ نے بھاپ کا انجن تیار کیا، جسے 1769ء میں پیٹنٹ کرایا گیا۔
  • 1785ء: کارٹ رائٹ نے بھاپ سے کرگھے چلانا شروع کیے۔
  • 1788ء: انجن اور بھٹیاں بھاپ سے چلنے لگیں۔

اس سے قبل کئی ایجادات ہوچکی تھیں، لیکن سرمایہ اور مارکیٹ کی عدم موجودگی میں ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ پلاسی کی جنگ کے بعد حالات بدل گئے، اور ایجادات کو استعمال میں لایا گیا۔

سرمایہ اور مارکیٹ کی اہمیت

ڈاکٹر کنگھم کے مطابق:

"ایجادات محض ذہانت کا نتیجہ نہیں تھیں بلکہ سرمایہ اور وسیع منڈیوں کی موجودگی نے انہیں ممکن بنایا۔ بنک آف انگلینڈ اور دیگر مالیاتی اداروں نے سرمایہ اکٹھا کیا، جو ترقی کے لیے سازگار ثابت ہوا۔”

نوآبادیاتی لوٹ مار اور قتلِ عام

براعظم امریکہ میں قتل عام

ڈاکٹر سکندر مہدی کے مطابق:

  • کولمبس کے امریکہ پہنچنے کے 21 سال کے اندر تقریباً 80 لاکھ ریڈ انڈینز ہلاک ہوگئے۔
  • مائیکل مین نے اپنی کتاب Dark Side of Democracy میں لکھا کہ نو کروڑ ریڈ انڈینز کا قتل کیا گیا۔
  • Encyclopaedia of Violence Peace and Conflict میں بتایا گیا:
    • یورپی نوآبادکاروں کے ہاتھوں 19ویں صدی کے اختتام تک تقریباً 10 کروڑ افراد قتل کیے گئے۔
    • افریقی غلامی کے نتیجے میں 1.7 کروڑ افراد ہلاک ہوئے۔

کلیسا کا کردار

یہ حیرت انگیز ہے کہ کلیسا، جو انسانیت کا دعویدار تھا، نوآبادکاروں کے مظالم کا حامی رہا۔ ریڈ انڈینز کو "بت پرست” اور "وحشی” سمجھ کر ان کی نسل کشی کو جائز قرار دیا گیا۔ بیماریوں سے ان کی اموات کو خدا کی رحمت کہا گیا۔

  • جان ون تھروپ نے 1617ء کی چیچک کی وبا کو خدا کی "نعمت” قرار دیا کیونکہ اس نے ریڈ انڈینز کی آبادی کم کر دی۔

سرمایہ دارانہ نظام کی سنگینیاں

صنعتی انقلاب کے بعد سرمایہ دارانہ نظام ترقی یافتہ ہوا، لیکن اس نے مزدوروں کی زندگیوں کو عذاب بنا دیا۔ لوگ غربت، بھوک اور ظالمانہ ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔

مغرب کی قتل و غارت

ایرک فرام نے The Anatomy of Human Destructiveness میں بیان کیا:

  • 1499-1480: 9 جنگیں۔
  • 1599-1500: 87 جنگیں۔
  • 1699-1600: 239 جنگیں۔
  • 1799-1700: 781 جنگیں۔
  • 1899-1800: 651 جنگیں۔
  • 1940-1900: 892 جنگیں۔

صرف دو عالمی جنگوں میں 12 کروڑ لوگ ہلاک ہوئے، جبکہ بیسویں صدی کے دیگر تنازعات میں یہ تعداد اربوں تک پہنچ گئی۔

مغربی فکر و فلسفہ

مغربی فلسفے نے تشدد اور لالچ کو فروغ دیا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت مادی ترقی اور انسانی حقوق کے نام پر لاکھوں لوگوں کی جانیں لی گئیں۔

نوآبادیاتی نظام اور ہندوستانی ٹھگ

ہندوستان میں ٹھگوں کا نظام بھی ایک انوکھا تھا۔ ٹھگوں نے مذہب کے اصولوں کی بنیاد پر قتل کے ضابطے بنائے۔

  • قتل سے مستثنیٰ افراد: عورتیں، سادھو، فقیر، اور دیگر مخصوص طبقات۔
  • لالچ کے تحت عورتوں کو قتل کرنے والے ٹھگوں پر زوال آیا۔

نتیجہ

نوآبادیاتی لوٹ مار اور صنعتی انقلاب کا گہرا تعلق ہے۔ یورپی نوآبادکاروں کی سفاکی اور مادی ترقی کے لیے انسانیت کا قتل عام کیا گیا، جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے