نماز کے دوران خیالات آنے کی شرعی حیثیت

نماز میں خیال آنا

دوران نماز خیال آنے سے نماز باطل نہیں ہوتی

نماز کے دوران اگر کوئی دنیاوی خیال ذہن میں آ جائے تو اس سے نماز ٹوٹتی نہیں ہے۔ اس بات کی وضاحت ایک صحیح حدیث سے ہوتی ہے جو حضرت سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔

حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز عصر ادا کی۔ نماز کے فوراً بعد آپ کھڑے ہو گئے اور ازواجِ مطہرات کے ہاں تشریف لے گئے، پھر واپس تشریف لائے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے چہروں پر تعجب کے آثار دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’مجھے نماز کے دوران یاد آیا کہ ہمارے گھر میں سونا رکھا ہوا ہے، اور مجھے ایک دن یا ایک رات کے لیے بھی اپنے گھر میں سونا رکھنا پسند نہیں۔ لہٰذا میں نے اسے تقسیم کرنے کا حکم دیا۔‘‘
(بخاری، الاذان، باب من صلی بالناس فذکر حاجۃ فتخطاھم، ۱۵۸.)

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اگر نماز کے دوران کسی دنیاوی چیز کا خیال آ جائے، حتیٰ کہ کسی اہم چیز کی یاد بھی آ جائے، تو اس سے نماز پر کوئی اثر نہیں پڑتا، بشرطیکہ نماز کی ظاہری شرائط اور ارکان میں خلل نہ آئے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1