نماز کی ممانعت والے اوقات اور نبی کریم ﷺ کی رہنمائی

اسلام میں نماز کی ممانعت والے اوقات

اسلام میں نماز کی بہت بڑی اہمیت ہے، تاہم چند مخصوص اوقات ایسے ہیں جن میں نماز پڑھنے سے ممانعت کی گئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح ہدایات کی روشنی میں ان اوقات کو سمجھنا ضروری ہے۔

صبح اور عصر کے بعد نماز کی ممانعت

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح (کی نماز) کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا حتی کہ سورج خوب ظاہر ہو جائے اور (نماز) عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا حتی کہ سورج اچھی طرح غائب ہو جائے۔
(بخاری، مواقیت الصلاۃ، باب الصلاۃ المسافرین بعد الفجر : ۱۸۵، مسلم: ۶۲۸)

تین مخصوص اوقات کی سخت ممانعت

سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تین وقتوں میں نماز پڑھنے اور میت دفن کرنے سے منع فرمایا:

➊ جب سورج طلوع ہو رہا ہو یہاں تک کہ بلند ہو جائے
➋ عین دو پہر کے وقت
➌ جب سورج غروب ہو رہا ہو یہاں تک کہ پوری طرح غروب ہو جائے۔
(مسلم، صلوۃ، باب الاوقات التی نھی عن الصلاۃ فیھا: ۱۳۸)

طلوع و غروب آفتاب کے وقت نماز نہ پڑھنا

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’سورج کے نکلتے وقت اور غروب ہوتے وقت نماز نہ پڑھو کیونکہ سورج شیطان کے سینگوں کے درمیان سے طلوع ہوتا ہے۔‘‘
(بخاری: ۲۸۵، مسلم: ۸۲۸)

عصر کے بعد نفل نماز کی وضاحت

سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’عصر کے بعد نماز نہ پڑھو الاّ یہ کہ سورج بلند ہو۔‘‘
(ابو داؤد، التطوع، باب من رخص فیھما اذا کانت الشمس مرتفعۃ، حدیث ۴۷۲۱، نسائی، حدیث ۴۷۵)
(اسے ابن خزیمہ، ابن حبان، ابن حزم اور حافظ ابن حجر نے صحیح کہا)
یہ حدیث اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ عصر کے بعد نماز کی ممانعت مطلق نہیں ہے، بلکہ مخصوص حالات میں اس کی اجازت موجود ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عصر کے بعد نفل ادا کرنا

کریب مولیٰ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھیں، آپ سے اس کی وجہ دریافت کی گئی تو فرمایا:
’’بات یہ ہے کہ میرے پاس قبیلہ عبدالقیس کے لوگ (احکام دین سیکھنے کے لیے) آئے تھے، انہوں نے (یعنی ان کے ساتھ میری مصروفیت نے) مجھے ظہر کے بعد کی دو سنتوں سے باز رکھا۔ پس یہ وہ دونوں تھیں۔ (جو میں نے عصر کے بعد پڑھی ہیں)‘‘
(بخاری، السھو، باب اذا کلم وھو یصلی فاشار بیدہ واستمع، ۳۳۲۱، مسلم: ۴۳۸)

فقہی آراء اور صحابہ کا عمل

امام شافعی رحمہ اللہ اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے تحیۃ المسجد یا تحیۃ الوضو کی ادائیگی کو فجر اور عصر کے بعد بھی جائز قرار دیتے ہیں۔

امام قدامہ رحمہ اللہ نے سنتوں کی قضا کے جواز پر دلیل دی ہے کہ عصر کے بعد کی ممانعت خفیف (ہلکی) ہے۔

ابن حزم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم (جن میں خلفاء اربعہ اور دیگر بڑے صحابہ شامل ہیں) سے عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھنے کا ذکر کیا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معمولات

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر سے پہلے دو رکعت اور عصر کے بعد دو رکعت نہیں چھوڑا کرتے تھے۔
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی: ۰۲۹۲)

طلوع فجر کے بعد نوافل کی ممانعت

طلوع فجر کے بعد نفل نماز پڑھنے کی ممانعت شروع ہو جاتی ہے۔ صرف فجر کی سنتیں پڑھنے کی اجازت ہے، باقی تمام نفل ممنوع ہیں۔

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا غلام یسار بیان کرتے ہیں:

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھے طلوع فجر کے بعد (نفل) نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا:
اے یسار! ہم اس طرح (نفل) نماز پڑھ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا:

’’جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ لوگوں کو یہ بات بتا دیں کہ طلوع فجر کے بعد دو رکعت (سنتوں) کے علاوہ کوئی نماز نہ پڑھو۔‘‘
(أبو داود، التطوع، باب من رخص فیھما اذا کانت الشمس مرتفعۃ: ۸۷۲۱)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1