نماز دین اسلام کا ستون ہے:
نماز دین اسلام کا ستون ہے۔ سیدنا معاذ بن جبلؓ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے مجھ سے کہا:
((ألا أخبرك برأس الأمر، وعموده، وذروة سنامه؟))
’’کیا میں تجھے اسلام کا سر، اس کا ستون اور اس کی چوٹی نہ بتلاؤں؟‘‘
میں نے عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسول ! ضرور بتا ئیں ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا:
((رأس الأمر الإسلام ، وعموده الصلاة، وذروة سنامه الجهاد .))
’’دین اسلام کا سرخود کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے سپرد کرنا ہے، اور اس کا ستون نماز اور اس کی چوٹی جہاد ہے۔‘‘
سنن ترمذی، كتاب الإيمان، رقم : ٢٦١٦- مسند أحمد : ۲۳۱/۵، رقم : ٢٢٠١٦- مصنف عبد الرزاق، رقم: ۲۰۳۰۳ –
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
نماز بندہ اور اس کے رب کے درمیان بطور ایک رابطہ:
نماز بندہ اور اس کے رب کے درمیان ایک رابطہ ہے، جیسا کہ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((إن أحدكم إذا قام فى صلاته فإنه يناجي ربه .))
صحیح بخاری، کتاب الصلاة، رقم : ٤٠٥۔
’’یقیناً جب کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو گویا وہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے۔‘‘
’’جب نماز کا معاملہ یہ ہے تو درحقیقت یہ بندہ مومن کے لیے اس کی رب سے مناجات کا ایک اعزاز ہے جو اس کو جان و مال اور اولاد سے زیادہ عزیز ہوتا ہے، اور وہ اس اعزاز کا مستحق اسی وقت ہو سکتا ہے جب وہ ربوبیت کو اس کی اسماء وصفات اور حقوق کے ساتھ پہچان لے اور وہ عبودیت اور اس کی عاجزی در ماندگی، فقر و احتیاج کو جان لے اور وہ ہر حقدار کو اس کا حق پورے طور سے دینے کا عادی ہو جائے ، اسی لیے حسی و معنوی طہارت اس کے لیے ناگزیر ہے اور جسمانی و قلبی ستر پوشی ضروری ہے، اور بیت اللہ کی طرف منہ کرنا جس قدر ممکن ہو، کلام اللہ کی تلاوت کرنا اور تکبیر تشیع کا اہتمام کرنا لازم ہے ۔‘‘
نماز تالیف امام احمد بن مقبل تحقیق و تقدیم شیخ حمد حامد العلی مقدمه بس : ۱۹ – ۱۷۔
نماز ذریعہ تقرب الہیٰ ہے:
نماز کے ذریعہ بندہ اپنے رب کی قربت حاصل کر لیتا ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺ کو بطور حکم فرمایا کہ آپ ابو جہل کی بات ہرگز نہ مانے ، اور مسجد حرام میں نماز پڑھتے رہیے اور عبادت کے ذریعہ اپنے رب کی قربت حاصل کرتے رہیے۔
(كَلَّاؕ-لَا تُطِعْهُ وَ اسْجُدْ وَ اقْتَرِبْ)
(العلق : ١٩)
’’ہر گز نہیں، آپ اس کی بات نہیں مانتے ، اور اپنے رب کے سامنے سجدہ کیجئے اور اس کا قرب حاصل کیجئے ۔‘‘
صحیح مسلم میں سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
((أقرب ما يكون العبد من ربه وهو ساجد، فأكثروا الدعاء .))
صحیح مسلم، کتاب الصلاة، رقم: ۱۰۸۳۔
’’بندہ حالت سجدہ میں اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے، لہٰذا (سجدے میں) کثرت سے دعا کیا کرو۔‘‘
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
حافظ ابن قیمؒ فرماتے ہیں :
’’نماز دل کو خوش رکھنے، قوت پہنچانے ، اسے فراخ کرنے اور لذت و سرور پہنچانے میں بہت عظیم الشان ہے۔ اس میں قلب و روح کا اللہ رب العالمین کے ساتھ وصال ہوتا ہے، اللہ کے ذکر سے فائدہ ملتا ہے ، اور اس کا قرب حاصل ہوتا ہے، اس سے مناجات کے ساتھ لذت ملتی ہے۔ اللہ کے سامنے کھڑے ہونا اس کی عبادت میں سارے جسم کے تمام اعضاء کا استعمال اور ہر جسمانی عضو کو اس استعمال میں ایک حصہ ملنا نصیب ہوتا ہے ۔ مخلوق سے تعلق اور میل ملاقات سے فراغت ملتی ہے، اس سے آدمی کے دل و دماغ اور بدنی جوارح اپنے پیدا کرنے والے خالق و مالک رب کریم کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں، نماز کی حالت میں آدمی کو اپنے دشمن سے راحت ملتی ہے، بڑی بڑی پر تاثیر دوائیاں اور خوش ذائقہ کھانے جس طرح صرف صحت مند دلوں کو ہی نفع پہنچاتے ہیں ، اسی طرح سے نماز کے فوائد بھی اسے ہی حاصل ہوتے ہیں جس کا دل صحت مند ہو، بیمار دل تو بیمار جسموں کی طرح ہوتے ہیں کہ جنہیں بڑی خوش ذائقہ اور طاقت ور غزائیں بھی کچھ فائدہ نہیں دیتیں ۔‘‘
(زاد المعاد: ۳۰۴/۴)
نماز بندے کی اپنے رب سے محبت کی علامت ہے:
صحیح بخاری میں سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی حدیث قدسی موجود ہے۔ مظہر خلق عظیم رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اللہ تعالٰی کا فرمان ہے:
((وما تقرب إلى عبدى بشيء أحب إلى مما افترضت عليه، وما يزال عبدي يتقرب إلى بالنوافل حتى أحبه .))
صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع، رقم : ٦٥٠٢.
’’اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اور کوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھے سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں ۔‘‘
نماز نعمتوں کی شکر گزاری کا نام ہے:
ساتھ ہی نماز بندے کی اپنے رب کی عطا کردہ نعمتوں کی شکر گزاری ہے ۔ نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی نیک صفات اور اچھے اخلاق وکردار میں مومنوں کے لئے بہترین نمونہ ہے۔ حضور اقدس ﷺ کو جب کوئی ایسی خبر موصول ہوتی ، جس سے آپ خوشی محسوس کرتے تو اللہ تعالی کا شکر بجالاتے ہوئے سجدہ ریز ہو جاتے ۔ چنانچہ سیدنا ابو بکرؓ سے مروی ہے:
((أن النبى أتاه أمر فسر به فخر لله ساجدا .))
سنن ترمذی، ابواب الأيمان والنذور، باب ماجاء في سجدة الشكر، رقم : ١٥٧٨- سنن أبو داؤد، كتاب الجهاد، باب في مسجود الشكر، رقم: ٢٧٧٤ – إرواء الغليل للألباني، رقم: ٤٧٤- علامہ البانیؒ نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
’’یقیناً نبی آخر الزماں ﷺ کے پاس کوئی ایسی خبر آتی، جس سے آپ خوش ہوتے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے سجدہ ریز ہو جاتے ۔‘‘
نماز بھلائی کا دروازہ ہے:
نماز ’’باب الخیر‘‘ بھلائی کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔ سیدنا معاذبن جبلؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:
((ألا أدلك على أبواب الخير الصوم جنة، والصدقة تطفى الخطيئة كما يطفي الماء النار ، وصلاة الرجل فى جوف الليل ))
’’کیا میں تجھے بھلائیوں کے دروازے نہ بتاؤں؟ سن پیجیے روزہ ڈھال ہے، صدقہ گناہوں کو یوں مٹا دیتا ہے جیسا کہ پانی آگ کو بجھا دیتا ہے اور آدمی کا آدھی رات کو نفل ادا کرنا ۔‘‘
بعد ازاں آپ ﷺ نے یہ آیات تلاوت کیں :
(تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٧﴾)
(السجدة : ١٦-١٧)
’’رات میں ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں، اپنے رب کو اس کے عذاب کے ڈر سے اور اس کی جنت کے لالچ میں پکارتے ہیں، اور ہم نے انہیں جو روزی دی ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ اُس کے نیک اعمال کے بدلے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والی کون سی نعمتیں چھپا کر رکھی گئی ہیں ۔‘‘
سنن ترمذی، کتاب الإيمان، رقم: ٢٦١٦ – مسند أحمد: ٢٣١/٥، رقم : ٢٢٠١٦- علامہ البانیؒ نے اس کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
نماز تحفہ آسمانی ہے:
نماز کے عظیم الشان ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ نماز وہ پہلا فریضہ ہے جو امام المتقین نے سے ان پر فرض کیا گیا ، اور آسمان پر شب معراج میں امت اسلامیہ کو یہ فریضہ بطور تحفہ عنایت کیا گیا۔ قصہ معراج میں رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا:
((ففرض الله عزوجل على أمتي خمسين صلاة ، فرجعت بذلك حتى مررت على موسى ، فقال : ما فرض الله لك على أمتك ؟ قلت : فرض خمسين صلاة ، قال: فارجع إلى ربك فإن أمتك لا تطيق ذلك ، فراجعت فوضع شطرها فرجعت إلى موسى قلت، وضع شطرها فقال : راجع ربك فإن أمتك لا تطيق ، فراجعت فوضع شطرها فرجعت إليه فقال: ارجع إلى ربك، فإن أمتك لا تطيق ذلك، فراجعته فقال هن خمس وهن خمسون ، لا يبدل القول لدي، فرجعت إلى موسى فقال راجع ربك فقلت: استحييت من ربي، ثم انطلق بي حتى انتهى بي إلى سدرة المنتهى، وغشيها ألوان لا أدري ما هي؟ ثم أدخلت الجنة ، فإذا فيها حبابل اللؤلؤ، وإذا ترابها المسك))
صحیح بخاری، کتاب الصلوٰة، رقم : ٣٤٩۔
اللہ تعالیٰ نے میری اُمت پر پچاس نمازیں فرض کیں، میں یہ حکم لے کر واپس لوٹا۔ جب موسیٰؑ تک پہنچا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کی امت پر اللہ نے کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا کہ پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ انہوں نے فرمایا :
آپ واپس اپنے رب کی بارگاہ میں جائیے ، کیونکہ آپ کی امت اتنی نمازوں کو ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتی ہے۔ میں واپس بارگاہ رب العزت میں گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس میں سے ایک حصہ کم کر دیا۔ پھر موسیٰؑ کے پاس آیا، اور کہا کہ ایک حصہ کم کر دیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ دوبارہ جائے کیونکہ آپ کی امت میں اس کے برداشت کی بھی طاقت نہیں ہے۔ پھر میں بارگاہ رب العزت میں حاضر ہوا۔ پھر ایک حصہ کم ہوا۔ جب موسیٰؑ کے پاس پہنچا تو انہوں نے فرمایا کہ اپنے رب کی بارگاہ میں پھر جائیے ، کیونکہ آپ کی امت اس کو بھی برداشت نہ کر سکے گی، پھر میں بار بار آیا گیا ، پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ نمازیں پانچ ہیں، اور ثواب میں پچاس کے برابر ہیں۔ میری بات بدلی نہیں جاتی۔ اب میں موسیٰؑ کے پاس آیا تو انہوں نے پھر کہا کہ اپنے رب کے پاس جاؤ لیکن میں نے کہا کہ مجھے اب اپنے رب سے شرم آتی ہے۔ پھر جبرئیل مجھے ’’سدرۃ المنتہیٰ‘‘ تک لے گئے، جسے کئی طرح کے رنگوں نے ڈھانک رکھا تھا۔ جن کے بارے مجھے معلوم نہیں ہوا کہ وہ کیا ہیں؟ اس کے بعد مجھے جنت میں لے جایا گیا، میں نے دیکھا کہ اس میں موتیوں کے ہار ہیں اور اس کی مٹی مشک کی ہے۔‘‘
صحیح بخاری، کتاب الصلوٰة، رقم : ٣٤٩۔
نماز اور پابندی وقت:
نماز سے مت کہہ مجھے کام ہے
کام سے کہہ وقت نماز ہے
نماز کو اس کے متعینہ وقت پر ادا کرنا ضروری ہے، نماز کی عظمت شان کا یہاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ سے یہ پوچھا گیا کہ کون ساعمل زیادہ افضل ہے؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((الصلاة على وقتها .))
صحیح بخاری، کتاب مواقيت الصلوة، رقم: ٥٢٧.
’’مقررہ وقت پر نماز پڑھنا۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا)
(النساء: ١٠٣)
’’بے شک نماز مقررہ اوقات میں مومنوں پر فرض کر دی گئی ہے۔‘‘
نماز کو اس کے وقت مقررہ سے لیٹ کرنا، اور اس کی ادائیگی میں غفلت برتنا نفاق کی علامت ہے، جیسا کہ آئندہ سطور میں آئے گا۔
قارئین کرام ! ایسے لوگوں کی اللہ عز وجل نے کلام پاک میں بار ہا مذمت فرمائی ہے، جو نماز میں پابندی وقت کو ملحوظ نہیں رکھتے ۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ ﴿٤﴾ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ﴿٥﴾ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ ﴿٦﴾)
(الماعون : ٤-٦)
’’پس ویل یا ہلاکت ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں سے غفلت برتتے ہیں ، جو لوگوں کو دکھاتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر لقمان سلفی حفظ اللہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
اس سے مراد وہ منافقین ہیں جو لوگوں کے سامنے تو نماز پڑھتے ہیں، اور تنہائی میں نہیں پڑھتے ۔ اور مسروقؒ وغیرہ کا خیال ہے کہ وہ لوگ نماز تو پڑھتے ہیں جیسا کہ ’’للمصلین‘‘ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے، لیکن وہ نمازوں کو ان کے متعین اوقات میں نہیں پڑھتے ۔ اور عطاء بن دینارؒ کا قول ہے کہ وہ لوگ نمازوں کو اول اوقات میں نہیں پڑھتے بلکہ ہمیشہ یا اکثر و بیشتر آخری وقت میں پڑھتے ہیں، یا نماز پڑھتے وقت اس کے ارکان و شروط کا خیال نہیں رکھتے ، یا اس میں خشوع و خضوع کا خیال نہیں رکھتے۔ (عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ) کے الفاظ ان تمام ہی صورتوں کو شامل ہیں، تو جس کے اندر مذکورہ بالا تمام صفتیں پائی جائیں گی، وہ مکمل عمل نفاق میں مبتلا ہو گا، جیسا کہ صحیحین کی روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’وہ منافق کی نماز ہے، وہ منافق کی نماز ہے، وہ منافق کی نماز ہے۔ بیٹھا آفتاب کو دیکھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ شیطان کی دو سینگوں کے درمیان پہنچ جاتا ہے تو چار بار ٹکر مار لیتا ہے، اللہ کو اس میں کم ہی یاد کرتا ہے۔‘‘
(تیسیر الرحمان ص: ۱۷۷۳)
مومنانہ صفت یہی ہے کہ نماز کو وقت پر ادا کیا جائے ، اور اس میں غفلت بالکل بھی نہ برتی جائے۔ اللہ عزوجل نے مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
(رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ ۙ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ)
(النور: ۳۷)
’’جنہیں کوئی تجارت اور کوئی خرید و فروخت اللہ کی یاد سے ، اور نماز قائم کرنے سے اور زکوٰۃ دینے سے غافل نہیں کرتی ہے۔ وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جب مارے دہشت کے لوگوں کے دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی۔‘‘
نماز گناہوں سے پاک صاف ہونے کا ذریعہ ہے:
نماز گناہوں سے پاک وصاف ہونے کا ایک ذریعہ اور سب ہے۔ جیسا کہ آقائے نامدار، اللہ کے پاک پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا:
(( أرأيتم لو أن نهرا بباب أحدكم يغتسل فيه كل يوم خمسا . ما تقول ذلك يبقي من درنه؟ قالوا: لا يبقي من درنه شيئا . قال: فذلك مثل الصلوات الخمس يمحوا الله به الخطايا .))
صحیح بخاری کتاب مواقيت الصلوات، رقم: ٥٢٨ صحیح مسلم، كتاب المساجد، رقم: ١٥٢٢.
’’اگر کسی شخص کے دروازے پر نہر جاری ہو، اور وہ روزانہ اس میں پانچ پانچ دفعہ نہائے تو تمہارا کیا گمان ہے۔ کیا اس کے بدن پر کچھ بھی میل باقی رہ سکتی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا نہیں ، ہرگز نہیں یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے فرمایا :
’’یہی حال پانچوں وقت کی نمازوں کا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ سے گناہوں کو مٹادیتا ہے۔‘‘
اور سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((الصلوات الخمس ، والجمعة إلى الجمعة، ورمضان إلى رمضان، مكفرات ما بينهن إذا اجتتب الكبائر .))
صحیح مسلم، كتاب الطهارة، رقم: ٥٥٢.
’’پانچوں نمازیں، جمعہ دوسرے جمعہ تک ، اور ایک رمضان دوسرے تک کے گناہوں کیلئے کفارہ ہے، جب تک انسان کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرتا رہے۔‘‘
سیدنا ابوذرؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ موسم سرما میں ایک دن باہر نکلے، جب کہ درختوں کے پتے گر رہے تھے، پس آپ ﷺ نے ایک درخت کی دو ٹہنیاں پکڑیں تو پتے گرنے لگے، راوی کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے کہا :
اے ابوذر! میں نے عرض کیا ، حاضر ہوں، یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے فرمایا:
((إن العبد المسلم ليصلى الصلاة يريد بها وجه الله ، فتهافت عنه ذنوبه كما يتهافت هذا الورق عن هذه الشجرة .))
مسند أحمد: ١٧٩/٥، رقم : ٢١٥٥٦ – حلية الأولياء : ١٠٠.٩٩/٦. شیخ شعیب الارناؤط نے اس کو ’’حسن لغیرہ‘‘ قرار دیا ہے۔
’’یقینا مسلمان بندہ نماز پڑھتا ہے، اور اللہ کی خوشنودی چاہتا ہے تو اس کے گناہ اس طرح گرتے ہیں جس طرح اس درخت کے پتے گر رہے ہیں۔‘‘
اور اللہ رب العزت نے فرمایا:
(لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنتُم بِرُسُلِي وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّأُكَفِّرَنَّ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۚ فَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ )
(المائده : ١٢)
’’اگر تم لوگ نماز قائم کرو گے، اور زکاۃ دو گے ، اور میرے رسولوں پر ایمان لاؤ گے، اور ان کی مدد کرو گے، اور اللہ کو اچھا قرض دیتے رہو گے ، تو بے شک میں تمہارے گناہوں کو مٹادوں گا ، اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی ۔ پس تم میں سے جو کوئی اس عہد و پیمان کے بعد کفر کی راہ اختیار کرے گا ، وہ یقینا سیدھی راہ سے بھٹکا ہوا ہو گا ۔‘‘
قارئین کرام! مذکورہ بالا آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے نماز پنجگانہ کی حفاظت کرنے والوں کو خوشخبری دی ہے کہ میں دنیا و آخرت میں ان کے گناہوں کو معاف کر دوں گا اور جنتیں عطا کروں گا۔ سبحان اللہ ! جس کے گناہ مٹا دیے جائیں اور اور جنت حاصل ہو جائے بھلا اُسے اور کیا چاہیے؟
اللہ رب العزت نے مزید ارشاد فرمایا:
(وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ ۚ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ ذَٰلِكَ ذِكْرَىٰ لِلذَّاكِرِينَ)
(هود: ١١٤)
’’اور آپ دن کے دونوں طرف اور رات گئے نماز قائم کیجئے ، بے شک اچھائیاں برائیوں کو ختم کر دیتی ہیں ، یہ اللہ کو یاد کرنے والوں کو نصیحت کی جارہی ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے کہ نیکیاں برائیوں کو ختم کر دیتی ہیں اور چونکہ نیکیوں میں نماز کا درجہ بہت ہی بلند اور اونچا ہے، لہٰذا یہ یقیناً برائیوں کو مٹا دیتی ہے۔ صحیح بخاری میں سید نا عثمان بن عفانؓ سے روایت ہے کہ رسول رب العالمین ﷺ نے فرمایا:
((من توضأ نحو وضوني هذا، ثم صلى ركعتين لا يحدث فيهما نفسه، غفر له ما تقدم من ذنبه .))
صحیح بخاری، کتاب الوضوء رقم : ١٦٤،١٦٠،١٥٩.
’’جو شخص میری طرح ایسا وضو کرے، پھر دو رکعت پڑھے، جس میں اپنے نفس سے کوئی بات نہ کرے ، تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔‘‘
مذکورہ بالا آیت کریمہ کے شان نزول میں امام بخاری و مسلمؒ وغیرہ نے سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت کی ہے کہ ایک شخص رسول مکرم ﷺ کے پاس آیا، اور کہا کہ میں شہر کے مضافات میں ایک عورت کا علاج کر رہا تھا، تو مجھ سے گناہ کا ارتکاب ہو گیا یعنی میں نے اس کا بوسہ لے لیا، آپ میرے بارے میں اپنا حکم صادر فرمادیں۔ آپ ﷺ نے خاموشی اختیار کی ، جب وہ آدمی جانے لگا ، تو آپ ﷺ نے اسے بلالیا اور یہی آیت تلاوت فرمائی ، یعنی اس گناہ کے بعد تم نے جو نیک عمل کیا ہے اس نے اس گناہ کوختم کر دیا ہے، یہ دیکھ کر ایک صحابی نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! کیا یہ حکم اسی کے ساتھ خاص ہے؟ تو رحمت عالم ﷺ نے فرمایا کہ:
((بَلْ لِلنَّاسِ كَافَّةً .))
صحيح مسلم، كتاب التوبة، رقم: ٧٠٠٤۔ صحیح بخاری، کتاب مواقيت الصلوة، رقم: ٥٢٦۔
’’یہ تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے۔‘‘
علامہ قسطلانیؒ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں ’’برائیوں‘‘ سے ’’صغیرہ گناہ‘‘ مراد ہیں۔
ارشاد الساري شرح صحیح بخاری۔
لیکن یہ بات یادر ہے کہ اگر کوئی شخص نماز پڑھتا ہے، اور صدق دل سے اس میں یہ دعا پڑھتا ہے:
((اللهم اغفر لي ذنبي ، كله، دقه وجله، وأوله وآخره ، وعلانيته وسره .))
صحیح مسلم، كتاب الصلوٰة، رقم: ١٠٨٤۔
’’اے اللہ ! میرے چھوٹے اور بڑے، پہلے اور پچھلے، ظاہر اور پوشیدہ تمام گناہ بخش دے۔‘‘
تو اللہ تعالیٰ اس کے سارے گناہ معاف کر دے گا ۔ ان شاء اللہ!
نماز تو بڑی دور کی بات ہے، ابھی اس نماز پڑھنے والے نے صرف طہارت حاصل کی ہے کہ اُس کے سارے گناہ ختم ہو گئے، اور نماز کے لیے چلنا ، اور پھر نماز ادا کرنا اس کے لئے بلندی درجات کا باعث بن گیا۔ سیدنا عبدالله الصناسجیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم ﷺ نے فرمایا:
((إذا توضأ العبد المسلم أو المؤمن فغسل وجهه خرج من وجهه كل خطيئة نظر إليها بعينيه مع الماء أو مع آخر قطر الماء أو نحو هذا، وإذا غسل يديه خرجت من يديه كل خطيئة كان بطشتها يداه مع الماء أو مع آخر قطر الماء حتى يخرج نقيا من الذنوب .))
سنن ترمذی، ابواب الطهارة، باب ما جاء في فضل الوضوء، رقم: ۲- مسند أحمد: ۳۰۳/۲ مان دارمی، رقم: ٧٢٤ موطاء رقم : ٧٥ علامہ البانیؒ نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
’’جب کوئی مسلم یا مؤمن بندہ وضو کرتے ہوئے اپنے چہرے کو دھوتا ہے تو اس کے چہرے سے پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ اس کے چہرے کے تمام گناہ جھڑ جاتے ہیں، جو اس نے آنکھوں سے دیکھ کر کئے ہوتے ہیں۔ اور جب وہ اپنے ہاتھوں کو دھوتا ہے تو ہاتھوں کے گناہ پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ گر جاتے ہیں، جو اس نے اپنے ہاتھوں کے
ساتھ کئے ہوتے ہیں، حتی کہ وہ گناہوں سے پاک صاف ہو جاتا ہے ۔‘‘
اور جب نمازی نماز میں کھڑا ہو جاتا ہے، اور امام (غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ) کہتا ہے تو آمین کہے ، اور اس کا ’’آمین‘‘ کہنا فرشتوں کی آمین سے مل جائے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ چنانچہ پیارے پیغمبر سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
((إذا قال الإمام غير المغضوب عليهم ولا الضالين ، فقولوا: آمين فإنه من وافق قوله قول الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه .))
صحیح مسلم، کتاب الصلاة، باب التسميع والتحميد والتأمين، رقم: ۹۲۰۔ صحیح بخاری، كتاب الأذان، باب جهر المأموم بالتأمين، رقم: ۷۸۲۔
’’جب امام (غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ) کہے، تو تم کہو، آمین ۔ پس جس شخص کی آمین فرشتوں کی آمین کے ساتھ مل گئی تو اس کے تمام سابقہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔‘‘
اور جب وہ رکوع سے اٹھ کھڑے ہونے کے بعد ’’اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ‘‘ پڑھتا ہے تو اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں ۔ سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((إذا قال الإمام: سمع الله لمن حمده ، فقولوا: ’’اللهم ربنا ولك الحمد‘‘ فإنه من وافق قوله قول الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه .))
صحيح بخاري، كتاب الأذان، باب فضل اللهم ربنا لك الحمد، رقم : ٠٧٩٦
’’جب امام ’’سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ‘‘ تو تم ’’اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الحمدُ‘‘ کہو، کیونکہ جس کا یہ کہنا فرشتوں کے کہنے کے ساتھ ہو گیا، اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے۔‘‘
الغرض نماز کے اور بھی بہت سے متعلقات و ملحقات گناہوں سے پاک صاف کرتے ہیں ، مثلاً ’’المشى الى المساجد“ ”نماز کے لیے چلنا ۔“ اور ”انتظار الصلاة بعد الصلاة“ ’’ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا۔‘‘ وغیرہ۔
نبی رحمت ﷺ کی نماز کے متعلق آخری وصیت:
ہر درد مند کو رونا یہ میرا رولا دے
بیہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے
نماز کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث رسول ﷺ سے بھی لگایا جا سکتا ہے، جس میں ہے کہ دنیا سے رخصت ہوتے وقت آپ کی آخری وصیت اور امت سے آپ کا آخری عہد و پیمان یہی تھا کہ وہ نماز کے سلسلہ میں اور غلاموں کے متعلق اللہ تعالیٰ سے ڈریں، اس کا تقوی اختیار کریں۔ سیدنا انس بن مالکؓ فرماتے ہیں:
((كانت عامة وصية رسول الله حين حضرته الوفاة ، وهو يغرفر بنفسه: الصلاة وما ملكت أيمانكم .))
سنن ابن ماجة، كتاب الوصايا رقم ٢٦٩٧ – إرواء الغليل، رقم: ۲۱۷۸ – فقه السيرة، رقم: ٥٠١- علامہ البانیؒ نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
’’آخری لمحات زندگی میں بوقت وفات، رسول اللہ ﷺ کی عام وصیت (اور امت سے آپ کا آخری عہد و پیمان) یہی تھا کہ وہ نماز کے متعلق اور غلاموں کے سلسلہ میں اللہ سے ڈریں ۔‘‘
اسی طرح سیدنا علی بن ابی طالبؓ سے بھی مروی ہے، فرماتے ہیں کہ خاتم الانبیاء ﷺ کے آخری کلمات یہی تھے :
((الصلاة و ما ملكت أيمانكم .))
سنن ابن ماجة، كتاب الوصايا، رقم: ٢٦٩٨ -٢٦- علامہ البانیؒ نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
’’نماز اور غلاموں کے متعلق اللہ سے ڈرنا ۔‘‘
سید نا ابو الدرداءؓ سے مروی ہے کہ مجھے میرے انتہائی مخلص دوست رسول اللہ ﷺ نے وصیت فرمائی:
((لا تشرك بالله شيئا وإن قطعت وحرقت، ولا تترك صلاة مكتوبة متعمدا، فمن تركها متعمدا فقد برئت منه الدمة ، ولا تشرب الخمر فإنها مفتاح كل شر .))
سنن ابن ماحة، كتاب الدعاء رقم : ٤٠٣٤ إرواء الغليل، رقم: ٢٠٨٦- التعليق الرغيب: ١٩٥/١ – مشكوة المصابيح، رقم: ٥٨٠ علامہ البانیؒ نے اسے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔
’’تم اللہ کے ساتھ کسی غیر کو شریک نہ ٹھہرانا، چاہے تجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے یا تجھے جلا دیا جائے ۔ اور فرض نماز کو بھی قصدا نہ چھوڑنا کیونکہ جس نے فرض نماز کو جان بوجھ کر چھوڑا اس سے اللہ تعالیٰ کی حفاظت اٹھ گئی ۔ اور شراب مت پینا کیونکہ وہ ہر برائی کا دروازہ کھولنے والی چیز ہے۔‘‘
بقول شاعر:
سرکشی نے کردیئے دھندلے نقوش بندگی
آؤ سجدہ میں گریں لوح جبیں تازہ کریں
نماز بندہ مومن کی کرامت ہے:
اللہ تعالی نے کلام پاک، قرآن مجید میں نماز کی بڑی اہمیت بیان فرمائی ہے اور نماز اور نمازیوں کی تکریم کی ہے:
(قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ﴿١﴾ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ﴿٢﴾) (وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ )
(المؤمنون : ٩،٢٠١)
’’یقیناً ان مومنوں نے فلاح پالی جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں ۔ اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔‘‘
انسان طبعی طور پر کمزور پیدا کیا گیا ہے، جب اسے کوئی بھاری مصیبت لاحق ہوتی ہے تو صبر کا دامن اس کے ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے، واویلا کرنے لگتا ہے، اور انتہائی بے چینی اور اضطراب کا اظہار کرنے لگتا ہے۔ اور جب اللہ کی جانب سے مال و دولت سے نوازا جاتا ہے تو پرلے درجے کا بخیل بن جاتا ہے، اپنے اوپر اللہ کے احسانات کو بھول جاتا ہے، اور اپنوں اور غیروں پر اس میں سے ایک پیسہ خرچ کرنے کے تصور سے اس کی جان نکلنے لگتی ہے۔
(اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوْعًا(19)اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوْعًا(20)وَّ اِذَا مَسَّهُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا(21))
(المعارج : ١٩-٢١)
’’بے شک آدمی جزع و فزع کرنے والا اور حریص پیدا کیا گیا ہے، جب اُسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو فورا گھبرانے لگتا ہے، اور جب اُسے کوئی نعمت ملتی ہے تو بڑا بخیل بن جاتا ہے۔‘‘
آیات (۳۲) سے (۳۵) تک اللہ تعالیٰ نے جزع فزع اور شدت حرص و طمع سے شفا پانے کے اسی نسخہ کیمیا کو بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دونوں بیماریوں سے اللہ تعالیٰ ان کو شفا دے گا۔
(اِلَّا الْمُصَلِّیْنَ(22)الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ دَآىٕمُوْنَ(23) وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَ(9)اُولٰٓىٕكَ فِیْ جَنّٰتٍ مُّكْرَمُوْنَ(35))
(المعارج : ٣٥،٣٤٢٣،٢٢)
’’سوائے اُن نمازیوں کے جو اپنی نمازوں کی پابندی کرتے ہیں۔ اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ وہی لوگ جنتوں میں معزز و مکرم ہوں گے۔‘‘
یعنی جو لوگ ’’اپنی پنجگانہ نمازیں، شروط و ارکان کا التزام کرتے ہوئے ، خشوع و خضوع ، طمانیت ، رکوع، سجدہ اور قیام‘‘ میں اعتدال کا لحاظ کرتے ہوئے ان کے مقرر اوقات میں ادا کرتے ہیں۔
مفسرین لکھتے ہیں:
آیت میں نمازوں کے اہتمام کا ذکر دو بار آنا، نماز کی فضیلت اور دیگر اعمال صالحہ کے مقابلہ میں اس کی عظمت و اہمیت کی دلیل ہے۔ اللہ کے جو مومن بندے ان اوصاف کے حامل ہوں گے، اللہ کے فضل و کرم سے آیت (۱۹) میں مذکور نفسیاتی بیماری سے وہ محفوظ رہیں گے ، اور جب دنیا سے رخصت ہو کر اپنے رب کے پاس پہنچیں گے، تو اللہ تعالی انہیں عزت و اکرام کے ساتھ جنتوں میں جگہ دے گا۔
(تیسیر الرحمن ص: ۱۶۴۰۔۱۲۳۱)
نماز کی ادائیگی اور پابندی کی تاکید خاص:
نماز کو مومنوں کی صفات میں ذکر کرنا بھی حفاظت نماز کے متعلق تاکید خاص کا ایک انداز ہے، بطور نمونہ کے چند آیات ملاحظہ ہوں:
(وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَ هُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ یُحَافِظُوْنَ)
(الأنعام : ٩٢)
’’اور جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ اس قرآن پر ایمان رکھتے ہیں ، اور وہی اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔‘‘
اور سورۃ البقرۃ میں فرمایا:
(ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْهِ ۚۛ-هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ(2)الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ(3))
(البقرة : ۳۰۲)
’’اس کتاب میں کوئی شک و شبہ نہیں، اللہ سے ڈرنے والوں کی رہنمائی کرتی ہے، جو غیبی امور پر ایمان لاتے ہیں، اور نماز قائم کرتے ہیں، اور ہم نے ان کو جو روزی دی ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘
یعنی جب وہ نماز ادا کرتے ہیں تو ان سنتوں کو بھی ادا کرتے ہیں جو فرض نمازوں سے پہلے اور بعد میں احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ سے ثابت ہیں۔ یہی وہ نماز ہے جس کی پابندی کرنے والوں کی اللہ نے قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں تعریف کی ہے:
( وَالْمُقِيمِينَ الصَّلَاةَ ۚ وَالْمُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالْمُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أُولَٰئِكَ سَنُؤْتِيهِمْ أَجْرًا عَظِيمًا)
(النساء : ١٦٢)
’’اور جو نماز قائم کرنے والے ہیں، اور زکوۃ دینے والے ہیں اور اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں، انہیں ہم اجر عظیم عطا کریں گے ۔‘‘
اور سورۃ النمل میں فرمایا:
( الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُم بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ)
(النمل: ٣)
’’جو نماز قائم کرتے ہیں، اور زکوۃ دیتے ہیں، ان کا آخرت پر پورا یقین ہوتا ہے۔‘‘
نیز بے شمار مقامات پر خصوصی طور سے نماز کا ذکر فرمایا ہے اور اس کی ادائیگی و پابندی کی خاصی تاکید فرمائی ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:
(حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ)
(البقرة : ۲۳۸)
’’اپنی نمازوں کی حفاظت کرو، اور بالخصوص بیچ والی ( درمیانی ) نماز کی ، اور اللہ کے حضور پر سکون اور خشوع کے ساتھ کھڑے ہو۔‘‘
مزید برآں سیدنا عمر بن خطابؓ نے اپنے عمال کی طرف خط لکھا:
((إن أهم أموركم عندي الصلوة فمن حفظها وحافظ عليها ، حفظ دينه، ومن ضيعها فهو لما سواها أضبع .))
مؤطا امام مالك، كتاب وقوت الصلاة، رقم : ٦ – مصنف عبدالرزاق، رقم: ۲۰۳۷۔
’’یقینا میرے نزدیک تمہارے امور میں سے سب سے اہم اور ضروری کام نماز ہے، جس شخص نے اس کی پابندی کی اور اس پر کار بند رہا، اس نے اپنا دین محفوظ کر لیا۔ اور جس نے اسے ضائع کر دیا وہ دوسرے معاملات میں بالا ولی ست و کوتاہ ہو گا۔‘‘
نماز جسم اور روح کی غذا:
علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں:
’’نماز جسم اور روح دونوں کی مشترکہ ورزش بھی ہے، قیام، رکوع ، سجود، تو رک اور پھر ایک سے دوسری حالت کی طرف جانے والی حالتوں پر مشتمل کئی ایک حرکات اور حالتوں والی یہ نماز کہ جس میں اکثر اعضاء متحرک ہو جاتے ہیں پوری ایک بدنی ورزش ہوتی ہے، اور ان مفاصل کے ساتھ ساتھ پیٹ کے اعضاء بھی ورزش کر رہے ہوتے ہیں، جیسے کہ معدہ، انتڑیاں سانس کو چالو رکھنے والے حصے اور غذا، چنانچہ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان حرکات سے غذائی مواد کو تحلیل و تہضم اور تقویت دینے میں مدد ملتی ہے، بالخصوص نماز میں سانس کی قوت اور تیزی سے باہر نکلنے کے وقت بلڈ پریشر، نفس نماز میں صحت بدن کی حفاظت ہے، اس میں صحت ایمان اور دنیا و آخرت کی سعادت کی حفاظت کے علاوہ جسم کے لیے خوراک کے فاضل اور با ہم خلط مسلط ہونے والے مادوں کا کھل جانا بہت زیادہ نفع مند ہوتا ہے۔ اسی طرح تہجد کی نماز حفظ صحت کے اسباب میں سے سب سے زیادہ نفع بخش ہے اور کئی ایک دیر پا بیماریوں کو بہت زیادہ روکنے والی اور جسم، روح اور دل کے لیے بہت بہت زیاد و نشاط دینے والی ہوتی ہے۔‘‘
زاد المعاد: ٢٤٨،٢٤٧،٢١٠/٤۔
نماز خواہشات نفسانی اور بے حیائی سے روکتی ہے:
نماز انسان کو بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔ فرمانِ باری تعالی ہے:
(وَأَقِمِ الصَّلَاةَ ۖ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ)
(العنكبوت: ٤٥)
’’اور نماز قائم کیجئے ، بے شک نماز بخش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے۔‘‘
’’اللہ تعالی کا قول بر حق ہے کہ نماز یقینا برائیوں سے روکتی ہے۔ اب اگر کوئی شخص نماز پڑھتا ہے، اور برائیوں میں بھی ڈوبا رہتا ہے تو ہمیں یقین کر لینا چاہیے کہ اس کی نماز ، وہ نماز نہیں ہے جسے اس آیت کریمہ میں فواحش و منکرات سے روکنے والی نماز کہا گیا ہے۔‘‘
(تیسیر الرحمٰن بص: ۱۱۲۹)
فائدہ:
نماز کا ترجمہ رکوع و سجود کی دعائیں سمجھ کر پڑھی جائیں تو بُرائیوں سے دور رہنے میں مدد ملتی ہے۔ مزید برآں خشوع و خضوع میں اضافہ اور اللہ تعالیٰ سے محبت اور قربت حاصل ہوتی ہے۔
نماز آنکھوں کی ٹھنڈک ہے:
احمد مجتبیٰ، محمد مصطفیٰ ﷺ نے نماز کو آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا ہے۔ حدیث پاک میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((حب إلى من دنياكم النساء والطيب ، وجعلت قرة عيني فى الصلاة))
صحيح الجامع الصغير، رقم : ٣١٢٤.
’’دنیاوی اشیاء میں سے مجھے میری بیویاں اور خوشبو پسند ہے، اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے۔‘‘
نماز باعث نجات ہے:
نماز ذریعہ نجات ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ)
(الحج: ٧٧)
’’اے ایمان والو! تم اپنے رب کے لئے رکوع کرو، اور سجدہ کرو، اور اسی کی عبادت کرو، اور کار خیر کرتے رہو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ۔‘‘
دوسرے مقام پر فرمایا:
(قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى(14) وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰى(15))
(الاعلى : ١٥٠١٤)
’’یقیناً وہ شخص کامیاب ہوگا جو (کفر و شرک سے) پاک ہو گیا ، اور اپنے رب کا نام لیتا رہا، پھر اس نے نماز پڑھی۔‘‘
سیدنا عبادة بن صامتؓ فرماتے ہیں :
میں گواہی دیتا ہوں، یقیناً میں نے محبوب رب العالمین ، رسول امین ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:
((خمس صلوات افترضهن الله عز وجل، من أحسن وضوء هن وصلاهن لوقتهن ، وأتم ركوعهن وخشوعهن ، كان له على الله عهد أن يغفر له .))
سنن أبو داؤد، كتاب الصلاة، رقم : ٤٢٥ ٤٢ – البانیؒ نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
’’اللہ تعالیٰ نے (اپنے بندوں پر) پانچ نمازیں فرض کی ہیں، جو شخص ان نمازوں کے لیے اچھی طرح وضو کرے، اور انہیں ان کے اوقات مقررہ میں پڑھے، اور ان کے رکوع اور خشوع کا پوری طرح خیال رکھے ، (تو یہ بات) اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لے لی ہے کہ اُسے بخش دے۔
سیدنا ابوہریرةؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((إن أول ما يحاسب به العبد يوم القيامة من عمله صلاته ، فإن صلحت فقد أفلح وأنجح، وإن فسدت فقد خاب وخسر، فإن انتقص من فريضته شيء، قال الرب تبارك وتعالى: أنظروا هل لعبدي من تطوع فيكمل بها ما انتقص من الفريضة ، ثم يكون سائر عمله على ذلك .))
سنن ترمذی، ابواب الصلاة، رقم: ٤١٣۔ البانیؒ نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
’’روز قیامت ہر بندے سے سب سے پہلے اس کی نماز کا حساب لیا جائے گا، اگر نماز درست ہوئی تو وہ کامیاب و کامران ہوگا، اور اگر نماز خراب ہوئی تو ناکام و نامراد ہوگا، اگر بندہ کے فرائض میں کچھ کمی ہوئی تو رب تعالیٰ فرمائے گا میرے بندے کے نامہ اعمال میں دیکھو کوئی نفلی عبادت ہے؟ اگر ہوئی تو نفل کے ساتھ فرائض کی کمی پوری کی جائے گی، پھر اس کے تمام اعمال کا حساب اسی طرح ہو گا ۔‘‘
نماز حصول جنت کا ذریعہ ہے:
ہر بات میں راضی برضا ہو تو مزا دیکھ
دنیا ہی میں بیٹھے ہوئے جنت کی فضا دیکھ
اللہ تعالیٰ کے جو مومن بندے نماز کی حفاظت کرتے ہیں، جب دنیا سے رخصت ہو کر اپنے رب کے پاس پہنچیں گے، تو اللہ غفور رحیم انھیں عزت و اکرام کے ساتھ جنتوں میں جگہ دے گا ۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ یُحَافِظُوْنَ(34)اُولٰٓىٕكَ فِیْ جَنّٰتٍ مُّكْرَمُوْنَﭤ(35))
(المعارج : ٣٤ – ٣٥)
’’اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں، وہی لوگ جنتوں میں معزز و مکرم رہیں گے ۔‘‘
اور اُمی نبی ﷺ کا فرمان ہے:
((لن يلج النار أحد صلى قبل طلوع الشمس وقبل غروبها يعني الفجر والعصر .))
مسلم، كتاب المساجد، رقم: ١٤٣٦۔
’’جو شخص طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے نماز پڑھے گا ، وہ ہرگز جہنم میں داخل نہیں ہوگا ، یعنی فجر اور عصر کی نماز ۔‘‘
اس حدیث کو سرور دو عالم سے ہم نے بایں الفاظ بھی ادا فرمایا کہ:
(( من صلى البردين دخل الجنة . ))
صحيح مسلم، کتاب المساجد، رقم : ١٤٣٨۔
’’جس نے دو ٹھنڈی ( یعنی فجر اور عصر ) نمازیں پڑھیں ، وہ جنت میں داخل ہوگا ۔‘‘
اور جو شخص سنن را تبہ پر محافظت کرتا ہے اسے بھی رسالت مآب ﷺ نے جنت میں ایک گھر کی بشارت دی ہے ۔ چنانچہ سیدہ اُم حبیبہؓ سے مروی ہے، فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((من صلى فى يوم وليلة ثنتي عشرة ركعة بني له بيت فى الجنة أربعا قبل الظهر، وركعتين بعدها، وركعتين بعد المغرب، وركعتين بعد العشاء، وركعتين قبل صلاة الفجر، صلاة الغداة .))
سنن ترمذی، کتاب الصلاة، رقم: ٤١٩- مسند أبو داؤد طیالسی، رقم: ٤١٩۔ مصنف ابن أبی شیبه ٢٠٤٠٢۰۳/۲- مسند أحمد: ۳۲۹/۹، ۳۲۷۔ صحیح ابن خزیمه، رقم: ١١٨٥، ۱۳۹۲،۱۱۸۷،۱۱۸۹ – صحیح ابن حبان، رقم: ٢٤٥٢٠٢٤٥١- مستدرك حاكم: ٣١١/١ – ابن خزیمہ، ابن حبان، حاکم اور علامہ البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
’’جو شخص ( با قاعدگی سے ) بارہ رکعت (سنتیں) ادا کرے، اس کے لیے جنت میں گھر بنا دیا جاتا ہے، ظہر سے پہلے چار رکعت ، اور اس کے بعد دو رکعت ، دو رکعت نماز مغرب کے بعد دو رکعت نماز عشاء کے بعد اور دو رکعت نماز فجر ( صبح کی نماز ) سے پہلے ۔‘‘
اور جو شخص دن ہو یا رات تحیۃ الوضوء کا اہتمام کرتا ہے وہ بھی جنت حاصل کر لیتا ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے سیدنا بلالؓ سے فجر کے وقت پو چھا:
((حدثني بأرجى عمل عملته فى الإسلام، فإني سمعت دف نعليك بين يدي فى الجنة .))
’’مجھے اپنا سب سے زیادہ امید والا نیک عمل بتاؤ جسے تم نے اسلام لانے کے بعد کیا ہے، کیونکہ میں نے جنت میں اپنے آگے تمہارے جوتوں کی چاپ سنی ہے۔‘‘
تو سیدنا بلالؓ نے عرض کیا:
میں نے تو اپنے نزدیک اس سے زیادہ امید کا کوئی عمل نہیں کیا کہ جب میں نے رات یا دن میں کسی وقت بھی وضو کیا تو میں اس وضو سے نفلی نماز پڑھتارہا، جتنی میری تقدیر میں لکھی گئی تھی۔
صحيح بخاري، كتاب التهجد، رقم: ١١٤٩- صحيح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل بلال رضی الله عنه، رقم : ٦٣٢٤- مسند أحمد: ۱۳۹،۳۳/۲۔
اور سیدنا عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((ما من مسلم يتوضأ فيحسن وضوء ه ثم يقوم فيصلى ركعتين مقبل عليهما بقلبه ووجهه إلا وجبت له الجنة .))
صحيح مسلم، کتاب الطهارة، باب الذكر المستحب عقب الوضوء، رقم: ٥٥٣.
’’جو مسلمان آدمی خوب اچھی طرح وضو کرے، پھر کھڑا ہو کر دل اور منہ سے (ظاہری، اور باطنی طور پر) متوجہ ہو کر دو رکعت نماز پڑھے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔‘‘
نماز اور آسمانی ادیان :
نماز ایک ایسا دینی فریضہ ہے جو تمام ادیان سماویہ میں موجود رہا ہے، جتنے انبیاءؑ اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمائے ، وہ سارے کے سارے نماز کی پابندی کیا کرتے تھے اور اپنی امم کو نماز کی تلقین کیا کرتے تھے۔ چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(وَ جَعَلْنٰهُمْ اَىٕمَّةً یَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْهِمْ فِعْلَ الْخَیْرٰتِ وَ اِقَامَ الصَّلٰوةِ وَ اِیْتَآءَ الزَّكٰوةِۚ-وَ كَانُوْا لَنَا عٰبِدِیْنَ)
(الأنبياء : ٧٣)
’’اور ہم نے انھیں پیشوا بنایا جو ہمارے حکم کے مطابق لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے۔ اور ہم نے ان کے پاس وحی بھیجی تھی کہ وہ اچھے کام کریں، اور نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں اور وہ سب ہماری ہی عبادت کرتے تھے ۔‘‘
سیدنا زکریاؑ اور حفاظت نماز :
سیدنا زکریاؑ، مریم علیہؑ کے ساتھ اللہ کا فضل و کرم دیکھتے ہیں، تو اپنی کبر سنی اور بیوی کے سن یاس کو پہنچ جانے کے باوجود ولد صالح کے لیے دعا کرتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالی نے ان کی دعا قبول کرلی، اور فرشتوں کے ذریعے ولد صالح کی بشارت بھیج دی، فرشتوں نے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ایک لڑکے کی خوشخبری دیتا ہے، جس کا نام یحییٰ ہوگا، جو سیدنا عیسیؑ کی تصدیق کرے گا، علم و عبادت میں لوگوں کا سردار ہوگا، گناہوں سے محفوظ رہے گا، اور نبی صالح ہوگا، سیدنا زکریاؑ کو جس وقت یہ خوشخبری ملی۔ آپ حالت نماز میں تھے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ هُوَ قَآىٕمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِۙ-اَنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ)
(آل عمران : ٣٩)
’’تو فرشتوں نے انھیں آواز دی، جب کہ وہ محراب میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے کہ اللہ آپ کو یحییٰ کی بشارت دے رہا ہے، جو اللہ کے کلمہ (عیسیٰ) کی تصدیق کرنے والا ، سردار، پاکباز اور صالح نبی ہوگا۔‘‘
سیدنا موسیٰ و ہارونؑ اور حفاظت نماز :
اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ و ہارونؑ کو حکم فرمایا کہ تم لوگ اپنے گھروں کو مساجد کے طور پر استعمال کرو، اور اندر ہی نماز پڑھ لیا کرو، تاکہ فرعون کے کارندے تمھیں باہر مساجد میں نماز پڑھتے دیکھ کر ایذاء نہ پہنچا ئیں۔
(وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰى وَ اَخِیْهِ اَنْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُیُوْتًا وَّ اجْعَلُوْا بُیُوْتَكُمْ قِبْلَةً وَّ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَؕ-وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ)
(یونس : ۸۷)
’’اور ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی کے پاس وحی بھیجی کہ تم دونوں اپنی قوم کے لیے مصر میں گھر مہیا کرو، اور اپنے ان گھروں کو مسجد بنالو اور پابندی کے ساتھ نماز ادا کرو، اور اے موسیٰ ! آپ مومنوں کو خوشخبری دے دیجیے۔‘‘
سیدنا عیسیؑ اور حفاظت نماز :
سیدنا عیسیٰؑ لوگوں کی بات سن کر بول پڑتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے ازل میں فیصلہ کیا ہے کہ وہ مجھے انجیل دے گا اور مجھے نبی بنائے گا، اور میں جہاں بھی رہوں گا اس نے مجھے صاحب خیر و برکت، اور صاحب دعوت بنایا ہے۔ میں اپنے رب کا پیغام لوگوں تک پہنچا تا رہوں گا، اور مجھے وصیت کی ہے کہ تادم حیات نماز پڑھوں، اور زکوۃ ادا کروں۔
(قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ ﳴ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّا(30) وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَكًا اَیْنَ مَا كُنْتُ۪-وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّا(31))
(مريم: ۳۰-۳۱)
’’کہا (عیسی نے) بے شک میں اللہ کا بندہ ہوں ، اس نے مجھے انجیل دی ہے، اور مجھے نبی بنایا ہے، اور جہاں بھی رہوں مجھے با برکت بنایا ہے اور جب تک زندہ رہوں مجھے نماز اور زکوٰۃ کی وصیت کی ہے۔‘‘
سیدنا شعیبؑ اور حفاظت نماز :
سیدنا شعیبؑ بکثرت نماز پڑھتے تھے اور ذکر اللہ میں مشغول رہتے تھے، اسی لیے کفار نے ان کی پیش کردہ دعوت کو ٹھکراتے ہوئے کہا کہ اے شعیب ! کیا آپ کی نمازیں آپ کو حکم کرتی ہیں کہ ہم ان معبودوں کو ترک کر دیں جن کی پرستش ہمارے آباؤ و اجداد کرتے تھے۔
( قَالُوا يَا شُعَيْبُ أَصَلَاتُكَ تَأْمُرُكَ أَن نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا)
(هود: ۸۷)
’’انھوں نے کہا، اے شعیب ! کیا تمہاری نمازیں تمہیں حکم دیتی ہیں کہ ہم ان معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کرتے تھے؟‘‘
سیدنا ابراہیمؑ اور حفاظت نماز :
سیدنا ابراہیمؑ اپنی اولاد کو بیت حرام کے پاس اس لیے بساتے ہیں کہ وہ وہاں نماز قائم کریں۔
(رَبَّنَاۤ اِنِّیْۤ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِكَ الْمُحَرَّمِۙ -رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ)
(ابراهيم : ۳۷)
’’اے ہمارے رب! میں نے اپنی بعض اولاد کو تیرے بیت حرام کے پاس ایک وادی میں بسایا ہے، جہاں کوئی کھیتی نہیں ہے، اے ہمارے رب ! میں نے ایسا اس لیے کیا ہے تا کہ وہ نماز قائم کریں ۔‘‘
اور پھر انھوں نے اپنے رب سے یہ دعا بھی کی کہ وہ انھیں اور ان کی اولاد کو نماز کا پابند بنا دے، اور ان کی تمام دعاؤں کو بالعموم اور اس دعا کو بالخصوص قبول فرمالے:
(رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلوة وَمِنْ ذُريَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلُ دُعاء)
(ابراهيم : ٤٠)
’’اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو نماز کا پابند بنادے، اے ہمارے رب! اور میری دعا کو قبول فرمالے ۔‘‘
سیدنا اسماعیلؑ اور حفاظت نماز :
سیدنا اسماعیلؑ رسول اور نبی تھے ۔ نماز کی خود پابندی کرتے اور اپنے اہل وعیال کو نماز و زکوٰۃ اور دیگر نیک کاموں کا حکم دیتے تھے ، تاکہ دوسروں کے لیے اچھی مثال بنیں۔
( وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا ﴿٥٤﴾ وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِندَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا ﴿٥٥﴾)
(مريم : ٥٤-٥٥)
’’اور آپ قرآن میں اسماعیل کا ذکر کیجیے، وہ وعدہ کے بڑے سچے تھے، اور رسول و نبی تھے، اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوۃ کا حکم دیتے تھے، اور وہ اپنے رب کے نزدیک بڑے پسندیدہ تھے۔‘‘
سیدنا سلیمانؑ اور حفاظت نماز :
سیدنا سلیمانؑ کا نماز کے متعلق شوق دیکھئے گا، ایک دن گھوڑوں کی دیکھ بھال میں ایسا مشغول ہوئے کہ عصر کی نماز کا وقت گزر گیا، چنانچہ سیدنا سلیمانؑ اس پر بائیں الفاظ اظہار افسوس کرتے ہیں:
(اِذْ عُرِضَ عَلَیْهِ بِالْعَشِیِّ الصّٰفِنٰتُ الْجِیَادُ(31)فَقَالَ اِنِّیْۤ اَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَیْرِ عَنْ ذِكْرِ رَبِّیْۚ-حَتّٰى تَوَارَتْ بِالْحِجَابِﭨ(32))
(ص: ۳۱-۳۲)
’’جب شام کے وقت ان کے سامنے عمدہ گھوڑے لائے گئے ، تو انھوں نے کہا کہ میں اپنے رب کی یاد سے غافل ہو کر ان گھوڑوں میں دلچسپی لینے لگا، یہاں تک کہ آفتاب پردے میں چھپ گیا۔‘‘
امام الانبیاء، سید البشر محمد رسول اللہ ﷺ اور حفاظت نماز :
اللہ تعالیٰ نے محسن انسانیت محمد رسول اللہ ﷺ کو نماز قائم کرنے کا حکم دیا ہے، کیونکہ نماز ہر قسم کی برائیوں سے روکتی ہے۔
( اَقِمِ الصَّلٰوةَؕ-اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ)
(العنكبوت: ٤٥)
’’نماز قائم کیجیے، بے شک نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے۔‘‘
دوسرے مقام پر فرمایا:
(وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِؕ-اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّاٰتِؕ-ذٰلِكَ ذِكْرٰى لِلذّٰكِرِیْنَ)
(هود: ١١٤)
’’اور آپ دن کے دونوں طرف اور رات گئے نماز قائم کیجیے، بے شک اچھائیاں برائیوں کو ختم کر دیتی ہیں۔ یہ نصیحت ہے نصیحت پکڑنے والوں کے لیے ۔‘‘
اور سورۃ بنی اسرائیل میں فرمایا:
(اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّیْلِ وَ قُرْاٰنَ الْفَجْرِؕ-اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا)
(بنی اسرائیل : ۷۸)
’’آپ زوال آفتاب کے وقت سے رات کی تاریکی تک نماز قائم کیجیے، اور فجر کی نماز میں قرآن پڑھیئے ، بے شک فجر میں قرآن پڑھنے کا وقت فرشتوں کی حاضری کا وقت ہوتا ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو نماز قائم کرنے کا حکم دیا ہے، جو سب سے اہم عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کا سب سے بہتر طریقہ ہے، جیسا کہ اللہ نے سورۃ البقرۃ میں فرمایا ہے:
(وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ)
(البقرة : ٤٥)
’’اے مسلمانو! تم لوگ صبر اور نماز کے ذریعہ اللہ سے مدد مانگو۔‘‘
’’مفسرین کا اجماع ہے کہ اس سے مراد نماز پنجگانہ ہے، جس کی ادائیگی ان کے محدود اوقات میں فرض ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اور اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ (دُلُوكِ الشمس) کا معنی ’’زوال آفتاب ہے، جو ظہر اور عصر کی نماز پر دلالت کرتا ہے، اور (غسَقِ الَّيْلِ) سے مراد ’’رات کی تاریکی‘‘ ہے جو مغرب اور عشاء کے درمیان مشترک ہے، اور (قُرآنَ الْفَجْرِ) سے مراد ’’نماز فجر‘‘ ہے۔ (تیسیر الرحمٰن ص: ۸۲۰) حافظ ابن کثیرؒ کہتے ہیں:
’’معلم کائنات، محمد رسول اللہ ﷺ کی متواتر قولی اور فعلی سنتوں کے ذریعہ ان اوقات کی تفصیل بیان کی جاچکی ہے، اور ابتدائے اسلام سے آج تک امت اس پر عمل پیرا ہے۔‘‘
(تفسیر ابن کثیر، تحت الآیة)
مفسر ابو السعود لکھتے ہیں:
’’کہ جبریلؑ نے ہر نماز کا وقت بیان کر دیا، اور نبی کریم ﷺ نے ہر نماز کی تعداد رکعات بیان فرمادی ۔‘‘
(تیسیر الرحمٰن ہیں: ۸۲۱)
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے پیغمبر سید نا محمد رسول اللہ ﷺ کو نماز کی حفاظت اور پھر اس راہ میں پیش آنے والی ہر تکلیف پر صبر کرنے کا حکم فرمایا، اور ساتھ یہ بھی حکم دیا کہ وہ اپنے گھر والوں کو بھی نماز کی تلقین کریں۔
(وَ اْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَیْهَاؕ)
(طه: ۱۳۲)
’’اور آپ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیں، اور خود بھی اس کی پابندی اور حفاظت کیجیے۔‘‘
نماز ہی وہ فریضہ ہے جس کا اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر عمل اور ہر فرض سے پہلے نبوت کے ذریعے حکم دیا ہے اور دنیا سے رخصت ہوتے وقت نبی کریم ﷺ نے اس کی وصیت کی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
’’خبردار رہو نماز کے معاملہ میں، اپنے غلاموں کے معاملے میں دوسری حدیث ہے کہ یہ نماز تمام انبیاء کی اپنی امت کو وصیت رہی ہے اور دنیا سے رخصت ہوتے وقت وہ ان کو آخری تلقین اسی کی کرتے ہیں۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں آپ ﷺ کے بارے میں آتا ہے کہ
’’آپ ﷺ زندگی کے آخری لمحات میں فرما رہے تھے کہ نماز ، نماز اور نماز ۔‘‘
نماز وہ اولیں فریضہ ہے جسے ان پر فرض کیا گیا اور سب سے آخر میں اس کی وصیت کی گئی، یہ اسلام سے رخصت ہونے والا آخری عمل ہے اور قیامت کے دن بندے سے پوچھا جانے والا سب سے پہلا عمل، یہ اسلام کا ستون ہے، اس کے بغیر اسلام باقی رہتا ہے، نہ دین، اللہ کے لیے اپنے تمام معاملات عام طور سے اور نمازوں میں خاص طور سے تقومی اختیار کیجیے، اسے مضبوطی سے تھام لیجیے، اسے ضائع ہونے سے بچائیے ، اس کا مذاق اڑانے سے دریغ کیجیے اور اس میں امام سے آگے بڑھنے سے کنارہ کش رہیے اور شیطان کے دھو کے میں نہ آئے کہ آپ کو نماز سے باہر کر دے کہ یہ آپ کے دین کا آخری حصہ ہے اور جس کے دین کا آخری حصہ چلا گیا، اس کا پورا دین چلا گیا تو اپنے دین کے آخری حصہ کو مضبوطی سے تھام لیجیے ۔
نماز، از امام احمد بن حنبل تحقیق شیخ محمد حامد التقی مقدمه ص:۸۰-۸۱۔
نبی کریم ﷺ کی نماز سے والہانہ شیفتگی:
آنحضرت ﷺ کی نماز سے والہانی شیفتگی اور اس کے اہتمام کا انداز و فرمائیے گا کہ رات کو اتنا لمبا قیام فرماتے کہ آپ کے قدم مبارک سوج جایا کرتے ، انہیں ورم پڑ جاتا۔ چنانچہ سید نا مغیرہ بن شعبہؓ بیان فرماتے ہیں کہ :
((قام النبى صلى الله عليه وسلم حتى تورمت قدماه، فقيل له غفر الله لك ما تقدم من ذنبك وما تأخر قال: أفلا أكون عبدا شكورا ))
صحیح بخاری، کتاب التفسير، رقم: ٤٨٣٦۔
’’نبی کریم ﷺ رات کو اتنا لمبا قیام فرماتے کہ آپ کے دونوں پاؤں مبارک کو ورم پڑ جاتا۔ آپ سے عرض کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کی اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف کر دی ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا ، کیا میں (اللہ تعالیٰ کا) شکر گزار بندہ نہ بنوں؟‘‘
اور بعض دفعہ تمام رات نماز پڑھتے رہتے ، یہاں تک کہ صبح ہو جاتی ۔ سید نا ابوذرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صبح تک ایک ہی آیت کے ساتھ قیام فرمایا، یعنی صرف یہی آیت تلاوت فرماتے ، اور رکوع و سجود کرتے رہے، اور وہ آیت کریمہ یہ ہے:
(اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَۚ-وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ)
(المائده : ۱۱۸)
’’اگر تو ان کو عذاب میں مبتلا کرے تو بلا شبہ وہ تیرے بندے ہیں، اور اگر تو ان کو معاف کر دے تو یقینا تو غالب حکمت والا ہے۔‘‘
سنن ابن ماجة، كتاب الصلاة، باب ماجاء في صلاة الليل، رقم: ١٣٥٠ – علامہ البانی رحمہ اللہ نے حسن کہا ہے۔ مسند احمد : ١٤٩/٥، رقم: ۲۱۳۲۸ – مصنف ابن أبي شيبه : ۱۱/ ٤٩٧ – ٤٩٨ – سنن الكبرى للبيهقي : ۱۳/۳.
سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریمﷺ کے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں جب نماز کا وقت آیا اور اذان دی گئی تو فرمایا :
ابو بکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائے ۔ اس وقت آپ سے کہا گیا کہ سیدنا ابوبکر بڑے نرم دل انسان ہیں۔ اگر وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو نماز پڑھانا ان کے لیے مشکل ہو جائے گا۔ آپ ﷺ نے پھر دوبارہ یہی حکم صادر فرمایا، اور آپ کے سامنے پھر وہی بات دہرا دی گئی۔ چنانچہ تیسری مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’تم تو بالکل یوسفؑ کے ساتھ والی عورتوں کی طرح ہو۔ ابو بکرؓ سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔ بالآخر سید نا ابو بکرؓ نماز پڑھانے کے لیے تشریف لائے ۔ اتنے میں نبی کریم ﷺ نے بیماری میں کچھ کمی محسوس کی اور دو آدمیوں کا سہارا لے کر نماز کے لیے باہر تشریف لے گئے ۔ گویا میں اس وقت آپ کے قدموں کو دیکھ رہی ہوں کہ بوجہ تکلیف زمین پر لگ رہے تھے۔ سیدنا ابو بکرؓ نے یہ دیکھ کر پیچھے ہٹنا چاہا، لیکن رسول اللہ ﷺ نے اشارہ سے انہیں اپنی جگہ پر رہنے کے لیے فرمایا۔ پھر آپ قریب آئے اور سیدنا ابوبکرؓ کے پہلو میں بیٹھ گئے اور لوگوں کو نماز پڑھائی ۔‘‘
صحیح بخاری، كتاب الأذان، باب حد المريض أن يشهد الجماعة ، رقم : ٦٤٤:
صحابہ کرامؓ کا ذوق نماز :
میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلمان میں اسی لیے نمازی
صحابہ کرامؓ کے ذوق نماز اور نماز سے بے پناہ شغف کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کسی حالت میں بھی نماز نہیں ترک کرتے تھے، وہ مسجد کا رخ کرتے اور بارگاہ ایزدی میں حاضری بجالاتے تھے ۔ چنانچہ :
سیدنا ابو بکر صدیقؓ جب نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے تو ان پر شدت سے رقت طاری ہو جاتی اور نماز میں اس درد سے روتے تھے کہ ان کے رونے کی وجہ سے ان کے رونے کی وجہ سے آواز قرآت آخری صفوں تک نہیں پہنچتی تھی ۔
صحیح بخاری، کتاب الأذان، رقم : ٦٧٨۔
سیدنا عمرؓ جب منصب خلافت پر فائز ہوئے ، تو آپ نے دین کی بقاء نماز میں کبھی اور اپنے حکومتی عہدیداروں کو ان کی ذمہ داری کی یاد دہانی کراتے ہوئے لکھا:
((إن أهم أموركم عندى الصلوة ، فمن حفظها وحافظ عليها حفظ دينه ، ومن ضيعها فهو لما سواها أضبع .))
موطا امام مالك، كتاب وقوت الصلاة، رقم: ٦- مشكوة: ٥٩/١۔
’’تمہارے کاموں میں سب سے زیادہ اہمیت میرے نزدیک نماز کی ہے جو شخص اپنی نماز کی حفاظت کرے گا، اور اس کی دیکھ بھال کرتا رہے گا وہ اپنے پورے دین کی حفاظت کرے گا، اور جو نماز کو ضائع کر دے گا تو وہ باقی تمام چیزوں کو بدرجہ اولی برباد کر دینے والا ثابت ہوگا۔‘‘
سیدنا انسؓ قیام اور سجدہ میں اس قدر دیر لگاتے تھے کہ لوگ سمجھتے آپ کچھ بھول گئے ہیں ۔
صحیح بخاری، کتاب الأذان، باب المكث بين السجدتين، رقم: ۸۲۱۔
سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے، نماز کے ساتھ آپ کو والہانہ محبت تھی ۔
حلية الأولياء: ٢٥٥/١.
آپ جب نماز میں کھڑے ہوتے تو کئی کئی سورتیں پڑھ جاتے ، اور اس طرح کھڑے ہوتے ، معلوم ہوتا کہ کوئی ستون کھڑا ہے۔
الإصابة: ٨١/٤ أسد الغابة : ٢٤٨٣/٣۔
سید نا تمیم بن اوس الداریؓ تہجد گزار تھے ، ایک رات نماز تہجد کے لیے کھڑے ہوئے تو صرف ایک آیت کی تلاوت میں صبح کر دی، بار بار اس کو دہراتے رہے .. اور وہ آیت کریمہ یہ تھی:
(اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِۙ-سَوَآءً مَّحْیَاهُمْ وَ مَمَاتُهُمْؕ-سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ)
(الحالية : ٢١)
’’کیا جو لوگ گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں، ہم انہیں اُن کی طرح کر دیں گے جو ایمان لائے اور انھوں نے اعمال صالحہ کیے، ان دونوں جماعتوں کا جینا اور مرنا ایک جیسا ہو، وہ لوگ بہت ہی برا فیصلہ کرتے ہیں۔‘‘
أسد الغابة : ٠٤٢٩/١
اور سید نا عدی بن حاتمؓ فرمایا کرتے:
میں ہر نماز کے وقت کا مشتاق رہتا ہوں، اور ان کا یہ بھی بیان ہے کہ جب سے میں حلقہ بگوش اسلام ہوا ہوں کوئی ایک نماز ایسی نہیں گزری کہ اس کی اقامت کے وقت میں باوضو نہ ہوں۔ یعنی اس کی تیاری کے لیے پہلے سے ہی با وضو تھا۔
سير أعلام النبلاء: ١٦٤/٣۔
سید نا عمر بن خطابؓ کے بارے میں آتا ہے کہ:
’’انہوں نے نماز میں ایک شخص کو غیر حاضر پایا، چنانچہ اس کے گھر گئے اور اُس کو آواز دی تو وہ آدمی نکلا ، آپ نے اس سے پوچھا، تم کو نماز سے کس چیز نے روکا تھا، اس نے کہا:
امیر المومنین! ایک بیماری ہے، اگر میں نے آپ کی آواز نہ سنی ہوتی تو میں نہ نکلتا ، یا اُس نے کہا کہ میں نہ نکل سکتا تھا، تو آپ نے فرمایا:
’’تو نے نماز کی پکار کو چھوڑ دیا جو میری پکار کے مقابلہ میں تم پر کہیں زیادہ واجب ہے‘‘
سید نا عمرؓ ہی کے بارے میں آتا ہے کہ :
انہوں نے کچھ لوگوں کو نماز میں نہیں پایا تو کہا:
کیا بات ہے یہ لوگ نماز سے پیچھے رہتے ہیں؟ ان کے پیچھے رہ جانے کی وجہ سے دوسرے بھی پیچھے ہونے لگتے ہیں؟ وہ لوگ مسجد میں آئیں ورنہ میں ان کے پاس ایسے لوگوں کو بھیجوں گا جو انہیں گردن سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے لائیں گے ۔ پھر فرماتے ہیں:
” نماز میں حاضر رہو، نماز میں حاضر رہو ۔ “
نماز، از امام احمد بن حنبل تحقیق شیخ محمد حامد الفقی ، مقدمه ص ۱۲۲ تا ۱۳۳۔
سلف صالحین کے نماز سے بے پناہ محبت کے چند نمونے:
عثمان بن حکیم بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا سعید بن المسیبؒ کو فرماتے ہوئے سنا کہ گزشتہ تمہیں (۳۰) سالوں سے میرا یہ معمول ہے کہ جب بھی مؤذن اذان دیتا ہے تو میں مسجد میں موجود ہوتا ہوں ۔
سير أعلام النبلاء : ٢٢١/٤ – حلية الأولياء: ١٦٢/٢۔
ابو حیان اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ الربیع بن خثیمؒ کونماز کے لیے لایا جاتا تھا حالانکہ وہ فالج میں مبتلا تھے، پس ان سے کہا گیا کہ آپ کے لیے تو ( شرعی طور پر ) رخصت موجود ہے، تو فرمانے لگے، میں مؤذن کی ((حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ)) ’’آؤ نماز کی طرف‘‘ سنتا ہوں تو نماز کے لیے مسجد میں کیوں نہ آؤں؟ پس تم لوگ بھی نماز کے لیے مسجد میں آ سکو تو ضرور آؤ، اگر چہ زمین پر گھسیٹتے ہوئے ہی کیوں نہ آنا پڑے۔
أعلام النبلاء: ٢٦٠/٤ – طبقات ابن سعد : ٦/ ۱۹۰،۱۸۹ – المعرفة والتاريخ: ٥٧١/٢ .حلية الأولياء : ٢/ ١١٣، ١١٥۔
سیدنا مصعب فرماتے ہیں کہ عامرؒ بن عبداللہ بن زبیر نے مؤذن کی آواز سنی اور ان کی روح پرواز کرنے والی تھی، تو انہوں نے کہا کہ میرا ہاتھ پکڑو (اور مجھے نماز کے لیے لے چلو) پس ان سے کہا گیا کہ آپ مریض ہیں ، فرمانے لگے : میں اللہ کے داعی کی آواز سنتا ہوں، پھر میں اس پر لبیک کیوں نہ کہوں؟ پس لوگوں نے ان کا ہاتھ پکڑا، اور نماز کے لیے مسجد لے گئے تو وہ امام کے ساتھ نماز مغرب میں شریک ہو گئے ، ابھی انہوں نے ایک رکعت نماز ادا کی تھی کہ اس دار فانی سے انتقال کر گئے ۔
سیر أعلام النبلاء: ٢٢٠١٥۔
محمد بن خفیفؒ سے منقول ہے کہ ان کی کمر میں شدید درد تھا، جب کمر کا درد اٹھتا تھا وہ نقل و حرکت سے عاجز آ جاتے تھے، اسی دوران جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ، تو انہیں ایک آدمی کی پیٹھ پر لاد کے مسجد لایا جا تا تھا۔ ان سے کہا گیا:
اگر آپ اپنی جان پر ترس کھا ئیں تو ؟ انہوں نے جواب دیا:
جب تم ((حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ .)) ’’آؤ نماز کے لیے‘‘ کی آواز سنو، اور مجھے نمازیوں کی صف میں نہ دیکھو، تو پھر مجھے قبرستان میں تلاش کرنا۔
سیر أعلام النبلاء: ٣٤٦/١٦۔
اور یونس بن محمد المؤدبؒ فرماتے ہیں کہ حماد بن سلمہؒ کی وفات مسجد میں حالت نماز میں ہوئی۔
سیر أعلام النبلاء: ٤٤٨/٧ – حلية الأولياء : ١٦ ٢٥٠۔
اور عصر حاضر کے مشہور قلمکار مولانا عبدالرحمن کیلانیؒ کی وفات بھی حالت نماز میں ہوئی ۔ چنانچہ پروفیسر نجیب الرحمن کیلانی حفظ اللہ لکھتے ہیں کہ ۱۸ دسمبر ۱۹۹۵ء کو رات کا کھانا کھا رہے تھے کہ نماز عشاء کا وقت ہو گیا۔ وضو کیا اور مسجد کی طرف چل دیے۔ جا کر پہلی صف میں دائیں طرف جگہ ملی ، پہلے سجدہ کے دوران روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ۔
مقدمه تیسیر القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی : ۸/۱۔
اسی طرح مصنف کتب کثیرہ خواجہ محمد قاسمؒ بھی جمعہ کی نماز کی امامت کرتے ہوئے حالت تشہد میں فوت ہوئے ۔ خواجہؒ انتہائی جید وفقیہ عالم تھے۔
اور سید نا وکیع بن الجراح فرماتے ہیں کہ جو شخص نماز کا وقت آنے سے پہلے نماز کی تیاری نہ کرے، گویا اس نے نماز کی تو قیر وتعظیم نہیں کی۔
كتاب الزهد ، لوكيع بن الجراح: ٥٠/١، بتحقيق الفريوائي.
نماز دراصل اللہ وحدہ لاشریک کے لیے کمال بندگی کا اظہار ہے:
شریک کار کی حاجت نہیں ہے تیری قدرت کو
نبی ہو یا ولی ہر اک تیرے در کا سوالی ہے
انسانیت کی تخلیق کا مقصد ہی اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرنا ہے۔ فرمانِ باری تعالی ہے:
(وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ)
(الذاريات : ٥٦)
’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ۔‘‘
نماز ، تسبیح و تحلیل دراصل اللہ وحدہ لاشریک کے لیے کمال بندگی اور اطاعت کا اظہار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آسمان و زمین میں پائی جانے والی تمام مخلوقات ، خواہ وہ فرشتے ہوں یا بنی نوع انسان ، جن یا حیوان، حتی کہ جمادات بھی اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ چڑیاں فضا میں پرواز کرتی ہوئی اپنے رب کی تسبیح بیان کرتی ہیں اور نماز ادا کرتی ہیں۔ کائنات کی ہر چیز کو معلوم ہے کہ اسے اللہ کی تسبیح کیسے بیان کرنی ہے اور نماز کیسے ادا کرنی ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کا بنیادی حق عبادت ادا ہو سکے ۔ فرمانِ باری تعالی ہے:
(اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یُسَبِّحُ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الطَّیْرُ صٰٓفّٰتٍؕ-كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَ تَسْبِیْحَهٗؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَفْعَلُوْنَ)
(النور: ٤١)
’’اے میرے نبی! آپ دیکھتے نہیں کہ آسمانوں اور زمین میں پائی جانے والی تمام مخلوقات اور فضا میں پر پھیلا کر اڑتی ہوئی چڑیاں ، کبھی اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہیں۔ ہر مخلوق اپنی نماز اور تسبیح کو جانتی ہے اور اللہ ان سب کے اعمال سے خوب واقف ہے۔‘‘
انسان اور دیگر تمام مخلوقات کے سائے بھی اللہ رب العزت کو سجدہ کرتے ہیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ سایہ بھی حقیقی معنوں میں اللہ کو سجدہ کرتا ہے۔ جیسا کہ پہاڑ اللہ کی تسبیح میں مشغول ہوتے ہیں:
(اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَ الْاِشْرَاقِ)
(ص: ۱۸)
’’ہم نے پہاڑوں کو ان کے لیے مسخر کر دیا تھا، وہ شام اور صبح کے وقت اُن کے ساتھ تسبیح پڑھتے تھے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے سورۃ النحل میں ارشاد فرمایا ہے:
((اَوَ لَمْ یَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَیْءٍ یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْیَمِیْنِ وَ الشَّمَآىٕلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَ هُمْ دٰخِرُوْنَ))
(النحل : ٤٨)
’’کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے جتنی چیزیں پیدا کی ہیں، ان کے سائے وائیں اور بائیں سے اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے ڈھلتے ہیں، اور وہ اللہ کے لیے عاجزی اور انکساری کیسے ہوتے ہیں۔‘‘
اور سورۃ الرعد میں فرمایا:
(وَ لِلّٰهِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ كَرْهًا وَّ ظِلٰلُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ)
(الرعد: ١٥)
’’اور آسمانوں اور زمین میں رہنے والی ساری مخلوقات صرف اللہ کوسجدہ کرتی ہیں، چاہے خوشی سے کریں یا مجبور ہو کر، ان کے سائے بھی صبح و شام اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔‘‘
الغرض تمام آسمان وزمین اور ان میں پائی جانے والی مخلوقات اللہ کی پاکی بیان کرتی ہیں اور تمام نقائص و عیوب سے اسے بلند و بالا سمجھتی ہیں، لیکن لوگ ان کی تسبیحات اور نماز و عبادت کو نہیں سمجھتے ہیں۔ حافظ ابن کثیرؒ نے اپنی تفسیر میں اور راغب اصفہانی باللہ نے اپنی کتاب ’’المفردات‘‘ میں اسی بات کو ترجیح دی ہے۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(تُسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّبْعُ وَ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْهِنَّؕ-وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَ لٰـكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا)
(بنی اسرائیل: ٤٤)
’’ساتوں آسمان اور زمین اور جو مخلوقات اُن میں پائے جاتے ہیں، کبھی اس کی پاکی بیان کرتے ہیں اور ہر چیز صرف اس کی حمد و ثناء اور پاکی بیان کرنے میں مشغول ہے، لیکن تم لوگ ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے ہو، وہ بے شک بڑا بردبار، بڑا معاف کرنے والا ہے۔‘‘
نماز نفس انسانی کے اندر تقویٰ کی روح پیدا کرتی ہے:
فرمانِ باری تعالی ہے:
(وَأَنْ أَقِيمُوا الصَّلوةَ وَاتَّقُوهُ)
(الانعام : ۷۲)
’’اور یہ کہ نماز قائم کرو، اور تقوی اختیار کرو۔‘‘
سید نا ابن عباسؓ کہتے ہیں:
’’متقی ان لوگوں کو کہتے ہیں جو راہ ہدایت پر نہ چلنے کی صورت میں اللہ کے عقاب سے ڈرتے ہیں، اور دین اسلام کی تصدیق اور اس پر چلنے کی صورت میں اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں‘‘
سیدنا ابو ہریرہؓ سے کسی نے تقویٰ کا معنی پوچھا:
’’تو کہا کہ کبھی خاردار راستہ پر چلے ہو؟‘‘ اس نے کہا:
ہاں! تو انہوں نے پوچھا تم نے کس طرح راستہ طے کیا ؟ اس نے کہا:
جب کا نٹا دیکھتا تو اس سے الگ ہو جاتا۔ تو انہوں نے کہا یہی ’’تقویٰ‘‘ ہے۔
(تیسیر الرحمٰن ص: ۱۶)
بلاشبہ نماز انسان کے اندر تقوی، پرہیزگاری اور خشیت الہٰی پیدا کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کی عظیم صفت کے حاملین ’’متقین‘‘ کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ نماز کی پابندی کرتے ہیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(الٓمّٓ(1)ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْهِ ۚۛ-هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ(2) الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ(3))
(البقرة : ١-٢-٣)
’’الم ، اس کتاب میں کوئی شک وشبہ نہیں، اللہ سے ڈرنے والوں کی راہنمائی کرتی ہے، جو غیبی امور پر ایمان لاتے ہیں، اور نماز قائم کرتے ہیں.‘‘
انبياء عليہم الصلوٰۃ والسلام اس کی مجسم تفسیر ہیں، جب وہ نماز کے لیے بارگاہ ایزدی میں کھڑے ہوتے ، تو خشیت الہی سے گریہ کرنے لگ جاتے ۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ مِنْ ذُرِّیَّةِ اٰدَمَۗ-وَ مِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ٘-وَّ مِنْ ذُرِّیَّةِ اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْرَآءِیْلَ٘-وَ مِمَّنْ هَدَیْنَا وَ اجْتَبَیْنَاؕ-اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ بُكِیًّا(58)فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا(59))
(مريم: ٥٨-٥٩)
’’یہی وہ انبیاء ہیں جن پر اللہ نے اپنا خاص انعام کیا تھا، جو آدم کی اولاد اور ان کی اولاد سے تھے جنھیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا، اور جو ابراہیم اور یعقوب کی اولاد سے تھے، اور وہ ان میں سے تھے جنہیں ہم نے ہدایت دی تھی اور جنہیں ہم نے چن لیا تھا، جب ان کے سامنے رحمن کی آیتوں کی تلاوت ہوتی تھی تو سجدہ کرتے ہوئے ، اور روتے ہوئے زمین پر گر جاتے تھے ۔‘‘
رسول اللہ ﷺ جب نماز میں کھڑے ہوتے تو اللہ کے ڈر اور خوف سے گریہ کرتے حتی کہ نبی التو به محمد ﷺ کے سینے سے ہنڈیا کے اپنے اور جوش مارنے جیسی آواز محسوس ہوا کرتی، چنانچہ سید نا عبداللہ بن شخیرؓ فرماتے ہیں:
((رأيت رسول الله ﷺ يصلي وفي صدره أزيز كأزيز الرحى من البكاء .))
سنن أبو داؤد، کتاب الصلاة، باب البكاء في الصلاة، رقم ٩٠٤ – صحیح ابن حبان ، رقم : ٧٥٣- مستدرك حاكم: ٢٤٦/١ – مسند أحمد : ٤ / ٢٥، رقم: ۱۶۱۳۱۲۔ ابن حبان، حاکم ، ذہبی اور علامہ البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
’’میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے دیکھا، نماز میں رونے کی وجہ سے آپ ﷺ کے سینے سے چیکی چلنے کی طرح آواز آ رہی تھی ۔‘‘
نماز اور انابت الہیٰ:
نماز انسان کو انابت الہی کا درس دیتی ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(مُنِیْبِیْنَ اِلَیْهِ وَ اتَّقُوْهُ وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ)
(الروم : ۳۱)
’’اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے اسی سے ڈرو، اور نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہو جاؤ۔‘‘
پس نمازی اپنے رب کے اوامر کی پابندی کرنے لگتا ہے، اور نواہی سے اجتناب کرتا ہے، راتوں کو کم سوتا ہے، یعنی رات کا بیشتر حصہ نماز تہجد میں گزارتا ہے، اور جب صبح کے وقت اٹھتا ہے تو نیند کی قلت اور نماز تہجد کی کثرت کے باوجود، اسے احساس ہوتا ہے کہ جیسے اس کے گناہ اور جرائم بہت ہیں، اسی لیے وہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے اور توبہ و استغفار میں مشغول ہو جاتا ہے:
(كَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا یَهْجَعُوْنَ(17)وَ بِالْاَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(18))
(الذاريات : ۱۸۰۱۷)
’’وہ راتوں میں کم سوتے تھے، اور صبح کے وقت اپنے رب سے مغفرت طلب کرتے تھے۔‘‘
نمازی لوگوں کی یہ صفت ہوتی ہے کہ جب ان سے کبیرہ یا صغیرہ گناہ سرزد ہو جا ئیں، تو انہیں اللہ تعالیٰ سے حیا آتی ہے، اور اس کے عذاب سے ڈرنے لگتے ہیں، اور فوراً استغفار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
(وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ۫-وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ)
(آل عمران : ١٣٥)
’’اور جب ان سے کوئی بدکاری ہو جاتی ہے، یا اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور اپنے گناہوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں، اور اللہ کے علاوہ کون گناہوں کو معاف کر سکتا ہے، اور اپنے کیے پر جان بوجھ کر اصرار نہیں کرتے ۔‘‘
نماز اور زہد (دنیا سے بے رغبتی):
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
نماز انسان میں زہد یعنی دنیا سے بے رغبتی پیدا کر کے فکر آخرت پیدا کرتی ہے۔ سیدنا ابوایوب انصاریؓ بیان کرتے ہیں:
ایک شخص نبی معظم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا:
مجھے مختصر الفاظ میں نصیحت کیجیے ۔ نبی معظم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((إذا أنت صليت فصل صلاة مودع .))
معجم كبير للطبراني : ٤٤/٦، رقم: ٥٤٥٩ – الإصابة: ٧٠/٣- مسند احمد : ٤١٢/٥، رقم: ٢٣٤٩٨- حافظ ابن حجر نے اس کے راویوں کو ’’ثقہ‘‘ اور شیخ شعیب نے اس کی سند کو ’’حسن‘‘ کہا ہے۔
’’جب تم نماز پڑھو تو اسے الوداعی نماز سمجھ کر ادا کیا کرو۔“
اللہ اس شخص کا بھلا کرے جو اپنی نماز کی طرف متوجہ ہو تو خشوع وخضوع کا پیکر ہو، اللہ کے سامنے ذلت و پستی کا اعلیٰ ترین مظاہرہ کرے، خوف وخشیت سے کانپ رہا ہو، توقع رغبت اور امید کا دامن پھیلائے ہو اور اپنی سب سے بڑی آرزو اللہ تعالی کی ملاقات، اس سے مناجات، اس کے سامنے قیام وقعود اور رکوع وجود کا بہترین اہتمام کرے اور اس کے لیے اپنے دل و دماغ کو خالی کرے اور فرائض کے ادا کرنے میں محنت کرے کہ اسے نہیں معلوم کہ اس کے بعد اسے کوئی اور نماز پڑھنے کا موقع دیا جائے گا یا پہلے ہی کام تمام کر دیا جائے گا، وہ اپنے ربّ کے سامنے کھڑا ہو تو غم و حزن کا مجسمہ ہو، نماز کی مقبولیت کا متوقع اور اس کو رد کر دینے سے خائف ہو، اگر قبولیت حاصل ہوگئی تو با مراد اور اگر رو کردی گئی تو بد بخت ہوا۔
میرے بھائی! اس نماز اور دوسری عبادات کا معاملہ کتنا نازک اور اہم ہے اور غم وحزن اور حسرت و خوف کا کتنا متقاضی ہے، کیوں کہ آپ کو نہیں معلوم کہ اس نے آپ کی کوئی نماز قبول کی ہے یا نہیں؟ اور آپ نہیں جانتے کہ آپ کی کسی نیکی کو قبولیت حاصل ہوئی ہے یا نہیں؟ یا کوئی گناہ آپ کا معاف ہوا ہے یا نہیں؟ اس کے باوجود آپ ہنس رہے ہیں غفلت میں مست ہیں اور زندگی سے نفع کما رہے ہیں، حالانکہ آپ کو یہ یقین نہیں کہ آپ جہنم میں جائیں گے اور نہ یہ یقین ہے کہ آپ اس سے نکل بھی آئیں گے تو آپ سے زیادہ اور کوئی رونے اور رنجیدہ رہنے کا حقدار ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اعمال کو قبول کر لے؟ پھر آپ یہ بھی نہیں جانتے کہ شام کے بعد صبح بھی کر سکیں گے اور صبح کے بعد آپ پر شام بھی آئے گی اور آپ کو جنت کی بشارت مل جائے گی یا جہنم کی ، میرے بھائی ! میں آپ کو اس عظیم خطرہ کی یاد دہانی کرا رہا ہوں، آپ تو اس کے سزاوار ہیں کہ مال و اولاد اور احباب میں مست نہ ہوں، حیرت ہے کہ آپ پر غفلت و سرمستی کی دبیز چادر پڑی ہوئی ہے، آپ لہو ولعب میں مست ہیں اور اس عظیم خطرہ سے غافل ہیں اور ہر رات دن، ہر گھنٹہ، ہر لمحہ آپ زبردستی ہانکے جا رہے ہیں، میرے بھائی! اپنی معینہ مدت کا انتظار کرتے رہیے اور اس خطرہ سے غافل نہ ہو جائیے جس سے آپ کو سابقہ در پیش ہے، اس لیے کہ آپ کو موت کا مزہ چکھنا ہے، ہو سکتا ہے کہ صبح یا شام آپ پر آدھمکے اور آپ اپنی تمام ملکیت سے بے دخل کر دیئے جائیں اور جنت یا جہنم میں ڈال دیئے جائیں، ان دونوں کی صفات پر بڑی طویل گفتگوئیں ہو چکی ہیں۔
اور حکایات کا دامن بھر چکا ہے، کیا آپ نے عبد صالح کا یہ قول نہیں سنا۔
’’مجھے حیرت ہے کہ جہنم سے بھاگنے والا سو رہا ہے اور جنت کا طالب خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہے، اللہ کی قسم ! اگر تو فرار اور طلب سے باہر ہو گیا تو ہلاک ہو گیا اور تجھ سے بد بخت اور کوئی نہیں، اور کل عذاب یافتہ بدبختوں کے ساتھ تو روئے گا اور پریشان ہوگا۔ اور اگر تو کہتا ہے کہ میں جہنم سے فراری اور جنت کا طالب ہوں تو جس قدر عظیم خطرہ سے دو چار ہے، اس کے حساب سے تو اس کا احساس کر اور خبردار! جھوٹی آرزوئیں تجھے مبتلائے فریب نہ کریں ۔‘‘
نماز، از امام احمد بن مقبل تحقیق شیخ حمد حامد الفتی مقدمه ص: ۱۰۸-۱۱۰۔
نماز اور صبر و ثبات :
مومن اور مسلمان کی زندگی میں صبر اور نماز کی بڑی اہمیت ہے۔ اللہ کی راہ میں مصائب و شدائد کو جھیل جانے کا اہم ترین نسخہ صبر اور نماز ہے۔ یادر ہے کہ صبر کے بغیر تو کوئی کار خیر وجود میں آ نہیں سکتا، اور نماز کا لب لباب اللہ کے حضور دلی جھکاؤ کا نام ہے، جو ایمان و عمل کے میدان میں ثابت قدمی کے لیے سب سے بڑی مددگار ہے۔
جن کے دلوں میں اللہ کے لیے عاجزی اور جھکاؤ نہیں ہوتا، اُن پر نماز بہت بھاری ہوتی ہے۔ اور جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں، نماز میں انہیں سکون اور قرار ملتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ-وَ اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِیْنَ)
(البقرة : ٤٥)
’’اور مددلو صبر اور نماز کے ذریعہ، اور یہ نماز بہت بھاری ہوتی ہے، سوائے ان لوگوں کے جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں۔‘‘
اور دوسرے مقام پر فرمایا:
(یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ-اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ)
(البقرة : ١٥٣)
’’اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مددلو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
ڈاکٹر لقمان سلفی حفظہ اللہ اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اس آیت میں صبر اور نماز کی اہمیت بیان کی ہے، اور بتایا ہے کہ مومن کی زندگی میں ان دونوں چیزوں کی بڑی اہمیت ہے، اور اللہ کی راہ میں مصائب کو مجھیل جانے کا اہم ترین نسخہ صبر اور نماز ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ صبر کی تین قسمیں ہیں:
محرمات اور معاصی سے اجتناب پر صبر کرنا۔
اعمال صالحہ اور اللہ کی اطاعت پر صبر کرنا۔
مصائب و حادثات زمانہ پر صبر کرنا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اپنی کتاب ’’السياسة الشرعية‘‘ میں لکھتے ہیں :
حاکم کے لیے بالخصوص اور رعایا کے لیے بالعموم تین چیزیں عظیم مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
اللہ کے لیے اخلاص اور دعا اور غیر دعا کے ذریعہ اس پر توکل ، اور دل و جان سے نماز کی حفاظت و پابندی ، جو اللہ کے لیے اخلاص کی اصل ہے۔
مخلوق کے ساتھ بھلائی کرنا اور زکوۃ ادا کرنا۔
تکلیف، مصیبت اور حادثات زمانہ کے وقت صبر کرنا۔ انتہیٰ
(مزید برآں) اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور یہاں معیت سے مراد ’’معیت خاصہ‘‘ ہے، جو اللہ کی محبت اور اس کی نصرت وقربت پر دلالت کرتی ہے۔ یعنی اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، ان سے محبت کرتا ہے اور ان کی مدد کرتا ہے، اور صبر کرنے والوں کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا فضیلت ہو سکتی ہے کہ اللہ ان کے ساتھ ہے۔ اور معیت کی ایک دوسری قسم ’’معیت عامہ‘‘ ہے یعنی اللہ اپنے علم و قدرت کے ذریعہ اپنے بندوں کے ساتھ ہے۔ جیسا کہ اللہ نے فرمایا:
(وَ هُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ)
’’اور وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے جہاں تم ہو ۔‘‘
اور یہ ’’معیت‘‘ تمام مخلوق کے لیے ہے۔
نماز اور نصرت الہیٰ:
(تیسیر الرحمٰن بص: ۸۵-۸۶)
نمازی جب نماز میں کھڑا اور اللہ کی رحمت کی طرف متوجہ ہوتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کی خاص نصرت اور مدد فرماتا ہے، اور اس کی پریشانیوں کو دور فرماتا ہے، اس کا خود اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ۔ فرمانِ باری تعالی ہے:
(وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ)
(البقرة : ٤٥)
’’اور مددلو صبر اور نماز کے ذریعہ ۔‘‘
اور سورۃ طٰہٰ میں فرمایا:
((وَ اْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَیْهَاؕ))
(طه : ۱۳۲)
’’اور آپ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیجیے، اور خود بھی اس کی پابندی کیجیے۔‘‘
ڈاکٹر لقمان سلفی حفظ للہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں :
’’ابن المنذر، طبرانی اور بیہقی و غیرهم نے عبداللہ بن سلام سے روایت کی ہے، جس کی سند کو حافظ سیوطیؒ نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے گھرانے کو جب کوئی پریشانی لاحق ہوتی ، تو آپ انہیں نماز پڑھنے کا حکم دیتے اور (وَ أمْرُ أَهْلَكَ بِالصّلوة) پوری آیت پڑھتے ۔“
(تیسیر الامن ص: ۹۱۵)
اور سورۃ الحج میں فرمایا:
(فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ اعْتَصِمُوْا بِاللّٰهِؕ-هُوَ مَوْلٰىكُمْۚ-فَنِعْمَ الْمَوْلٰى وَ نِعْمَ النَّصِیْرُ)
(الحج : ٧٨)
’’پس مسلمانو! تم لوگ نماز قائم کرو، زکوۃ دو، اور اللہ سے اپنا رشتہ مضبوط رکھو، وہی تمہارا آقا ہے، پس وہ بہت ہی اچھا آقا اور بہت ہی بہترین مددگار ہے۔‘‘
جب نمازی نے یہ اعلان سن لیا کہ نماز نصرت الہیٰ کے حصول کا سبب ہے، تو وہ اپنی ہر نماز کی ہر رکعت میں اللہ سے بایں الفاظ مدد طلب کرتا ہے:
(إيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ)
(الفاتحة : ٤)
’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔‘‘
کہتے ہیں نماز میں (إِيَّاكَ نَسْتَعِين)
پھرتے ہیں پھر بھی در بدر مشکل کشائی کو
حافظ ابن قیمؒ فرماتے ہیں :
’’بندہ کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ ہر نماز میں (ایاك نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِين) لے۔ اس لیے کہ شیطان اسے شرک کرنے کا حکم دیتا ہے اور نفس انسانی اس کی بات مان کر ہمیشہ غیر اللہ کی طرف ملتفت ہو جاتا ہے، اس لیے بندہ ہر دم محتاج ہے کہ وہ اپنے عقیدہ توحید کو شرک کی آلائشوں سے پاک کرتا رہے۔
(تیسیر الرحمن میں :11)
سید نا ابن عباسؓ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ
” ہم تیری توحید بیان کرتے ہیں ، اے ہمارے رب! اور تجھ ہی سے ڈرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں، تیری بندگی کرنے کے لیے اور اپنے تمام امور میں ۔‘‘
(تفسیر ابن عباس ص:۳)
سید نا ابن عباسؓ کے متعلق آتا ہے کہ انہیں ازواج مطہراتؓ میں سے کسی کے انتقال کی خبر ملی ، تو فوراً سجدے میں گر گئے ، پس ان سے کسی نے دریافت کیا، کہ آپ اس وقت سجدہ کرتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ کا یہی فرمان ہے:
((إِذَا رَأَيْتُمْ آيَةً فَاسْجُدُوا .))
’’کہ جب تم کوئی نشانی دیکھو تو سجدہ کرو ۔‘‘
اور (مجھے بتاؤ کہ) نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہؓ کی وفات سے بڑھ کر اور نشانی کیا ہوگی ؟
سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ قبیلہ قضاعہ کے لوگوں میں سے دو شخص مسلمان ہو گئے ، ان میں سے ایک شہید ہو گیا اور دوسرا ایک سال بعد فوت ہوا، سیدنا طلحہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ وہ شخص جس کا ایک سال بعد انتقال ہوا تھا وہ شہید سے پہلے جنت میں داخل ہو گیا۔ مجھے بڑا تعجب ہوا، میں نے صبح کی تو اس خواب کا ذکر رسول اللہ ﷺ کے سامنے کر دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’جس شخص کا بعد میں انتقال ہوا کیا تم اس کی نیکیاں نہیں دیکھتے کس قدر زیادہ ہو گئیں؟ کیا اس نے بعد میں ایک رمضان کے روزے نہیں رکھے؟ اور سال بھر کی فرض نمازوں کی چھ ہزار اور اتنی اتنی رکعتیں زیادہ نہیں پڑھیں؟‘‘
مسند أحمد: ۳۳۳/۳، رقم: ۸۳۹۹ شعيب الأرناؤوط نے اس کی سند کو ’’حسن‘‘ کہا ہے۔
سیدنا طلحہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے صبح لوگوں کو اپنا خواب سنایا۔ سب کو اس بات پر تعجب ہوا کہ شہید کو جنت جانے کی اجازت بعد میں کیوں لی؟ حالانکہ اسے پہلے ملنی چاہیے تھی۔ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا:
اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں، بتاؤ؟ کیا بعد والے شخص نے ایک سال عبادت نہیں کی ؟ اس نے ایک رمضان کے روزے نہیں رکھے؟ اس نے ایک سال کی نمازوں کے اتنے اتنے سجدے زیادہ نہیں کیے ؟ سب نے عرض کیا:
جی ہاں اللہ کے رسول ! تو آپ ﷺ نے فرمایا:
پھر تو ان دونوں کے درمیان زمین آسمان کی مسافت کا فرق ہو گیا۔
سنن ابن ماجه، کتاب تعبیر الرؤيا، باب تعبير الرؤياء رقم : ۳۹۲۵- مسند أحمد: ١٦٣/١، رقم: مسند أبي يعلى، رقم : ٦٤٨- مجمع الزوائد: ٢٠٤/١٠ – صحیح ابن حبان، رقم: ۲۹۸۲۔ ابن حبان نے اسے ’’صحیح‘‘ اور شیخ شعیب نے ’’حسن لغیرہ‘‘ قرار دیا ہے۔
نماز رحمت الہیٰ کے نزول کا سبب ہے:
اللہ اور اس کے رسول احمد مجتبیٰ، محمد مصطفیٰ ﷺ پر ایمان لانے کا تقاضا ہے، کہ لوگ بھلائی کے کام کریں، جن میں سر فہرست توحید باری تعالیٰ ہے۔ اور صرف اسی کی عبادت کریں ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دیں اور ذکر الہیٰ میں مشغول رہنے کے لیے نماز پنجگانہ کی حفاظت کریں کیونکہ ان کی ان خوبیوں کے سبب دنیا میں ان پر رحمت الہیٰ کا
نزول ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللّٰهُؕ)
(التوبة : ٧١)
’’اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے مددگار (دوست) ہوتے ہیں، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، اور نماز قائم کرتے ہیں، اور زکوٰۃ دیتے ہیں، اور اللہ اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں اللہ انہی لوگوں پر رحم کرے گا۔
اللہ تعالیٰ نے اصحاب الرسول ﷺ کو بالخصوص اور دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کو بالعموم مخاطب کر کے فرمایا کہ تم نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور تمام معاملات زندگی میں رسول اللہ ﷺ کی فرمانبرداری کرو ۔ ایسا ہی کرنے سے رحمت باری تعالیٰ تم پر سایہ فکن رہے گی۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:
(وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ)
(النور: ٥٦)
’’اور مومنو! تم لوگ نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو، اور رسول کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے ۔‘‘
اگر کوئی شخص فرض نمازوں کے علاوہ نفل کا بھی اہتمام کرتا ہے تو وہ بھی رحمت الہیٰ کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ چنانچہ سید نا عبد اللہ بن عمرؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول مقبول ﷺ نے فرمایا:
((رحم الله إمرأ صلى قبل العصر أربعا .))
سنن ابو داؤد، کتاب الصلاة، باب الصلاة قبل العصر، رقم: ۱۲۷۱ سنن ترمذی، ابواب الصلاة، باب ماجاء في الأربع قبل العصر، رقم: ٤٣٠ – مسند ابو داؤد طیالسی، رقم: ۱۹۳۹ – مسند أحمد: ١١٧/٢ – السن برى للبيهقي : ٤٧٣/٢ – شرح السنة، رقم: ۸۹۳ صحیح ابن خزیمه، رقم: ۱۱۹۳۔ صحیح ابن حبان، رقم : ٢٤٥٣۔ ابن خزیمہ اور ابن حبان نے اسے ’’صحیح‘‘ اور علامہ البانی نے اسے ’’’حسن‘‘ کہا ہے۔
’’جو شخص نماز عصر سے قبل چار رکعتیں ادا کرتا ہے، اللہ تعالی اس پر رحم فرمائے ۔‘‘
نماز یاد الہیٰ کا بہترین طریقہ ہے:
دن وہی دن ہے شب وہی شب ہے
جو تیری یاد میں گزر جائے
یاد الہیٰ کا بہترین طریقہ نماز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰؑ کو نزول وحی کے ابتدا میں ہی فرمایا:
(اِنَّنِیْۤ اَنَا اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدْنِیْۙ-وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ)
(طٰهٰ:۱۴)
’’بے شک میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اس لیے آپ میری عبادت کیجیے اور مجھے یاد کرنے کے لیے نماز قائم کیجیے۔‘‘
’’سید نا موسیٰؑ ’’مدین‘‘ میں دس سال گزار کر اپنی بیوی کے ساتھ مصر کی طرف روانہ ہوئے ، تو مصلحت الہیٰ کے مطابق کوہِ طور کے قریب راستہ کھو بیٹھے، موسم سرما کی سرد اندھیری رات تھی، انہیں روشنی اور آگ دونوں کی ضرورت تھی ۔ کوہ طور کی طرف سے انہیں آگ کی روشنی نظر آئی تو اپنی بیوی سے بطور خوشخبری کہا کہ تم یہیں رکی رہو میں تمہارے لیے آگ لے کر آتا ہوں، یا شاید وہاں کوئی آدمی مل جائے جو ہماری رہنمائی کرے۔ سیدنا موسیٰؑ جب آگ کے قریب پہنچے تو وہاں معاملہ ہی دوسرا تھا۔ وہاں وادی کے داہنے جانب ایک درخت تھا جو بقعہ نور بنا ہوا تھا۔ وہاں سے آواز آئی ، اے موسیٰ! میں آپ کا رب ہوں اور آپ سے مخاطب ہوں، اور آپ اس وقت مقدس وادی طوئی میں کھڑے ہیں، اپنے رب کے لیے تعظیم و تواضع اور ادب کا اظہار کرتے ہوئے جوتے اتار دیجیے۔ یا مفہوم یہ ہے کہ اپنے جوتے اتار دیجیے تاکہ وادی مقدس کی برکات قدموں کے راستے آپ کے جسم میں سرایت کر جائیں۔ اور میں نے آپ کو اس زمانے کے تمام لوگوں کے درمیان چن لیا ہے اور اپنی نبوت ورسالت کے لیے اختیار کر لیا ہے، اس لیے اب آپ پر جو وحی نازل ہونے جارہی ہے اسے غور سے سنیئے اور اس کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار ہو جائیے۔ میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔ اس لیے صرف میری عبادت کیجیے اور مجھے یاد کرنے کے لیے نماز قائم کیجیے ۔ مفسرین لکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جو نماز نہیں پڑھتا وہ اللہ کو یاد کرنے والا نہیں کہلاتا ، بلکہ اس کا منکر ہے۔‘‘
(تیسیر الرحمٰن ص : ۸۹۰-۸۹۱)
اور سورۃ الاعلیٰ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بندے کو کامیابی کی خبر سنائی ہے جو اپنے نفس کا تزکیہ کر لیتا ہے یعنی اپنے آپ کو شرک و معاصی سے پاک کر لیتا ہے اور ہر لمحہ اور ہر گھڑی اپنے حقیقی خالق و مالک کی یاد میں رہتا ہے اور نیک اعمال کرتا ہے۔ اور خصوصاً نماز کی پابندی کرتا ہے جو کہ ایمان کی کسوٹی ہے۔
(قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى(14)وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰىﭤ(15))
(الأعلى: ١٥,١٤)
’’یقیناً وہ شخص کامیاب ہوگا جو پاک ہو گیا۔ اور اپنے رب کا نام لیتا رہا، پھر اس نے نماز پڑھی۔‘‘
مزید برآں فرمایا کہ نماز قائم کرو، یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے، اور اللہ کو یاد کرو کہ اللہ کی یاد اور ذکر ہر چیز سے بڑا ہے، کیونکہ در اصل یاد الہیٰ ہی انسانوں کو فخش اور برے کاموں سے روکتی ہے:
(اُتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنَ الْكِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَؕ-اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ-وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُؕ)
(العنكبوت: ٤٥)
’’آپ پر جو کتاب بذریعہ وحی نازل کی گئی ہے، اس کی تلاوت کیجیے، اور نماز قائم کیجئے ،بے شک نماز فخش اور برے کاموں سے روکتی ہے، اور یقیناً اللہ کی یاد تمام نیکیوں سے بڑی ہے۔‘‘
اور نماز اسی لیے برائیوں سے روکتی ہے کہ اس کے ذریعہ اللہ کو یاد کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نماز کو سورۃ الجمعہ میں ’’ذکر‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے:
(یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَ ذَرُوا الْبَیْعَؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ)
(الجمعه : ٩)
’’اے ایمان والو! جمعہ کے دن جب نماز کے لیے اذان دی جائے ، تو تم اللہ کو یاد کرنے کے لیے تیزی کے ساتھ لپکو، اور خرید وفروخت چھوڑ دو، اگر تم سمجھتے ہو تو ایسا کرنا تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے۔‘‘
اسی طرح سورۃ النور میں بھی نماز کو ذکر سے تعبیر کیا گیا ہے:
(رِجَالٌۙ-لَّا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوةِ وَ اِیْتَآءِ الزَّكٰوةِ ﭪ–یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْهِ الْقُلُوْبُ وَ الْاَبْصَارُ)
(النور: ۳۷)
’’ان لوگوں کو کوئی تجارت اور کوئی خرید و فروخت اللہ کی یاد اور نماز قائم کرنے سے اور زکوۃ دینے سے غافل نہیں کرتی ہے، وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جب مارے دہشت کے لوگوں کے دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی ۔‘‘
مذکورہ بالا آیت کریمہ میں یہ بیان ہے کہ اچھی جماعت وہی ہے جنہیں تجارت اور خرید و فروخت یاد الہیٰ یعنی اقامت نماز اور ادائیگی زکوٰۃ سے غافل نہیں کرتی ۔ آیت میں ’’ذکر اللہ‘‘ اور ’’اقام الصلوٰۃ‘‘ کو ’’واو‘‘ عاطفہ کے ساتھ ذکر کیا ہے، جس کا معنی تفسیر کا ہے، یعنی معطوف ’’اِقام الصلوۃ‘‘ اپنے معطوف علیہ ’’ذکر اللہ‘‘ کی تفسیر کر رہا ہے، معنی یوں ہوگا:
’’اللہ کی یاد یعنی نماز قائم کرنا ۔‘‘
نماز اصلاح انسانیت کا باعث ہے:
نماز انسانیت کی اصلاح کا باعث بھی بنتی ہے، ذیل کی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے دو قسم کا کام کرنے والے لوگوں کو اصلاح یافتہ قرار دیا ہے۔
کتاب اللہ پر تختی سے کار بند رہنے والے۔
➊ اور نماز قائم کرنے والے۔
➋ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(وَ الَّذِیْنَ یُمَسِّكُوْنَ بِالْكِتٰبِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَؕ-اِنَّا لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُصْلِحِیْنَ)
(الأعراف : ١٧٠)
’’اور جو لوگ اللہ کی کتاب پر سختی سے کار بند رہتے ہیں، اور نماز قائم کرتے ہیں، تو ہم یقینا ایسے نیک لوگوں کا اجر ضائع نہیں کرتے ہیں۔‘‘
نماز باعث نور و ہدایت ہے:
ذیل کی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نمازیوں کو ہدایت یافتہ قرار دیا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ وَ لَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰۤى اُولٰٓىٕكَ اَنْ یَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِیْنَ)
(التوبة : ١٨)
’’اللہ کی مسجدوں کو صرف وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، اور نماز قائم کرتے ہیں، اور زکوۃ دیتے ہیں، اور اللہ کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے ہیں، پس یہ لوگ امید ہے کہ ہدایت پانے والے ہیں ۔‘‘
اور سید نا ابو مالک اشعریؓ فرماتے ہیں کہ سید ولد آدم ، محمد رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((وَالصَّلاةُ نُورٌ))
صحیح مسلم، كتاب الطهارة، باب فضل الوضوء، رقم : ٥٣٤۔
’’اور نماز نور ہے۔‘‘
نماز اخوت دینی کو قائم کرتی ہے:
فرمان باری تعالیٰ ہے:
((فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَاِخْوَانُكُمْ فِی الدِّیْنِؕ))
(التوبة: ١١)
’’پھر اگر توبہ کر لیں ، اور نماز قائم کریں، اور زکوۃ دیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں۔‘‘
مذکورہ بالا آیت کریمہ میں اخوت دینی کو نماز قائم کرنے پر معلق کر دیا ہے، پس اگر کوئی شخص نماز چھوڑ دے تو وہ اس اخوت سے خارج ہو گیا۔
نماز کی اہمیت کا انوکھا طریقہ:
شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے، وہ اسے اس کے معبود برحق سے دُور ہٹانا چاہتا ہے، اس لیے وہ ناحق کو بھی حق بنا کر پیش کرتا ہے۔ طرح طرح کے وسواس انسانوں کے دلوں میں ڈالتا ہے، اور انہیں اللہ سے دُور کرنے کے لیے اللہ کی یاد یعنی نماز سے بھی روکنا چاہتا ہے، ابلیس مردود کا مقصد اولاد آدمؑ کی کثیر ترین تعداد کو گمراہ کرنا تھا تا کہ آدمؑ سے انتقام لے سکے جن کی وجہ سے وہ اللہ کی رحمت سے دُور کر دیا گیا، اور جب اللہ نے اسکی طلب (انظري إلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ) ’’مجھے تو اس دن تک مہلت دے جب سب اُٹھائے جائیں گے مان لی ، (قَالَ إِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ) ’’اللہ نے کہا، بے شک تجھے مہلت دے دی گئی تو عنادو تمرد میں اور آگے بڑھ کر کہا کہ جب تو نے مجھے گمراہ کر ہی دیا ہے تو !
(لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِیْمَ(16) ثُمَّ لَاٰتِیَنَّهُمْ مِّنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَ مِنْ خَلْفِهِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِهِمْ وَ عَنْ شَمَآىٕلِهِمْؕ-وَ لَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِیْنَ(17))
(الأعراف : ١٧٠١٦)
’’میں تیری سیدھی راہ پر ان کی گھات میں بیٹھا رہوں گا ، پھر میں ان پر حملہ کروں گا، ان کے آگے سے، اور ان کے پیچھے سے، اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے، اور تو ان میں سے اکثر لوگوں کو شکر گزار نہ پائے گا۔‘‘
حکمت الہیٰ دیکھیے کہ ابلیس کا یہ فطن اور وہم واقعہ کے مطابق ہو گیا کہ اکثر و بیشتر مخلوق اس کے پیچھے لگ گئی۔ معبود حقیقی کی صفات غیر اللہ میں منوا دیں اور قبر پرستی ، ارواح پرستی، رسوم تعزیہ داری ، علم ، خواجہ خضر کی ناؤ، قبروں پر عرضیاں، قبروں پر عرس ، ناچ گانے ، غیر اللہ کی نذرو نیاز ، بزرگوں کے نام کے ورد و وظائف ، فال گنڈے، بدشگونی اور عقید ہ نحوست، تو ہم پرستی، اصلی و نقلی قبروں کے سجدے اور طواف، ان پر پھولوں کی چادروں اور غلافوں کے علاوہ دیگر چڑھاوے نبی، ولی، پیر، شہید کو غیب دان جاننا، ان کی ارواح کو ہر جگہ حاضر و ناظر سمجھنا وغیرہ ایسی سینکڑوں بدعات اور بد عقیدگیاں داخل اسلام کر دیں، جیسا کہ
اللہ تعالیٰ نے سورہ سبا میں ارشاد فرمایا:
(وَ لَقَدْ صَدَّقَ عَلَیْهِمْ اِبْلِیْسُ ظَنَّهٗ فَاتَّبَعُوْهُ اِلَّا فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ)
(السبا: ٢٠)
’’اور ابلیس نے بنی آدم کے بارے میں اپنا گمان بیچ کر دکھایا، پس مومنوں کی ایک جماعت کے علاوہ سب نے اس کی پیروی کی۔‘‘
اسی لیے نبی برحق ﷺ نے شیطان سے تمام جہات یعنی ہر طرف سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی ہے، سید نا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ سید المرسلین ﷺ درج ذیل دعا صبح و شام کبھی بھی نہیں چھوڑتے تھے۔
((اللهم إني أستلك العفو والعافية فى الدنيا والآخرة، اللهم إني أستلك العفو والعافية فى ديني ودنياي وأهلي وما لي. اللهم استر عوراتي ومن روعاتي . اللهم احفظني من بين يدي ومن خلفي وعن يميني وعن شمالي ومن فوقى، وأعوذ بعظمتك أن أغتال من تحتى))
سنن ابو داؤد، کتاب الأدب، باب ما يقول إذا أصبح، رقم: ٥٠٧٤- سنن ابن ماجة، رقم: ۳۸۷۱- مصنف ابن أبي شيبة : ٢٤٠/١٠ – الأدب المفرد للبخاري، رقم: . صحیح ابن حبان، رقم: ٩٦١- مستدرك حاكم: ۵۱۷/۱ ابن حبان ، حاکم ، ذہبی اور علامہ البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
’’اے اللہ ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں معافی اور عافیت کا سوال کرتا ہوں ۔ اے اللہ ! میں اپنے دین ، اپنی دنیا ، اپنے اہل وعیال اور اپنے مال میں تجھ سے معافی اور عافیت کا سوال کرتا ہوں ۔ اے اللہ ! میری پردے والی چیزوں پر پردہ ڈال دے اور میری گھبراہٹوں کو امن میں رکھ ۔ اے اللہ ! میرے سامنے سے، میرے پیچھے سے ، میری دائیں طرف سے ، میری بائیں طرف سے ، اور میرے اوپر سے میری حفاظت فرما۔ اس بات سے میں تیری عظمت کی پناہ چاہتا ہوں کہ اچانک اپنے نیچے سے ہلاک کر دیا جاؤں ۔‘‘
اس دعا میں مظہر خلق عظیم ﷺ نے اللہ کے ذریعہ مردود شیطانوں کے شر سے پناہ مانگی ہے۔ لیکن انسانوں کو چاہیے کہ وہ ذکر الہیٰ اور نماز سے نہ رکیں تا کہ اللہ رب العزت سے ان کا تعلق برقرار رہے ، یہی درس اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں دیا ہے جو کہ نماز کی اہمیت کو بیان کرتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ عَنِ الصَّلٰوةِۚ-فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ)
(المائدة : ٩١)
’’بے شک شیطان شراب اور جوا کی راہ سے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض پیدا کرنا چاہتا ہے، اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روک دینا چاہتا ہے، تو کیا تم لوگ اب باز آ جاؤ گے۔‘‘
اور انسانیت کے محسن اعظم ﷺ کا فرمان ہے:
((إن أحدكم إذا قام يصلى جاء الشيطان فلبس عليه حتى لا يدري كم صلى فإذا وجد ذلك أحدكم فليسجد سجدتين وهو جالس .))
صحيح البخاري، كتاب السهو، باب السهو في الفرض والتطوع ۱۲۳۲۔ صحیح مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلاة، باب السهو في الصلاة والسجود له ، رقم : ٣٨٩.
’’تم میں سے کوئی جب نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو شیطان پہنچ جاتا ہے، اس کو مغالطے میں مبتلا کر دیتا ہے، یہاں تک کہ اسے خبر ہی نہیں رہتی کہ اس نے کتنی نماز پڑھی ہے۔ چنانچہ جب تم میں سے کسی کو ایسی صورت در پیش ہو تو وہ بیٹھے بیٹھے دو سجدے کر لے۔‘‘
مزید رحمت عالم ﷺ کا فرمان ہے:
((إن الشيطان ياتي أحدكم فى صلاته فيقول : أذكر كذا ، أذكر كذا لما لم يكن يذكر، حتى يظل الرجل لا يدري كم صلى؟))
صحيح البخاری، کتاب الاذان، باب فضل التادين.
’’شیطان تمہارے پاس نماز میں آ کر کہتا ہے فلاں فلاں کام یاد کرو، جن کا نمازی کو پہلے وہم و گمان تک نہ تھا ، حتی کہ انسان کو وہ یہ بھی بھلا دیتا ہے کہ اس نے کتنی نماز پڑھی ہے۔‘‘
اور حضور انور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ:
((إذا أذن بالصلاة أدبر الشيطان له ضراط حتى لا يسمع التأذين ، فإذا قضي التاذين أقبل ، فإذا ثوب بالصلوة أدبر ، فإذا قضي التنويب أقبل حتى يخطر بين المرء ونفسه ، يقول: اذكر كذا وكذا ما لم يكن يذكر ، حتى يظل لا يدري كم صلى؟ فإذا وجد أحدكم ذلك فليسجد سجدتين وهو جالس))
صحيح البخاري كتاب السهو، باب اذا لم يدركم صلى …… الخ، رقم : ١١٧٤۔ صحیح مسلم، كتاب الصلاة، باب فضل الأذان، رقم : ۳۸۹۔
’’جب مؤذن نماز کی اذان دیتا ہے تو شیطان دُور بھاگتا ہے اور اس کی ہوا نکلتی جاتی ہے، تاکہ وہ اذان کے الفاظ نہ سن لے۔ جب اذان ختم ہوتی ہے تو وہ واپس لوٹ آتا ہے، پھر جب اقامت ہوتی ہے تو بھاگ جاتا ہے، جس اقامت ختم ہوتی ہے تو واپس پلٹ آتا ہے حتی کہ انسان کے خیالات میں گھس جاتا ہے، اور اسے ایسی ایسی چیزیں یاد دلاتا ہے جو اس کے وہم و گمان میں نہیں ہوتیں، حتی کہ اسے یہ بھی خبر نہیں رہتی کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ جب تم میں سے کسی کے ساتھ یہ معاملہ ہو تو وہ بیٹھے بیٹھے دو سجدے کر لے۔‘‘
نماز باعث سکون واطمینان ہے:
جو شخص آخرت پر یقین رکھتا ہے، نماز میں اسے سکون ملتا ہے، اور جس کے دل کا میلان اللہ کی طرف نہ ہو، اس پر نماز بہت بھاری ہوتی ہے ۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ-وَ اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِیْنَ(45)الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَ اَنَّهُمْ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ(46))
(البقرة : ٤٦,٤٥)
’’اور مدد لو صبر اور نماز کے ذریعے، اور یہ (نماز) بہت بھاری ہوتی ہے، سوائے ان لوگوں کے جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں، جو یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں، اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔‘‘
اور امام المتقین ، خاتم النبیین، محمد ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
((حب إلى من دنياكم النساء والطيب ، وجعلت قرة عيني فى الصلاة .))
مسند احمد: ۱۹۹،۱۲۸/۳- سنن نسائى كتاب عشرية النساء، باب حب النساء، رقم: ٣٩٤٩- مستدرك حاكم : ١٦٠/٢ – صحيح الجامع الصغير، رقم: ٣١٢٤.
’’دنیاوی چیزوں سے مجھے اپنی بیویاں اور (دوسرے نمبر پر) خوشبو پسند ہے، اور نماز تو میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔‘‘
آپ ﷺ سیدنا بلالؓ کو فرماتے :
((يا بلال: أقم الصلاة ، أرحنا بها .))
سنن ابو داؤد، كتاب الأدب، باب في الصلاة العتمة، رقم : ٤٩٨٥- المشكاة، رقم: ١٢٥٣- علامه البانیؒ نے اس کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے ۔
’’اے بلال! ہمیں نماز سے راحت پہنچاؤ۔‘‘
نماز فجر ، مال غنیمت کے حصول سے بھی زیادہ فضیلت والی ہے:
سیدنا ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسا لشکر روانہ کیا جس نے بکثرت غنیمت حاصل کی اور بہت جلدی واپس لوٹا، ایک آدمی نے کہا:
اے اللہ کے رسول ! ہم نے کوئی ایسا لشکر نہیں دیکھا جو اس سے جلدی لوٹنے والا اور زیادہ غنیمت حاصل کرنے والا ہو ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
کیا میں تمہارے لیے ایسے لشکر کی نشاندہی نہ کروں جو اس سے بھی جلدی لوٹنے والا اور زیادہ غنیمت حاصل کرنے والا ہے؟ ایک آدمی جو گھر میں اچھے انداز میں وضو کرتا ہے۔ پھر مسجد کی طرف جاتا ہے، نماز فجر ادا کرتا ہے، پھر نماز چاشت کے لیے وہیں بیٹھا رہتا ہے، ایسا آدمی جلدی لوٹنے والا اور زیادہ غنیمت حاصل کرنے والا ہے۔
سلسلة الصحيحة، رقم: ٢٥٣١.
نماز اور فکر آخرت:
مجھے بھی کچھ فکر آخرت ہو بہت ہی غفلت شعار ہوں میں
رہا میں بیکار زندگی بھر بس اب تو مشغول کار ہوں میں
’’آخرت‘‘ سے مراد ہر وہ بات ہے جو موت کے بعد وقوع پذیر ہوگی ۔ آخرت کی فکر ، اور ایمان بالآخرة ، ایمان کا ایک رکن ہے، آخرت پر یقین و ایمان آدمی کو نماز اور اس جیسے اعمال صالحہ پر ابھارتا اور عذاب الہیٰ سے ڈراتا ہے۔
(الٓمّٓ(1)ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْهِ ۚۛ-هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ(2) الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ(3) وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَۚ-وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَﭤ(4))
(البقرة : ١ تا ٤)
’’الم، اس کتاب میں کوئی شک و شبہ نہیں، اللہ سے ڈرنے والوں کی راہنمائی کرتی ہے، جو غیبی امور پر ایمان لاتے ہیں، اور نماز قائم کرتے ہیں، اور ہم نے ان کو جو روزی دی ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں، اور جو ایمان لاتے ہیں اس کتاب پر جو آپ پر اُتاری گئی، اور اُن کتابوں پر جو آپ سے پہلے اُتاری گئیں، اور جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا:
(وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَؕ-وَ مَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْهُ عِنْدَ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ)
(البقرة : ١١٠)
’’اور نماز قائم کرو، اور زکاۃ دو، اور جو بھلائی بھی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے، اسے اللہ کے پاس پاؤ گے، اللہ تمہارے کاموں کو خوب دیکھ رہا ہے۔‘‘
اور سورۃ النساء میں مومنین جو نماز قائم کرتے ہیں اور آخرت پر ان کا ایمان ہوتا ہے، کا تذکرہ کرتے ہوئے یوں بیان فرمایا:
(لٰـكِنِ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ مِنْهُمْ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَ الْمُقِیْمِیْنَ الصَّلٰوةَ وَ الْمُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-اُولٰٓىٕكَ سَنُؤْتِیْهِمْ اَجْرًا عَظِیْمًا)
(النساء: ١٦٢)
’’لیکن ان میں سے علم راسخ رکھنے والے، اور ایمان دار لوگ اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں جو آپ پر اُتاری گئی ، اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے اُتاری گئی، اور جو نماز قائم کرنے والے ہیں، اور زکاۃ دینے والے ہیں اور اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں، انہیں ہم اجر عظیم عطا کریں گے ۔‘‘
آخرت میں سب سے پہلے نماز کا حساب ہوگا:
روز محشر کہ جاں گداز بود
اولین پرسش نماز بود
روز قیامت ہر کسی سے حقوق اللہ میں سے سب سے پہلا سوال نماز کے متعلق ہو گا ، یہ چیز بھی نماز کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ چنانچہ کائنات کے ہادی اعظم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((أول ما يحاسب به العبد صلاته .))
مسند أحمد : ٦٥/٤، رقم : ١٦٦١٤ – مستدرك حاكم : ۲۶۳/۱ ۔ شیخ شعیب الارناؤوط نے اس کو ’’صحیح‘‘کہا ہے۔
’’بندے سے سب سے پہلے جس عمل کا حساب لیا جائے گا، وہ نماز ہے ۔‘‘
نماز تمام مشکلات کا حل ہے:
مرض بڑھتا نہیں مٹ جاتا ہے عشرت ان کا
جس نے دربار الہیٰ سے شفا مانگی ہے
مشکل حالات میں نماز کا سہارا لینا چاہیے، جب اللہ تعالیٰ مددگار بن جائے تو پھر کیا مجال ہے کہ کوئی مشکل باقی رہ جائے ، امام اعظم محبوب سبحانی، ابوالقاسم محمد ﷺ کا معمول تھا کہ:
((إذا حزبه أمر صلى .))
سنن ابو داؤد، کتاب الصلاة، رقم: ۱۳۱۹ صحیح ابو داؤد، الالباني : ٣٦١/١۔
’’آپ ﷺ کو جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تو آپ نماز پڑھتے ۔“
سیدنا ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((إن الله تعالى يقول: يا ابن آدم! تفرع لعبادتي أملا صدرك غني ، وأسد فقرك ، وإن لم تفعل ملات يدك شغلا ، ولم اسد فقرك .))
سنن ترمذى، كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله، رقم : ٢٤٦٦- صحيح الترمذي، رقم : ٢٠٠٦۔
یقیناً اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اے ابن آدم ! میری عبادت کے لیے خود کو فارغ کرو، یعنی توجہ اور دلجمعی سے میری عبادت کرو، میں تیرے سینے کو تو نگری سے بھر دوں گا، اور تیری محتاجی کو ختم کر دوں گا۔ اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو میں تیرے ہاتھ کاموں میں اُلجھا دوں گا اور تیری مفلسی ختم نہ کروں گا ۔‘‘
نو مسلم کو سکھائی جانے والی پہلی چیز نماز ہے:
ہادی کائنات، محمد رسول اللہ ﷺ نو مسلم شخص کو سب سے پہلے نماز کی تعلیم دیا کرتے ، چنانچہ ابو مالک اشجعی اپنے والد گرامی سے بیان کرتے ہیں کہ:
((وكان رسول الله إذا أسلم الرجل كان أول ما يعلمنا الصلاة أو قال: علمه الصلاة .))
مسند البزار، رقم: ٣٣٨٤- مجمع الزوائد : ۲۹۳/۱۔ علامہ ہیثمی فرماتے ہیں: اس کے راوی صحیح کے راوی ہیں۔
’’رسول کریم ﷺ نئے نئے مسلمان ہونے والے شخص کو سب سے پہلے نماز کی تعلیم دیتے تھے۔‘‘
گھر والوں کو نماز کا حکم دینا:
نماز کی اہمیت کا اندازہ یہاں سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو حکم دیا کہ وہ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(و أمرُ أَهْلَكَ بِالصَّلوةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَيْهَا)
(طٰهٰ: ۱۳۲)
’’اور آپ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیجیے اور خود بھی اس کی پابندی کیجیے ۔‘‘
اس لیے کہ مرد اپنے اہل خانہ کے بارے میں مسئول ہے:
((الرجل راع فى أهله ومسئول عن رعيته .))
صحیح بخارى، كتاب الجمعة في القرى والمدن، رقم: ۸۹۳َ۔
’’مرد اپنے اہل خانہ کا نگہبان ہے، لہٰذا اپنی اس رعایا کے متعلق اس سے پوچھا جائے گا۔‘‘
جو شخص رات کو بیدار ہو اور نماز پڑھے، اور پھر اپنی بیوی کو بھی نماز کے لیے جگائے تو وہ رحمت الہیٰ کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ چنانچہ سیدنا ابو ہریرہؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((رحم الله رجلا قام من الليل فصلى وأيقظ امرأته، فإن أبت نضج فى وجهها الماء ، رحم الله إمرأة قامت من الليل فصلت وأيقظت زوجها فإن أبى ، نضجت فى وجهه الماء))
سنن أبو داؤد، کتاب الصلاة، باب قيام الليل، رقم: ۱۳۰۸- صحيح أبو داؤد، للألباني : ۳۵۸/۱۔
’’اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھے ، اور اپنی اہلیہ کو بھی جگائے، اور اگر وہ نہ اُٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے۔ اللہ تعالی اس عورت پر بھی رحم فرمائے جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھے، اور اپنے خاوند کو بھی جگائے۔ پس اگر وہ انکار کرے تو وہ اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے ۔
اولاد کو نماز کی تعلیم دو:
لقمانؑ اپنے بیٹے کو بوقت وفات وصیتیں کرتے ہیں، تو نماز کی بھی تاکید کرتے ہیں:
(یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوةَ وَ اْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ انْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ اصْبِرْ عَلٰى مَاۤ اَصَابَكَؕ-اِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ)
(لقمان : ۱۷)
’’اے میرے بیٹے ! نماز قائم کر ، بھلائی کا حکم دے، اور برائی سے روک، اور تجھے جو تکلیف پہنچے اس پر صبر کر، بے شک یہ سارے کام بڑی ہمت کے اور ضروری ہیں ۔‘‘
لقمانؑ کا اپنے بیٹے کے لیے (یٰبُنَیَّ) صیغہ تصغیر لانا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اولاد کو بچپن ہی سے نماز کا عادی بنانا چاہیے۔ اور ابتدائی طور پر تعلیم پیار سے ہو۔
مذکورہ بالا آیت کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ شوکانیؒ فرماتے ہیں کہ:
’’آیت میں مذکورہ اعمال ’’اقامة الصلوٰة، أمر بالمعروف و نهى عن المنكر اور صبر على المصيبة‘‘ کو بطور خاص اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ یہ تمام عبادات اور امور خیر کی اساس ہیں۔‘‘
(فتح القدیر: ۲۳۹/۴)
ابن جریجؒ کا کہنا ہے:
’’ (إِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ) کا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مذکورہ بالا امور اعلیٰ ترین اخلاق اور حصول نجات کے لیے اہم ترین اعمال ہیں ۔‘‘
(تفسیر قرطبی : ۴۷/۱۴)
دس برس کی عمر تک اگر بچہ نماز کا عادی نہ بنے تو اسے مار کر نماز پڑھوانی چاہیے، رہبر کامل ، ہادی کائنات ﷺ نے فرمایا:
((مروا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع سنين، واضربوهم عليها وهم أبناء عشر ، وفرقوا بينهم فى المضاجع .))
سنن أبو داود، كتاب الصلاة، باب متى يؤمر الغلام بالصلاة، رقم: ٤٩٥- صحيح أبو داود. للألباني : ١٤٤/١-١٤٥.
’’تم اپنی اولا د کو سات برس کی عمر میں نماز پڑھنے کا حکم کرو، جب دس برس کے ہو جائیں تو انہیں نماز نہ پڑھنے پر سزا دو، اور ان کے بستر بھی الگ کر دو۔‘‘
نماز کے فوائد:
حافظ ابن قیمؒ نے ’’زاد المعاد‘‘ میں نماز کے کچھ فوائد بیان کیے ہیں، وہ اور کچھ مزید بھی حسب ذیل ہیں۔ چنانچہ یاد رہے کہ نماز:
حصول رزق کا باعث ہے۔ پریشانی سے نجات دیتی ہے۔
دل کو تقویت دیتی ہے۔ جان کے لیے فرحت بخش ہے۔
جسم میں نشاط پیدا کرتی ہے۔ شرح صدر کا ذریعہ ہے۔
دل کو منور کرتی ہے۔ عذاب الہی سے حفاظت کا سبب ہے۔
شیطان سے دور رکھتی ہے۔ محافظ صحت ہے۔
بیماریوں کو رفع کرنے والی ہے۔ چہرے کو منور کرتی ہے۔
سستی و کاہلی کو دور بھگاتی ہے۔ قوائے جسم کو دوبالا کرتی ہے۔
روح کی غذا ہے۔ نعمت الہی کی محافظ ہے۔
باعث برکت ہے۔ اور رحمٰن کے قریب کرتی ہے۔
خوف الہیٰ کا درس دیتی ہے۔ ذکر الہی کا ذریعہ ہے۔
نماز جنت کی کنجی ہے۔ رحمت الہی کے نزول کا ذریعہ ہے۔
نماز نیکی ہے۔ نماز برائی اور بے حیائی سے روکتی ہے۔
اللہ سے محبت کی علامت ہے۔ نماز نعمتوں کی شکر گزاری ہے۔
نماز بھلائی کا دروازہ ہے۔ اللہ اور بندے کے درمیان رابطہ ہے۔
نماز بندگی کا اظہار ہے۔ نماز اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ ہے۔
نماز باعث ہدایت ہے۔ نماز سنت نبوی سے محبت کا اظہار ہے۔
نماز فکر آخرت پیدا کرتی ہے۔ نماز استغفار کا درس دیتی ہے۔
نماز صبر و ثبات کا ذریعہ ہے۔ نماز سے نصرت الہی حاصل ہوتی ہے۔
نماز اصلاح انسانیت کا باعث ہے۔ نماز رجوع الی اللہ کی طرف قدم ہے۔
نماز اخوت دینی کو قائم کرتی ہے۔ نماز گناہوں سے پاک ہونے کا ذریعہ ہے۔
نماز شیطان سے دشمنی کا اظہار ہے۔ نماز عذاب قبر کے سامنے ڈھال ہے۔
دنیا سے بے رغبتی اور تعلق باللہ کا ذریعہ ہے۔