نماز کی ابتدا میں تکبیر واجب
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
وَرَبَّكَ فَكَبِّرُ
[المدثر: 3]
”اپنے رب کی کبریائی بیان کرو۔“
➋ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
مفتاح الصلاة الطهور وتحريمها التكبير وتحليلها التسليم
[حسن: صحيح أبو داود: 577 ، كتاب الصلاة: باب الإمام يحدث بعد ما يرفع رأسه …..، أبو داود: 618 ، ترمذي: 3 ، ابن ماجة: 275 ، أحمد: 129/1 ، دارمي: 175/1]
”نماز کی کنجی وضوء ہے اسکی تحریم تکبیر ہے اور اس کی تحلیل سلام ہے ۔ “
➌ مسیئ الصلاۃ کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تکبیر کہنے کا بھی حکم دیا۔
[بخاري: 6251 ، كتاب الاستئذان: باب من رد فقال عليك السلام ، مسلم: 397]
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی انسان کی نماز اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک کہ وہ وضوء نہ کرے اور تکبیر نہ کہے۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 723 ، كتاب الصلاة: باب صلاة من لا يقيم صلبه فى الركوع والسجود ، أبو داود: 857]
➎ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر کے ساتھ نماز شروع کرتے تھے ۔ “
[مسلم: 498 ، كتاب الصلاة: باب ما يجمع صفة الصلاة وما يفتتح به]
ان تمام دلائل سے معلوم ہوا کہ ابتدائے نماز میں صرف تکبیر کہنا ہی واجب ہے۔
(جمہور) اسی کے قائل ہیں۔
(ابوحنیفہؒ) ہر ایسے لفظ کے ساتھ نماز کی ابتدا کی جاسکتی ہے جسے تعظیم کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مثلاََ اللہ اجل یا اعظم یا الرحمٰن آکبر۔
(ابو یوسفؒ ، محمدؒ) یہ الفاظ جائز نہیں ہیں البتہ اللہ اکبر یا واللہ اکبر یا واللہ الکبیر کہنا درست ہے ۔
[شرح المهذب: 252/3 ، الحاوى للماوردي: 93/2 ، روضة الطالبين: 336/1 ، المبسوط: 35/1 ، شرح فتح القدير: 246/1 ، قدوري: ص/39-40]
(راجح) صرف اللہ اکبر ہی کہا جائے گا جیسا کہ احادیث سے واضح طور پر ثا بت ہے۔
تکبیر تحریمہ کے ساتھ رفع الیدین بھی مشروع ہے
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو :
رفع يديه حتى يكونا حذو منكبيه ثم يكبر
[بخارى: 736 ، كتاب الأذان: باب رفع اليدين إذا كبر وإذا ركع وإذا رفع ، مسلم: 22]
”اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھاتے پھر تکبیر کہتے ۔“